اس رات اسٹریٹ لائٹس کی روشنیوں میں تیز رفتار سے گزرتی
گاڑیوں کو میں اپنے برابر سے گزرتا دیکھ رہی تھی۔ معمولی سی ٹھنڈک کو روکنے
کے لیے میں نے اپنے اوپر ڈلی چادر کو اپنے گرد لپیٹا اور گاڑی کی سیٹ سے
ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ میں وہ منظر یاد کرنا تو نہیں چاہتی تھی
لیکن نہ جانے اس میں ایسا کیا تھا کہ وہ ہر لمحہ گزرتے میرے ذہن میں آجاتا….
میں نے تمام سوچے جھٹک کر آنکھیں کھولیں اور باہر رفتار سے گزرتی گاڑیوں پر
نظریں جما دیں۔ کافی لمبا سفر چند لمحوں میں گزر گیا اور بلآخر میں اپنی
منزل پر آ پہنچی تھی۔ میں نے آہستگی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اپنے قدم
باہر رکھے۔ گاڑی سے باہر نکلتے ہی مجھے مزید ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ میں دو دو
قدم بڑھاتی اس سڑک سے گزرتی گئی۔ درختوں کے سوکھے پتے جھڑ جھڑ کر میرے
قدموں میں گرتے۔ ان درختوں کے سوکھے پتے میرے پیروں سے کچلتے چلے گئے اور
میں سامنے نظریں جمائے چلتی رہی۔ مجھے جس چیز کا انتظار تھا وہ اب میرے
سامنے تھی لیکن میرے قدم وہیں رک گئے۔ وہ منظر پھر سے میرے ذہن میں گردش
کرنے لگا…. اس بار میں اسے چاہتے ہوئے بھی نا جھٹک سکی…. ایک تیز ہوا کا
جھونکا آیا جس سے میرے سامنے زمین پر پڑے سوکھے پتے سرکتے چلے گئے۔ میرے
لیے آگے جانے کا راستہ مزید آسان ہو گیا تھا اور اب میں بآسانی وہاں سے گزر
سکتی تھی لیکن میں نے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا اور میں پلٹ کر واپس اپنے
لمبے سفر پر چلی گئی۔
HIBA HANIF RAJPUT~
|