میں ایک استاد ہوں، پڑھانے کے بعد امتحان لیتا ہوں تو اس
کا رزلٹ کبھی دیر سے نہیں دیتا۔ ایک عادت بنا لی ہے کہ جس دن امتحان ہوا۔
اس دن گھر پہنچ کر کوئی دوسرا کام نہیں کرنا سوائے پیپر مارکنگ کے۔ تھوڑے
پیپر ہوں تو کام اسی دن نپٹ جاتا ہے اور اگر زیادہ ہوں تو ان کے ختم ہونے
تک سارے فالتو کام ملتوی کر دیتا ہوں۔ فارغ ہونے کے اگلے دن بچوں کو پیپر
دکھانے کے بعد فوری رزلٹ بھی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کرکے اپنے فرض سے عہدہ برا
ہو جاتا ہوں۔ میرے شاگرد میرے بچوں کی طرح ہوتے ہیں ، ان کی جائز بات سنتا
بھی ہوں اور کہیں کسی کی جائز بات سمجھ آ جائے تو مدد کرنے سے بھی دریغ
نہیں کرتا۔میرے نزدیک اچھا استاد وہ ہے جو طلبا کے لئے انتہائی قابل رسائی
ہو، ان کی جائز باتیں سنے اور جہاں تک ممکن ہو ان کی مدد کرے۔ خلیل جبران
نے کہا کہ تم اس شخص کو بھول سکتے ہو جس کے ساتھ ہنسے ہو مگر اس شخص کو
نہیں بھول سکتے جس کے ساتھ روئے ہو۔ بچے جب پڑھائی یا امتحان کی وجہ سے بہت
پریشان ہوتے ہیں تو ان کی بات دھیان سے سننا، انہیں گائڈ کرنا اور حوصلہ
دینا ان کے رونے میں شریک ہونے جیسا ہی ہوتا ہے اور جو استاد ایسا کرتے ہیں
بچے ان کا احترام بھی کرتے ہیں اور انہیں بھولنا تو سوچ بھی نہیں سکتے۔بچوں
کے دل میں جگہ بنانے کے لئے ایک تو استاد کو ان تک کچھ نہ کچھ ڈلیور کرنا
ہوتا اور دوسرا اپنے طرز عمل سے یہ بتانا ہوتا ہے کہ ہر طالب علم انہیں
اپنے بچوں ہی کی طرح عزیز ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اسی انداز میں کام
کروں۔
حال ہی میں میں نے ایک سیمسٹر ختم ہونے پر اس کا رزلٹ جمع کرادیا۔ آن لائن
معروضی (Objective)امتحان تھا۔ حکومتی ہدایات کے مطابق آسان پیپر اور آسان
مارکنگ کی گئی تھی ۔ بچے خوش تھے۔ ایک مہینہ گزرنے کے بعد چند دن پہلے ایک
بچے کا فون آیا کہ ڈیپارٹمنٹ میں حکومت کی ہدایت پر ایک نوٹس لگا ہے کہ جسے
اپنے پیپر کی مارکنگ پر کچھ اعتراض ہے وہ پیپر کودوبارہ مارک کروا لے۔مجھے
اپنے پیپر پر بہت سے اعتراض ہیں اس لئے آپ مہربانی کرکے فوراً میرے نمبر
بڑھا دیں۔میں نے ڈیپارٹمنٹ میں بھی بات کر لی ہے ۔ بس یہ آپ کا اختیار ہے۔
میرے پندرہ بیس نمبر کم لگے ہیں وہ پورے کر دیں۔ میں نے کہا ، بیٹا کیوں کر
دوں ، کیا اعتراض ہے کچھ بتاؤ تو سہی۔ کہنے لگا، دیکھیں میں فلاں پسماندہ
علاقے سے ہوں اور اس میں بھی جو فلاں پہاڑ کا علاقہ جہاں میرا گھر ہے
انتہائی پسماندہ ہے، اس کا کچھ لحاظ، کچھ تو نمبر بنتے ہیں۔لوگوں کے سو
نمبر بھی ہیں میرے صرف اسی(80) ہیں۔میں ہنس دیا کہ بیٹا پسماندگی کا کوئی
نمبر نہیں ہوتا۔ تم نے ماشا اﷲ بہت اچھے نمبر لئے ہیں۔ پسماندہ علاقے کا یہ
تم پر بڑا احسان ہے کہ تم کو یہاں تک تعلیم حاصل کرنے بھیج دیا۔ اسے اس
علاقے کا قرض سمجھو اور محنت کرو، کامیابی حاصل کرکے اس علاقے کی خدمت کرو
اور اس طرح یہ قرض اتارو۔ اسے بات سمجھ آ گئی اور وہ خوش واپس چلا گیا۔مگر
حکومت کی کمزور اور فضول پالیسیوں نے بچوں کو گمراہ کر دیا ہے۔ وہ پڑھنا
چاہتے ہی نہیں فقط ڈھیر سارے نمبر ان کا مطمع نظر ہے، چاہے جیسے بھی دئیے
جائیں۔
کوڈ۔19 نے جہاں دنیا کو پوری طرح بدل کے رکھ دیا ہے وہاں نظام تعلیم کو بھی
بڑی تبدیلیوں کا محور بنایا ہے۔ساری تعلیم آن لائن ہو گئی ہے۔دنیا بھر کی
یونیورٹیوں میں آن لائن ایجو کیشن کا سکولوں سے بہت مختلف انداز ہے۔ وہاں
آن لائن کلاس ہوتی ہے، آن لائن سوال جواب ہوتے ہیں اور آن لائن انٹر ایکشن
ہوتا ہے۔ پہلے استاد کسی موضوع پر لیکچر دیتا ہے ۔ وہ موضوع مکمل ہونے میں
اک دو سے لے کر کافی زیادہ تک لیکچرہو سکتے ہیں۔ ان لیکچرز کے اختتام پر آن
لائن سوال جواب ہو تے ہیں۔ لوگ سوال ای میل کرتے ہیں۔ استاد ایک یا دو
نشستوں میں ان کا مکمل جواب دیتا ہے۔ آخر میں ایک دن طلبا اور استاد کا
انٹرایکشن ہوتا ہے۔ اس گفتگومیں طلبا اپنی ان تمام خامیوں کو دور کرتے ہیں
جو لیکچر یا سوال جواب میں رہ جاتی ہیں۔ جو بچہ لیکچر سننے کو کمپیوٹر آن
کرتا ہے، کمپیوٹر اسی وقت اس کی حاضری خود بخود لگا لیتا ہے حتیٰ کہ وہ
کتنی دیر کلاس میں موجود رہا ، وہ بھی کمپیوٹر بتا دیتا ہے۔ہم نے آن لائن
کو مذاق بنایا ہوا ہے۔ ساری آن لائن کلاسیں اندازے سے ہوتی ہیں اور ہمارے
استاد کو سب سے زیادہ غرض حاضری سے ہوتی ہے۔ ہم انٹر ایکشن کی مدد سے گپ شپ
میں وقت گزارتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ علم کی منتقلی نہ ہونے کی طرح ہوتی
ہے۔آن لائن ایجوکیشن میں سب سے زیادہ ضروری استاد اور بچے دونوں کا پڑھانے
اور پڑھنے میں انتہائی سنجیدہ ہونا ہے۔ ہمارے استاد تو خیر زیادہ تر سنجیدہ
ہی ہوتے ہیں مگر طالب علموں کو صرف پاس ہونے سے غرض ہوتی ہے۔یوں آن لائن
کلاس بے معنی سی چیز بن جاتی ہے۔
سب سے بڑا ستم یہ کہ حکومت کے احکام کے مطابق امتحان بھی آن لائن لیا جائے
اور وہ بھی آسان انداز میں کہ کہیں بچے شور نہ کرنے لگیں۔ پورے مغربی ممالک
میں کلاسیں تو آن لائن ہوئیں مگر امتحان فزیکل۔ وہاں طلبا کی بھی خواہش تھی
کہ امتحان فزیکل ہوں تاکہ انہیں اپنی قابلیت کا اندازہ ہو۔ہم اور ہمارے بچے
قابلیت کو مانتے ہی نہیں ۔ہمیں ایک کاغذ درکار ہوتا ہے جس پر نمبر زیادہ سے
زیادہ درج ہوں اور ہماری نالائق حکومت طلبا کی اس نالائقی میں ان کا بھرپور
ساتھ دے رہی ہے۔حال ہی میں F.Sc کا جو رزلٹ آیا ہے اس میں پنجاٍب بھر کے
سینکڑوں طلبا نے گیارہ سو میں سے پورے گیارہ سو نمبر لے کر ایک نئی تاریخ
رقم کی ہے۔حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ بچہ جو نمبر لے گا ، اسے ان نمبروں کا
پانچ فیصد نمبر مزید دئیے جائیں گے۔ گیارہ سو پورے نمبر دیکھ کر حکومت نے
اپنا فیصلہ بدلا وگرنہ گیارہ سو میں سے گیارہ سو پچپن نمبر والے بھی تاریخ
میں مزید شاندار جگہ بنا لیتے۔گیارہ سو یا اس کے لگ بھگ نمبر لینے والے
طلبا کے والدین پہلے دو چار دن تو لوگوں کو کچھ شرما کر نمبر بتاتے رہے مگر
اب حمام میں سب ننگا دیکھ کر بڑے فخر سے نمبر بتاتے ہیں۔ اصل میں شرمندگی
تو ہمارے وزیر تعلیم کو ہونی چائیے تھی کہ جن کا یہ عجیب کارنامہ ہے کہ ہر
سکول ، ہر طالب علم اور ہر ماں باپ آج خود کو قابل اعزاز سمجھتے ہیں مگر
حکومتی حلقوں میں شرم کہاں۔ والدین کیوں دبے دبے رہیں۔ مفت کی جو چیز بھی
مل جائے وہ ہمارے اس معاشرے میں جائز ہوتی ہے۔
|