نقل — خود سے کی گئی بے وفائی

السلام علیکم معزز حاضرین،

شاید کچھ لوگوں کو میرا موضوع سن کر دلچسپی محسوس نہ ہو، لیکن میری گزارش ہے کہ صرف ایک لمحے کے لیے غور فرمائیے۔ یہ صرف ایک عام سی بات نہیں، بلکہ ایک حساس حقیقت ہے۔ ایک ایسا معاملہ ہے جو صرف نمبروں کا نہیں، بلکہ کردار، ایمان اور ضمیر کا ہے۔

آج ہم بات کریں گے نقل کی۔ لیکن یہ نقل صرف کمرہ امتحان کی نہیں، بلکہ اس دھوکے کی ہے جو ہم خود اپنے آپ سے کرتے ہیں۔

ہم امتحان میں نقل کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم ہوشیار ہیں، ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا۔ لیکن کیا ہم بھول گئے کہ اللہ تعالیٰ ہر لمحہ ہمیں دیکھ رہا ہے؟
ہم ان آنکھوں سے نقل کرتے ہیں جن کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ "وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔"

کمرہ امتحان میں نقل کرنا صرف سوالات کے جوابات چرانا نہیں، بلکہ اپنی محنت، اپنے اساتذہ کے اعتماد، اور اپنے والدین کی امیدوں کا خون کرنا ہے۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جو طالب علم دن رات محنت کرتا ہے، نیند قربان کرتا ہے، دل لگا کر تیاری کرتا ہے — جب وہ دیکھتا ہے کہ ایک دوسرا طالب علم نقل کر کے اس سے زیادہ نمبر حاصل کر لیتا ہے تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہے؟

کیا یہی انصاف ہے؟

آیئے خود سے سوال کریں:
کیا ہم واقعی اس دنیا کی وقتی چمک کے پیچھے اپنی آخرت کو بھول چکے ہیں؟
کیا کامیابی کا مطلب صرف نمبر حاصل کرنا ہے، چاہے وہ جھوٹ، فریب اور دھوکے سے ہی کیوں نہ ہو؟

ایک سچا مؤمن وہی ہوتا ہے جو راستہ کٹھن ہو تب بھی صبر کرتا ہے، گرتا ہے مگر غلط راستہ اختیار نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا رب اس کی محنت کو دیکھ رہا ہے، اور اسی کے لیے وہ دیانت کے راستے پر چلتا ہے۔

معزز حاضرین،
میری آپ سے التجا ہے —
ایک لمحہ نکال کر سوچیے۔
اپنے دل سے، اپنے ضمیر سے، اور اپنے والدین کی محبت سے پوچھیے کہ نقل کا یہ راستہ ہمیں کہاں لے جا رہا ہے؟
کیا یہ وقتی فائدہ اس عزت، اس سکون، اور اس خودداری سے بڑھ کر ہے جو ہمیں سچائی سے ملتی ہے؟

شاید میری آواز ہر کسی تک نہ پہنچے،
لیکن اگر کسی ایک کا دل بدل جائے،
کسی ایک طالب علم کا ضمیر جاگ جائے،
تو سمجھوں گی کہ میری یہ کوشش کامیاب رہی۔

والسلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته
 

Halima
About the Author: Halima Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.