نبیلہ شہزاد
چلتی پھرتی، بھاگ دوڑ کر کام نمٹاتی جمیلہ کے لیے یک ٹک چارپائی پر رہنا
مشکل ترین اور صبر آزما کام تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے اسے
زبردستی سزا کے طور پر بستر کے ساتھ باندھ دیا ہو۔بستر پر لیٹے رہنا اس کے
لیے اندھیری کوٹھری میں قید سے بھی بدتر تھا۔ اسے ٹانگ کے فریکچر سے زیادہ
محتاجی کا درد محسوس ہوتا تھا۔ اب اسے بڑی بوڑھی خواتین کی رب کے سامنے
اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر تڑپ کے ساتھ مانگی جانے والی یہ دعا کہ یا اﷲ
محتاجی کی زندگی سے بچانا اور چلتے پھرتے اس دنیا سے لے جانا، کا مفہوم
اچھی طرح سمجھ میں آ چکا تھا۔ وہ جان چکی تھی کہ یہ محتاجی جہاں اردگرد
والوں کے لیے مصیبت ہوتی ہے، وہاں یہ بندہ کے اپنے لیے بھی کسی عذاب سے کم
نہیں ہوتی۔ لیکن کیا کیا جائے اس چیز کے بارے میں جہاں انسان کا اپنا کوئی
اختیار نہیں صرف اﷲ کا اختیار ہے، وہاں تو صرف صبر کا حکم ہے۔ جمیلہ بھی
پلستر لگی ٹانگ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے اسی حکم کی فرماں برداری میں دن گزار
رہی تھی۔ لیکن اس کے لیے صبر آزما لحمات تب آتے، جب اس کے ارد گرد بکھیڑا
پڑا ہوتا۔ بچے ایک دوسرے سے الجھ رہے ہوتے۔ کام والی ماسیاں اپنی من مرضیاں
کرتیں۔ چھٹیوں پر چھٹیاں کرتیں۔ آتیں بھی تو گندا مندہ آدھا کام کرتیں۔ وجہ
یہ تھی کہ ایک تو سر پر کھڑا ہو کر ان سے کوئی کام کروانے والا نہیں تھا۔
دوسرا سختی کی صورت میں لاچار باجی کے لیے کام چھوڑ کر جانے کی دھمکی ہوتی
اور نئی آنے والی یہ لاچاری دیکھ کر ڈبل ریٹ مانگتی اور ساتھ کئی طرح کی
شرائط بھی رکھتی۔ جمیلہ کے لیے سر منڈواتے ہی اولے پڑنے والا حساب تھا۔
بچوں میں سب سے بڑی بیٹی امینہ میٹرک کی طالبہ تھی۔لیکن جب ماں نے اپنی
چوکسی کے نزدیک بیٹی کو پھٹکنے ہی نہ دیا ہو اور بیٹی نے بھی صرف پڑھائی کا
فریضہ ہی انجام دیا۔ باورچی خانے سے یکسر نابلد و نا آشنا ہو تو یکدم پڑھنے
والی آفت میں وہ کیسے گھریلو امور سنبھال سکتی ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ بچے
ماں کے ہاتھ کے بنے کھانوں کے اتنا عادی تھے کہ کسی کام والی کا پکایا
کھانا کھانے سے بچے انکار کر دیتے۔ جس گھر میں کھانوں کے مسالے تو کیا
سموسہ پٹی اور رول پٹی تک گھر میں ہی تیار ہوتی ہو وہاں بازاری کھانے کھانا
ایک دشوار گزار عمل تھا۔
فیصل کا حال بھی بیٹی سے مختلف نہیں تھا۔ جس شخص نے پینے کے لیے پانی کبھی
خود نہ لیا ہو۔ نہانے کے بعد اس کے گندے کپڑے بے ترتیبی سے فرش پر ہی بکھڑے
پڑے ہوں۔ جہاں دل چاہے جوتے اور جرابیں اتار کر پھینک دی جائیں۔ اگلے چند
لمحوں میں جمیلہ فٹافٹ یہ بکھیڑا سمیٹ لیتی۔ اب جبکہ عادات سب کی وہ ہی تھی
لیکن سمیٹنے والی بیکس چارپائی پر۔ عجیب طرح کی بے سکونی اور الجھن سب کو
دامن گیر تھی۔ لیکن حل کی سمجھ کسی کو نہ آ رہی تھی۔ جمیلہ کی جھٹانی عیادت
کے لیے آئی، کھانا بازار سے منگوایا گیا، دو چار گھنٹے رکی، گپ شپ لگائی
اور یہ کہہ کر چلتی بنی کہ مجھے تو اپنے گھر کے علاوہ کہیں نیند ہی نہیں
آتی۔ نند، سسرال میں پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ ایک جی جان سے زیادہ پیار کرنے
والی بہن کو اس کے اکھڑ مزاج شوہر نے آنے کی اجازت ہی نہ دی۔ لیکن دوسرے
بہنوئی نے اپنی بیوی کو خوشی خوشی بھیج دیا۔ آنے والی بہن کے اپنے بھی
چھوٹے چھوٹے تین بچے تھے۔ دو دن بعد ہی بچے اپنے ابو سے شدید اداس ہو گئے۔
ایک ہفتہ رکنے کے بعد وہ بہن بھی اپنے گھر کو سدھار گئیں۔ لیکن جمیلہ کی
معذوری ہفتوں کی بجائے مہینوں پر مشتمل تھی۔اردگرد جھانکا، کوئی بھی رشتہ
دار خاتون آ کر رہنے والی نہ تھی۔ نہ ہی کسی مستقل ملازمہ کا انتظام ہو رہا
تھا۔کاش! باپ بچوں نے بھی گھر کو تھوڑا بہت سنبھالنا سیکھا ہوتا۔وہ اس کاش
پر اپنے دل ہی دل میں افسوس کر کے رہ جاتی۔
’’امی چچی زلفت نے فون کیا ہے کہ وہ دس منٹ تک ہمارے گھر میں پہنچ رہی
ہیں۔‘‘ امینہ نے مہمان نوازی کرنے کی پریشانی کے عالم میں موبائل ہاتھ میں
پکڑے ماں کو چچی کے آنے کی اطلاع دی۔ ’’انہیں کیا کھلائیں گے؟ اس وقت تو
تمہارے ابو بھی گھر میں نہیں ہیں جو بازار سے کچھ منگوا لوں۔ اچھا! چلو جو
ان کے نصیب میں ہو گا۔‘‘ جمیلہ کو بھی ان کے آنے کی خوشی کی بجائے کھلانے
پلانے کی فکر دامن گیر ہوئی۔ ٹھیک گیارہ منٹ بعد زلفت کا ہاتھ بیرونی
دروازے کی گھنٹی پر تھا۔پھر دیکھنے والوں کی آنکھوں نے دیکھا زلفت نے کریم
کی گاڑی سے تین بڑے بڑے تھیلے برآمد کیے اور کرایہ ادا کر کے گاڑی کو رخصت
کیا۔ بچوں نے آگے بڑھ کر چچی کے ہاتھ سے تھیلے پکڑے۔ دعا سلام کے بعد زلفت
تاسفانہ انداز میں کہنے لگی۔ ’’بھابی سب سے پہلے تو میں اتنی تاخیر سے آنے
کی معذرت چاہتی ہوں۔‘‘ آپ تو جانتی ہیں کہ میں تین ہفتے بعد پرسوں ہی اسلام
آباد سے واپس آئی ہوں۔ آج آپ کے بھائی کو چھٹی تھی۔ انہیں بچوں کے پاس
چھوڑا ہے۔ میں شام کو واپس جاؤں گی۔ لہٰذا میں شام تک آپ کی عیادت کروں
گی۔‘‘
زلفت نے مسکراتے ہوئے آخری جملہ ادا کیا اور پھر تھیلوں سے ایک کے بعد ایک
ڈبہ نکالنے لگی۔ ’’بابھی یہ تین ڈبے رول، سموسیاں اور شامی کباب کے ہیں۔ یہ
میں نے آپ لوگوں کے لیے کل بیٹھ کر بنائے تھے۔‘‘ ’’امینہ بیٹی! یہ پکڑو اور
انہیں فریزر میں رکھ دو۔ یہ تو تم بھی آسانی سے فرائی کر کے عیادت کے لیے
آئے مہمانوں کو چائے کے ساتھ دے سکتی ہو۔‘‘ پھر کچھ اور ڈبے نکالے۔ ’’اور
یہ ہلیم ہے۔‘‘ امینہ اسے بھی فریزر میں رکھ دو۔ جب کھانے کو دل چاہے گا۔
نکال کر گرم کر لینا۔ یہ سبزی کا سالن ہے یہ فریج میں رکھ دو اور یہ دو ڈبے
بریانی کے ہیں یہ آج کے کھانے کے لیے ہیں۔ ’’امینہ! پہلے سب بہن بھائیوں کو
بٹھا کر کھانا کھلاؤ اور پھر میرے ساتھ کام میں مدد کرنا۔‘‘ جمیلہ خوشی اور
حیرانی کی ملی جلی کیفیات میں ہونق، زلفت کو دیکھ رہی تھی۔ اس سے پہلے ایسی
عیادت کسی نے کب کی تھی اس کی؟ پہلے جو بچے ماں کے بار بار اصرار پر نخرے
دیکھا دیکھا کر نوالہ لیتے تھے۔ اب وہ ایک آواز پر ہی بریانی کھانے کے شوق
میں دسترخوان پر بیٹھے تھے، کیونکہ وہ بچارے بھی اب ایک عرصے سے گھر کے بنے
کھانے کے لیے ترسے ہوئے تھے اور بازار کے سخت مصالحہ دار چاول کھا کھا کر
تنگ آ چکے تھے ۔
زلفت نے جلدی سے باورچی خانے کا رخ کیا۔ ڈبے سے کالے چنے نکال کر گرم پانی
میں بھگوئے۔ دھونے والے برتن سمیٹ کر سنک میں دھونے کے لیے رکھے۔ پھر سٹور
روم کی طرف گئی جہاں دھلنے والے کپڑوں کا ڈھیر لگا پڑا تھا۔ واشنگ مشین میں
پانی ڈال کر مشین چلائی۔ امینہ نے بھی چچی کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔
زلفت کام کرنے کے ساتھ ساتھ امینہ کو بھی سکھا رہی تھی اور وہ بھی چچی کے
بتائے پر عمل پیرا تھی۔ دونوں چچی بھتیجی نے ڈیڑھ دو گھنٹے میں کچن اور
کپڑے نمٹا لیے۔کپڑے خشک ہونے پر بھائی کے کپڑے خود استری کیے اور بچوں کے
کپڑے استری کے لیے امینہ کو دیے اور خود الماریوں کی جھاڑ پونچھ کرنی شروع
کر دی۔ وہ شام تک سب کاموں سے فارغ ہو چکی تھی۔ تقریباً پانچ چھ دن کے لیے
سالن بھی تیار تھے۔ امینہ سے سادہ براؤن چاول پاس کھڑے ہو کر پکوائے۔ تا کہ
ضرورت پڑنے پر وہ خود بھی پکا سکے۔ جھاڑو پونچھے کے لیے عورت آتی تھی۔ ہفتہ
بھرکے لیے اور کوئی بڑا کام نظر نہیں آ رہا تھا۔ بچوں کو اسکول سے چھٹیاں
تھیں۔ اس لیے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے بچوں کو سمجھا دیا گیا۔ زلفت نے
واپسی کے لیے گاڑی کی بکنگ کروائی اور جمیلہ سے کہا۔ ’’بھابھی آپ پریشان نہ
ہونا۔ اتوار کے دن معاذ صاحب گھر میں ہوتے ہیں۔ جب تک آپ بالکل ٹھیک نہیں
ہو جاتیں میں بچے ان کے پاس چھوڑ کر ایسے ہی سارا دن آپ کے ساتھ گزارا کروں
گی۔‘‘
جمیلہ کی آنکھیں تشکر سے نم ہو گئیں، کیوں کہ زندگی میں ارد گرد رشتے تو
بہت ہوتے ہیں مگر ایسے بے لوث اور احساس ہمدردی سے گندھے ہوئے لوگ کم ہی
ملتے ہیں۔
|