الزامات کی روایت!
(Anwar Graywal, Bahawal Pur)
عجیب تنازعہ ہے، اساتذہ کرام ہی خُم ٹھونک کر
میدان میں ہیں، ترکش زہر آلود تِیروں سے بھرے ہیں، اپنے ہی بھائی بند
’دشمن‘ کی صورت سامنے ہیں۔ اپنے وائس چانسلر کے خلاف اُن کا احتجاج ہے،
مطالبات ہیں، مسائل ہیں، تحفظات ہیں۔ تین ماہ سے مسئلہ الجھا ہوا ہے، حالتِ
جنگ میں ہونے کے ساتھ ساتھ عدالت کے دروازے پر بھی دستک دی جارہی ہے۔ یہ
واقعہ ہے خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا۔
موجودہ رئیس الجامعہ نے اپنے احتجاجی اساتذہ کے جواب میں سابق وائس چانسلر
کے دور کو ڈھال بنا یا اور ملبہ گزشتہ سالوں پر ڈالنے میں ہی اپنی عافیت
جانی۔ اپنے ہاں یہ روایت زور پکڑ چکی ہے اور یہ وبا فیشن کی شکل اختیار کر
چکی ہے کہ اپنی نااہلی یا کمزوری کو چھپانے کے لئے پِچھلوں پر الزامات لگا
دیئے جاتے ہیں۔ قدم آگے بڑھانے کے بجائے اپنی تمام تر توانائیاں سابق منتظم
کی خامیاں تلاش کرنے پر صرف کردی جاتی ہیں۔ یہی کچھ جامعہ خواجہ فرید رحیم
یار خان میں ہو رہا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ جب سابق وائس چانسلر گئے تو ’’۔۔خزانہ خالی تھا، معاملات
میں بے ضابطگیاں موجود ہیں، زیادہ تنخواہ پر اساتذہ تعینات کئے گئے،
بھرتیوں کے لئے ضروری کارروائی نہیں کی گئی، اشتہارات نہیں دیئے گئے، پرانی
عمارت کی تزئین وآرائش پر اخراجات غیر ضروری تھے۔۔‘‘وغیرہ وغیرہ۔ بات صرف
الزامات تک ہی محدود رہتی تو اور بات تھی، نوبت مسلسل انکوائریوں تک پہنچی
ہے، سابق وائس چانسلر انجینئر ڈاکٹر اطہر محبوب اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاول
پور کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، جامعہ کی بے پناہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ
اپنے ’’کئے‘‘ کی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔ ہو یہ رہاہے کہ جس انکوائری کا تشفی
بخش جواب ثبوتوں کے ساتھ جمع کروا دیا جاتا ہے، کچھ ہی عرصہ میں وہی الزام
نئے جنم کے ساتھ دوبارہ سامنے آکھڑا ہوتا ہے، یوں الزام لگانے والوں اور
انکوائری کرنے والوں کو سرکاری تنخواہ کے عوض زبردست مصروفیت میسر ہے،
فرائض کی یہ ادائیگی وہ لوگ نہایت دیانتداری اور یکسوئی سے کر رہے ہیں۔
یقینا یہ لوگ ضمیر کی آواز، دور اندیشی ، فرض شناسی اور حقیقت پسندی وغیرہ
جیسے معاملات سے ضرور آگاہ ہوں گے۔
22اپریل 2014ء کو میاں شہباز شریف نے اس یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا ،
ایک سال بعد دو ستمبر 2015ء کو ڈاکٹر اطہر محبوب کو یہاں کا چارج سونپا
گیا۔ یہاں صرف سیم اور تھور والی زمین ہی تھی، کرایہ کے چند کمروں میں
تعلیم کا آغاز تو کردیا گیا تھا، تاہم ڈور یوای ٹی لاہور کے وی سی کے ہاتھ
میں تھی ۔یہاں صرف مسائل تھے اور پہاڑ جیسے چیلنجز، یونیورسٹی کو چلانے کی
نوبت تو تب تو دور کی بات تھی، پہلے عمارت کی تعمیر کا مسئلہ تھا۔ خراب
زمین کی وجہ سے اس کا ٹریٹمنٹ کروانا ضروری تھا، کچھ جگہ پر رینجرز کا قبضہ
تھا ، جس میں اُن کی بنائی ہوئی عمارت بھی شامل تھی، یہ جگہ واگزار کروانا
کارِ آسان نہیں تھا، بعد ازاں اس عمارت کی ضروری مرمت اور تزئین و آرائش
کروا کے کرایہ کی عمارت خالی کر دی گئی، ستم ملاحظہ ہو کہ یہی مرمت اور
تزئین و آرائش بھی ایک الزام کی صورت میں موجود ہے، ہمسائے زمینداروں سے
بھی تنازعات تھے، محکمہ زراعت کے ملازمین بھی رہایش پذیر تھے، جو جگہ
چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ پی سی ون میں بتائی اور لکھی جانے والی بے شمار
چیزیں موقع پر تبدیل کرنا پڑتی ہیں، مثال کے طور پر اس دور دراز اور ویران
علاقے میں اساتذہ کو قائل کرکے لانا ، جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، ایسے
میں بعض کو زیادہ تنخواہ بھی دینا پڑی۔ پی سی ون ہونے والے کام کا ایک
عارضی آئیڈیا ہوتا ہے، جس میں ہمیشہ تبدیلی کی گنجائش رکھی جاتی ہے، پی سی
ون کے مطابق کام نہ کرنا بھی الزامات میں شامل ہے ۔ پنجاب حکومت نے عمارت
کے لئے فنڈز تو جاری کئے، مگر دیگر اخراجات میں ٹال مٹول سے کام چلانے کی
کوشش کی گئی۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنی منصوبہ بندی سے وسائل پیدا کئے
اور نظام چلایا۔ صرف و سائل کی کمی ہی کام میں رکاوٹ نہیں تھی، نئے اور
پہلے وائس چانسلر کو جامعہ کا چارج لینے کے لئے بھی لاہور جانا پڑا۔وہ خود
ہی وی سی تھے، خود ہی پراجیکٹ ڈائریکٹر ، انہوں نے دن رات اَن تھک محنت کی،
یوں ساڑھے چار ارب روپے کی رقم سے چار برس کے اندر عالیشان اور جامعہ کی
شایانِ شان عمارت کھڑی ہوگئی۔
خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی موجودہ
انتظامیہ کو تو مشکور و ممنون ہونا چاہیے تھا، کہ کسی عمارت اور ادارے کو
بنانے کے لئے جن مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اُن کو تیار شدہ
عالیشان عمارت اور ماحول دستیاب ہوا، جہاں کرایہ کی جگہ میں ایک سو بچاس
طلبا وطالبات زیر تعلیم تھے، وہاں چار سالوں میں اُن کی تعداد دس ہزار تک
پہنچ گئی، پی سی ون میں بیان کئے گئے سٹوڈنٹس سے تعداد ہمیشہ زیادہ رہی،
اخراجات پی سی ون کے اندازے سے کم رہے۔ فیکلٹی کے پانچ ممبر تھے، چار سال
میں ان کی تعداد 275ہو گئی، چھ لاکھ مربع فٹ سے زائد پر عمارت تعمیر ہوئی،
ضرورت کے مطابق سامان اور فرنیچر کا اہتمام کیا گیا، منصوبہ بندی کے مطابق
2020/2021میں جامعہ نہ صرف اپنے ذمہ ادائیگیاں پوری کر چکی ہوتی، بلکہ اپنے
وسائل سے چلنے والی یونیورسٹی بن چکی ہوتی۔یہاں موجودہ انتظامیہ کو جہاں
مشکور وممنون ہونا چاہیے تھا، وہاں کسی نادیدہ حسد یا کسی اَن دیکھی نفرت
یا کسی فطری کج روی کے باعث وہ مغموم ومایوس ہیں۔ لاہور یا اسلام آباد جا
کر اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ کھوکھلا پن بڑھ
رہا ہے۔ جو ادارہ صفر سے شروع ہو کر عروج پا چکا تھا اور اپنا مقام پیدا کر
چکا تھا، جس نے پوری دنیا میں علاقہ کا نام روشن کرنا تھا، اب ٹانگیں
کھینچنے، الزامات لگانے، الزامات سہنے اور اسی قسم کے دیگر بے مقصد اور
فضول دھندوں میں پڑ کر بدنامیوں کا ذریعہ بن رہا ہے۔
گزشتہ تین برس سے (کہا جاتا ہے کہ) سرکاری دفاتر میں بااختیار افسران فنڈز
استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ ’’جو کرے گا، وہ بھرے گا‘‘، یعنی
فنڈز کو ترقیاتی کاموں پر خرچ کرنے والا بعد میں، لازم ہے کہ انکوائریوں کے
ایسے گرداب میں پھنسے کہ عزت بچے گی اور نہ پیسہ۔ گرفتاریوں اور جیلوں کا
معاملہ تعمیراتی ٹھیکیداروں کا نہیں، یہاں تو ڈاکٹر اکرم چوہدری جیسے جامعہ
سرگودھاکے سربراہ بھی جیل کی ہوا کھا آئے ، خلقِ خدا بھی جن کی ایمانداری
اور دیانتداری کی گواہی دیتی تھی، قصور اُن کا یہی تھا کہ انہوں نے
یونیورسٹی کو علم وفن کی نئی جہتوں سے روشناس کروایا اور دنیا میں اُس کا
نام پیدا کیا۔ مقتدر طبقوں کا فرض ہے کہ وہ الزام برائے الزام کے دھندے کی
حوصلہ شکنی کریں، اور محنت و لگن سے کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور
سرپرستی، تاکہ پاکستان کی جامعات کو بھی عالمی رینکنگ میں اپنا مقام بنانے
کا موقع ملے، ورنہ کوئی وقت آئے گا، جب آگے بڑھنے کا رجحان دب کر رہ جائے
گا، اور چہار جانب مافیاز کا راج ہوگا۔
|
|