گدھے کو عزت دو

ﷲ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور ان انعامات اور نعمتوں کا جا بجا ذکر کیا ہے اور ان کی افادیت نفع و نقصان بھی بیان کیا ہے اور ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ تمہیں علم نہیں کہ میں نے تمھارے فائدے کے لیے کون کون سی چیزیں پیدا کر رکھی ہیں انسان کتنا خوش نصیب ہے کہ اﷲ نے اس پر اس قدر انعام و اکرام کر رکھے ہیں کہ جن کا شمار ممکن نہیں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک سامنے گدھا آگیا بقول شاعر دلاور فگار سوچا تھا آدمی کا قصیدہ لکھیں گے ہم مطلع کہا ہی تھا کہ گدھا یاد آگیا ۔گدھے کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے گدھا ۔حمار ۔خر ۔کھر ۔دراز گوش ۔کھوتا ۔کھوناDonkey اور بیوقوف جاہل کم علم نکھٹو وغیرہ سب نام گدھے کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ہمارے ملک میں گدھا کو ایک گالی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔گدھے پر بے شمار محاورے ضرب المثل معروف ہیں بہت سی ادیبوں شاعروں ابن نشا ۔منشی پریم چند ۔کرشن چندر ۔ممتاز مفتی ۔مرزاادیب ۔پروفیسر رام سروپ کوشل ۔اسماعیل میرٹھی ۔میر تقی میر ۔مرزا غالب ۔مجید لاہوری ۔دلاور فگار ۔شیخ سعدی اور دیگر نے بہت کچھ لکھا ہے ۔ گدھا ان سواری اور بوجھ اٹھانے والے چار جانوروں میں شامل ہے جن کا ذکر اﷲ تعالی قرآن مجید میں کیا ہے ارشاد باری تعالی ہے سورہ النحل آیت نمبر 5 سے 8 ترجمہ :اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمھارے لیے لباس اور خوراک بھی ہے اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی ان میں تمھارے لیے جمال ہے جبکہ صبح تم انھیں چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جب شام انھیں واپس لاتے ہو وہ تمھارے لیے بوجھ ڈھو کر ایسے مقامات (شہروں )تک لے جاتے ہیں جہاں تم سخت جانفشانی کے بغیر نہیں پہنچ سکتے حقیقت یہ ہے کہ تمھارا رب ہی شفیق اور مہربان ہے اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمھاری زندگی کی رونق بنیں وہ اور بہت سی چیزیں تمھارے فائدے کے لیے پیدا کرتا ہے جن کا تمھیں علم نہیں ۔عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں چار کروڑ گدھے ہیں اور سب سے زیادہ گدھے پاکستان چین بھارت سوڈان چاڈ میکسیکو ایتھوپیا میں پائے جاتے ہیں وفاقی حکومت کی سروے رپورٹ کے مطابق جون 2021 تک پاکستان میں 56 لاکھ گدھے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ گدھی بارہ سے چودہ ماہ بعد صرف ایک ہی بچہ دیتی ہے .گدھا انبیا اور رسولوں کی سواری رہی ہے حضور اکرم صل اﷲ علیہ و سلم کی ملکیت میں دو گدھے تھے ایک کا نام عفیر اور دوسرے کا نام یعفور تھا اور یفعور آپ کو خیبر سے ملا تھا اور اس نے آپ صل اﷲ علیہ و سلم سے کلام کیا تھا کہ یارسول اﷲ میرا نام زیاد بن شہاب ہے اور میرے باپ دادوں میں سے ساٹھ ایسے گدھے گزرے ہیں جن پر نبیوں نے سواری فرمائی ہے ۔میری خواہش ہے کہ آپ بھی مجھ پر سواری کریں اور آپ کے بعد کوئی اور مجھ پر سوار نہ ہو آپ صل اﷲ علیہ و سلم نے اس پر سواری فرمائی اور اس کے بعد کوئی اس پر سوار نہیں ہوا اور آپ صل اﷲ علیہ و سلم کی رحلت کے بعد کنواں میں گر کر ہلاک ہو گیا تھا ۔حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ کون کون سی سواریاں آپ کو پسند ہیں تو آپ نے فرمایا کہ گھوڑا گدھا اور اونٹ کیونکہ گھوڑا اولعزم رسولوں کی سواری ہے اور اونٹ حضرت ہود علیہ السلام حضرت صالح علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام حضرت محمد مصطفی صل اﷲ علیہ و سلم کی سواری ہے اور گدھا حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام کی سواری ہے اور میں کیوں نہ اس چوپائے گدھے سے محبت رکھوں جس کو مرنے کے بعد اﷲ تعالی نے زندہ فرمایا ۔گدھے کو اﷲ نے انسانیت کی خدمت کے لیے بنایا ہے کہ وہ سواری اور بوجھ اٹھانے کے کام آئے اور وہ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دے رہا ہے صبح سے شام تک کام میں لگا رہتا ہے کبھی بوجھ اٹھا کر پہاڑوں پر لے جاتا ہے کبھی صحراں میں کبھی بازاروں میں کبھی کھیتوں میں کھلیانوں میں منڈیوں میں کچے پکے راستوں پر رواں دواں رہتا ہے وہی تازہ ترین چارہ اپنی پیٹھ پر لاد کر لاتا ہے لیکن اس کیسامنے وہ تازہ ترین چارہ دیگر جانوروں کو ڈال دیا جاتا ہے اور اسے کچرا کے ڈھیر پر باندھ دیا جاتا ہے کہ یہاں سے سڑا سوکھا بوسیدہ باسی پرانا کھا لے وہ وہی کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتا ہے دوسروں کے چارہ کی طرف نہیں دیکھتا بقول بابا فرید روکھی سوکھی کھا فریدا ٹھنڈا پانی پی نا ویکھ پرائیاں چوپڑیاں نا ترساوی جی ہروقت ہم اس سے کام لیتے ہیں زخمی ہو بیمار ہو بھوکا پیاسا ہو ہم اس کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں رکھتے بس ہمیں کام چاہیے اور کام کے ساتھ اس کی ہر وقت بیعزتی بھی کرتے رہتے ہیں حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں خر عیسی اگر بہ مکہ رود ۔چوں باید ہنوز خر باشد ۔یعنی اگر حضرت عیسی علیہ السلام کا گدھا مکے سے بھی ہو آئے تب بھی گدھے کا گدھا ہی رہے گا ۔اور یہ شعر ایک محاورے کی صورت اختیار کر گیا یعنی کسی انسان کی عادت نہ بدلنے پر بولا جاتا ہے ۔گدھے کی بے عزتی کے ساتھ ساتھ اس کی بے حرمتی بھی کی جاتی ہے میر تقی میر نے کہا ہے ۔گدھا سا لدا پھرتا ہے شیخ ہر سو ۔کہ جبہ ہے یک بار و عمامہ سر بار ۔جبکہ مجید لاہوری نے بھی گدھوں کی خوب خبر لی ہے ۔ساتھ جو لیے پھرتا ہوں دو چار گدھے ۔پیش کرنے کے لیے لایا ہوں سرکار گدھے ۔نہ تو چارے کی ضرورت ہے نہ کچھ دانے کی ۔کھال میں مست نظر آتے ہیں خود دار گدھے ۔گدھے انسانی زندگی کی رونق ہیں اور یہ انسانی فائدے کے لیے بنائیگئے ہیں ۔گدھا ایک انتہائی قیمتی محنتی اور مضبوط ارادوں کا مالک جانور ہے جس سے کتنے خاندانوں کی روزی روٹی چلتی ہے امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کا انتخابی نشان گدھا ہے اور اسی نشان پر امریکی صدر جوبائئڈن منتخب ہوئے ہیں ہمیں بھی گدھوں کو کام میں لانا چاہیے گدھے جانوروں کے ریوڑ کی اچھے طریقے سے رکھوالی کرتے ہیں اسی لئیجانور پالنے والے افراد نے جانوروں کے باڑے میں ساتھ رکھا ہوتا ہے کیونکہ جو گدھے کو نظر آتا ہے وہ انسانوں کو بھی نظر نہیں آتا حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صل اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب مرغ کی آواز سنو تو اﷲ سے اس کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اس وقت بولتا ہے جب اسے کوئی فرشتہ نظر آتا ہے اور جب گدھے کے رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اﷲ کی پناہ مانگو کیوں کہ وہ اس وقت شیطان کو دیکھ رہا ہوتا ہے (ترمذی شریف )ہم اس وقت گدھوں سے انسانی بھیس میں چھپے ہوئے شیطانوں کو پکڑنے کا کام لے سکتے ہیں جو کبھی آٹے چینی گھی کھانے پینے کی اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کر کے غریبوں کے منہ سے نوالہ چھنتے ہیں اشیا خوردونوش دودھ مصالحہ جات مشروبات وغیرہ میں زہریلی چیزوں کی ملاوٹ حتی کہ جانوروں کے کھل چوکر میں بھی لکڑی کا برادہ شامل کر کے انسان تو کیا جانوروں سے بھی دھوکہ دہی کرتے ہیں کبھی ملک و قوم اور کبھی دینی اقدار پر حملہ کر کے خون کی ہولی کھیلتے ہیں کبھی معصوم بچوں کو جنسی تشدد کر کے ان کا قتل عام کرتے ہیں کبھی بم دھماکہ سے انسانی خون بہاتے ہیں ان سب کو پکڑنے کے لئے گدھوں کو ذمہ داری دیں کیونکہ گدھے کو کسی بھی روپ میں چھپے ہوئے شیطانوں کی شکلیں نظر آجاتی ہیں اور رینکتا ہے ویسے بھی ہمارے پاس 56 لاکھ گدھے موجود ہیں اور اسطرح 40 افراد پر ایک گدھے کو مسلط کیا جا سکتا ہے جب بھی کسی انسان نما کو دیکھ کر گدھا رینکنے کی آواز نکالے فوری اسے گرفتار کر لیں کیونکہ گدھا صرف شیطان کو دیکھ کر رینکتا ہے اس سے ایک تو گدھوں کو نوکری مل جائے گی اور ان کی عزت و وقار میں اضافہ ہو گا دوسرا انسانی روپ میں شیطانوں کو پکڑنے میں آسانی ہو گی اور حکومت پر کوئی اضافی بوجھ بھی نہیں پڑے گا ۔ویسے بھی گدھا شیر سے بہتر ہے فارسی کی ضرب المثل ہے (خر بار بہ از شیر مردم در )یعنی بوجھ اٹھانے والا گدھا آدمیوں کو پھاڑ کھانے والے شیر سے بہتر ہے ۔بشکریہ سی سی پی۔
 

Abdul Khaliq Ch
About the Author: Abdul Khaliq Ch Read More Articles by Abdul Khaliq Ch: 32 Articles with 26275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.