انسان کی کوئی فطرت نہیں ہے۔
فطرت کا لفظ خاصہ وسیع مفہوم رکھتا ہے اور یہ تقریباً ہر اس شے کے لیے
استعمال کیا جاتا ہے کہ جو انسان کو اس دنیا میں بنی بنائی مل گئی ہو، اس
کو فطرت یا فطری کہتے ہیں مثال کے طور پر اسی مفہوم میں قدرت کا لفظ بھی
استعمال ہوتا ہے، عموما اس کو قدرت کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
بعض اوقات فطرت کا لفظ کسی کام کو کرنے کی صلاحیت کے لیے بھی استعمال کیا
جاتا ہے اسی طرح ایک اور لفظ طبیعی بھی فطرت کے مفہوم میں آتا ہے اور اسی
سے بنا ہوا ایک لفظ مشہور شعب? علم کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے یعنی
طبیعیات، عام طور پر طبیعی کا لفظ طبیعت سے الگ مفہوم میں آتا ہے مگر اصل
میں دونوں ایک ہی ہیں یعنی فطرت، جسے کہا جائے کہ طبیعی موت، تو اس سے مراد
وہ موت ہوتی ہے جو کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے نہ ہوئی ہو بلکہ فطری طور
پر واقع ہوئی ہو۔ ان ہی تمام وجوہات کی بنا پر اسے اردو میں سائنسی مضامین
میں استعمال کے لیے فطرت کا لفظ منتخب کیا گیا ہے۔ اس کائنات میں پرندے
’مچھلیاں اور جانور اپنی فطرت رکھتے ہیں اور اپنی جبلت رکھتے ہیں اور ساری
عمر اسی پر عمل کرتے رہتے ہیں۔
اسی طرح لفظ جبلت بھی اپنے اندر ایک وسیع معانی رکھتا ہے جبلت ہر انسان اور
حیوان میں ایک جیسی ہوتی ہے۔ پرندوں کا گھونسلہ بنانا، ہم دیکھتے ہیں کہ
ایک چوزہ انڈے سے نکلتے ہی کھانا شروع کر دیتا ہے، ایک بطخ کا بچہ پیدا
ہوتے ہی تیرنا شروع کر دیتا ہے، ایک ممالہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی
اپنی ماں کے پستانوں کی طرف اپنا منہ بڑھا کر اسے پینے کی کوشش کرتا ہے۔
پیاس کا لگنا، بھوک کا لگنا، درد کا محسوس کرنا،پیشاب کا آنا، پاخانے کا
آنا، سانس لینا، جنسی رغبت، چرند پرند اور حیوانوں اور انسانوں کی جبلت ہے۔
اگر کسی بھی انسان سے پوچھیں کہ انسانی فطرت کیا ہے تو سب کا جواب مختلف
ہوگا۔مزید پوچھیں کہ وہ مذہبی نقطہ نظر سے بتائیں کہ فطرت کیا ہے؟ تو وہ
اپنے عقیدے اور نظریے ’انسانی نفسیات کے علم اور سماجیات کی معلومات کے
مطابق اس کا جواب دیں گے۔کوئی کہے گا انسان کی فطرت میں نیکی ہے۔کوئی کہے
گا انسان کی فطرت میں بدی ہے۔کوئی کہے گا انسان فطرتاًبڑا صبر والا ہے اور
کوئی کہے گا وہ بے صبرا ہے۔ کوئی کہے گا کہ انسان فطرتاً ایماندار ہے تو
کوئی کہیگا بے ایما ن ہے، کوئی کہے گا انسان جھگڑالو ہے کوئی کہے گا انسان
صلح جو ہے۔ کوئی کہیگا کہ انسان محبت کرنے والا ہے تو کوئی کہیگا کہ انسان
میں نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے تمام تر
اختلافات کے باوجود وہ سب اس بات پر متفق ہوں گے کہ انسان کی ایک فطرت
ہے۔اور فطرت کو تبدیل نہیں کیاجا سکتا۔ چاہے وہ فطرت اسے (خدا نے)دی ہو یا
ارتقا نے لیکن اس کی فطرت ضرور ہے۔جو نا قابل تبدل ہے۔
مگر ہوزے آرٹیگا جو ایک ہسپانوی دانشور تھے جو 1883 میں اسپین کے شہر میڈرڈ
میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1904 میں میڈرڈ کی یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ
ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے اور کئی
یونیورسٹیوں سے منسلک رہے۔
1908 میں سپین واپس آئے تو یونیورسٹی میں نفسیات اور منطق کے پروفیسر بن
گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی کوئی فطرت نہیں ہے۔ انسان اپنے ماضی کے
واقعات اور حادثات اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ واقعات اور
حادثات اس کا ماضی اور اس کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ ماضی اور یہ تاریخ
اس کی فطرت نہیں ہے کیونکہ وہ جب چاہے اپنی سوچ اپنی فکر اور اپنا طرز
زندگی اور طرز عمل بدل سکتا ہے۔ اگر انسان کی نباتات و حیوانات ’چرند اور
پرند کی طرح فطرت ہوتی تو وہ اپنی زندگی کے راستے اور فیصلے نہ بدل سکتا۔
وہ چاہے تو دنیا میں سینکڑوں ہزاروں لاکھوں انسانوں کا خون بہا دے اور چاہے
تو دنیا میں امن کا پیامبر بن جائے۔ وہ چاہے تو بہت سوں کو دکھی کردے اور
چاہے تو بہت سوں کو سکھی کر دے۔ وہ یہ سب کچھ اس لیے کر سکتا ہے کیونکہ اس
کی کوئی فطرت نہیں ہے۔
انسان ہمیشہ اپنے ارادے اور دماغی تخلیق کے مطابق ہر کام کرتا ہے۔ وہ آزاد
منش ہے۔وہ کسی فطرت کا غلام نہیں لیکن معاشرہ اسے غلام بنا کر اسپر اپنے
قوانین لاگو کر کے اسکی فطرت کو تبدیل کر دیتا ہے۔
انسان اپنے روزمرہ کے چھوٹے بڑے فیصلوں سے اپنی فطرت اور اپنی شخصیت بناتا
ہے۔ کبھی بگاڑتا ہے کبھی سنوارتا ہے۔ انسان ایک امکان کا نام ہے اور وہ ہر
روز اپنے اعمال سے اس امکان کو حقیقت کا روپ دیتا ہے۔ انسان ہر روز تعمیر
یا تخریب کا ایک نیا خواب دیکھتا ہے اور پھر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے
کی کوشش کرتا ہے۔انسان آزاد ہے۔ وہ جب چاہے کوئی فیصلہ کر سکتا ہے اور
پچھلا فیصلہ بدل سکتا ہے۔ اس کا فیصلہ نہ کرنا بھی ایک فیصلہ ہے۔ ہم آرٹیگا
کے دلائل کو مانتے ہوئے فطرت کے غیر متبدل نظرئے کو نہ ماننے سے اتفاق کرتے
ہوئے کہہ سکتے ہیں کے انسانی فطرت قابل تبدل ہے۔انسان کو اپنی زندگی کا
مقصد اور اپنی منزل خود تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ اگر اس کی کوئی فطرت ہوتی تو
اسے اپنا مقصد اور اپنی منزل خود تلاش نہ کرنا پڑتا۔ اس کائنات میں پرندے
’مچھلیاں اور جانور اپنی فطرت رکھتے ہیں‘ اپنی جبلت رکھتے ہیں اور ساری عمر
اسی پر عمل کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ واحد انسان وہ طاقت ور دماغ رکھتا
ہے جو جب چاہے فطرت کو بدل کر رکھ دے۔ گائے گھاس کھاتی ہے مگر شیر اور چیتا
گوشت کھاتا ہے۔گائے اور بکری گوشت نہیں کھاتی اور شیر گھاس نہیں کھاتا
کیونکہ وہ ان کی فطرت ہے۔
تحریر : سید انیس احمد بخاری۔ |