ﷲ کا باغی

جب فرانسیسی جنرل گورو نے شام میں قدم رکھا تو صلاح الدین ایوبی کی قبرپر گیا اور قبر کو لات مار کر کہا ’’اٹھو صلاح الدین ایوبی ہم پھر آ گئے ‘‘

جب فرانسیسی جنرل لیوتی نے مراکش میں قدم رکھا تویو سف بن تاشفین کی قبر کے پاس گیااور قبر کو لات مار کر کہا ’’ اے تاشفین کے بیٹے اُٹھو ہم تمہارے سر ہانے پہنچ گئے ہیں ۔جب صلیبیوں نے دوبارہ اندلس پر قبضہ کیا تو ’’الفونسو‘‘ نے حاجب منصور کی قبر پر سونے کی چارپائی بچھائی اور بیوی کو لے کر شراب پی کر لیٹ گیا اور کہا ’’دیکھو میں ن ے مسلمانوں کی سلطنت پر قبضہ کر لیا ہے ۔

جب یونانی فوج ترکی میں داخل ہوئی تو یونانی فوج کے سربراہ’’ سوفو کلس وینیریلوس ‘‘ خلافت عثمانیہ کے بانی عثمان غازی کی قبر کے پاس گیا اور کہا ’’ اٹھو اے بڑی پگڑی والے ،اٹھو اے عظیم عثمان اٹھو ۔دیکھو اپنی تو پوں کی حالت ،ڈیکھو ہم نے اس عظیم سلطنت کاخاتمہ کیا ۔ جس کی تم نے بنیاد رکھی تھی ۔ ہم تم سے لڑنے آئے ہیں ‘‘کیا اب بھی کسی کو اس بارے میں شبہ ہے کہ یہ صلیبی جنگجو ہیں۔

اب سلطان صلاح الدین ایوبی ، یو سف بن تاشفین ، حاجب منصور اور عثمان غازی کی ارواح کو کتنی تکلیف ہوتی ہو گی کہ عالم اسلام کے نوجوان ان کے کارناموں کو بھول گئی ۔ اسے فراموش کردیا اور ٹکٹ ٹاک اور کتنے نئے طریقوں سے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے تماشہ بنا رہے ہیں ۔اگر کسی سے بات کرو تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارا ٹیلنٹ ہے ۔ کیا ان مجاہدین اسلام کا یہ ٹیلنٹ نہیں تھا جو دین اسلام کیلئے دنیا سے لڑگئے تھے؟ یا ٹیلنٹ صرف فحاشی اور عریانی کو عروج دینا ہے ۔ صرف اپنے آپ کو دنیا کے سامنے رسوا کرنا ہے۔کیا امت مسلمہ کے نوجوانوں کے پاس اپنے اسلاف کے کارناموں کو زندہ کرنے یا آگئے بڑھانے کیلئے وقت نہیں ۔ یہ صلیبیوں کے بچھائے ہوئے وہ جال ہیں ۔ جسمیں ہم بخوشی پھنسے جارہے ہیں ۔ مسلمان کیا ہم اب بھی نہیں سمجھیں گئے ؟ـ تو کیا سمجھتا ہے کہ ٹک ٹاک ،عریانی و فحاشی پھیلانے کو اپنا ٹیلنٹ اور اپنی اونچائی سمجھتا ہے ۔اونچائی یہ نہیں کہ تو اﷲ کا باغی ہو جا تیری بڑھائی ، تیرابلند رتبہ ،تیرا عالیٰ مقام یہ ہے کہ تو دین اسلام کے لئے کام کرے ۔اگراونچائی ہی کی بات کریں تو ہماری زمین پر سب سے اونچا پوائنٹ ماؤنٹ ایورسٹ ہے۔ جس کی اونچائی 8849میٹر ہے اگر زمین کی بات کریں تو ابھی تک انسان سمند ر میں11022میٹر تک جا چکاہے ۔ یہ اتنی گہرائی ہے کہ یہاں تک پہنچنے کے بعد سمندر میں 3ہی چیزیں رہ جاتی ہیں ۔ ایک وہاں بسنے والی آبی مخلوق اور دوسرا اندھیرا ہی اندھیرا اور تیسرا پھر اندھیرا ہی اندھرا ۔کیونکہ سورج کی روشنی وہاں تک نہیں پہنچ پاتی ۔

اتنی گہرائی تک انسان جدید ٹکنالوجی اور مشینوں کے ذریعے ہی جاسکا ہے ۔ کیونکہ ایک انسان کا وہاں تک جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں تک جانے کے بعد انسان کے اُوپر کروڑوں ٹن وزنی آبی دباؤ پڑ چکا ہو گا ۔ جس کی وجہ سے انسان کی موت واقع ہو جائے گی اب تک سمندر کی گہرائی میں جانے کا ورلڈ ریکارڈ ، 332.35میٹر ہے ۔جو ایک مصری مسلمان احمد نے بنایا ہے ۔

تمام روشنی کی ایک شعاع سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے ۔ یہ سات رنگ بالترتیب بنفشی ،کاسنی ، نیلا ،سبز ،پیلا ،نارنجی اور سرخ ہیں ۔ جو آپ نے اکثر قو س قزح میں دیکھے ہو ں گے ۔ روشنی کی شعاح جب پانی میں داخل ہو تی ہے تو ریفریکشن کے عمل سے گزرتی ہے تو اوپر کے دس سے پندرہ میٹر کے دوران پانی میں سرخ رنگ جذب ہوجات ہے ۔ لہذا اگر کوئی غوطہ خور پانی میں پچیس میٹر گہرائی تک جاپہنچے اور زخمی ہو جائے تو وہ اپنے خون میں سرخی نہیں دیکھ پائے گا کیونکہ سرخ رنگ کی روشنی اتنی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتی ۔ اسی طرح 30سے پچاس میٹر تک گہرائی سبز 100سے200میٹر تک ،نیلی روشنی 200میٹر سے کچھ زیادہ تک جبکہ کاسنی اور بنفشی روشی اس سے بھی کچھ زیادہ گہرائی تک پہنچتے مکمل طور پر جذب ہو جاتی ہے ۔پانی میں رنگوں کے اس طرح تر تیب والا غائب ہونے کی وجہ سے سمندر بھی تہہ در تہہ کر کے تاریک ہو تا چلا جاتا ہے ۔ یعنی اندھیرے کا ظہور بھی روشنی کی پر توں کی شکل میں ہوتا ہے ۔6000میٹر سے زیادہ کی گہرائی میں مکمل اندھیرا ہوتا ہے اور آپ اپنے ہاتھ کو بھی دیکھنے کے قابل نہیں رہتے ۔

آج کے جدید دور میں آکسیجن ٹینک سمیت اور جسم کو پوری طرح حفاظت میں رکھ کر بھی انسان 332میٹر سے زیادہ گہرائی تک نہیں جاسکا تو پھر1400سال پہلے کون جو6000میٹر گہرائی میں جا کر مکمل اندھیرا دیکھ کر آیا تھا اور یہ باتیں قرآن میں لکھ گیا؟ ’’ یا پھر ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی گہرے سمندر میں پھیلے ہوئے اندھیرے کہ سمندر کو ایک موج نے ڈھاپ رکھاہو ۔جس کے اوپر ایک موج اور ہو اور اس کے اُوپر بادل غرض اوپر تلے اندھیرے ہی اندھیرے ۔اگر کوئی اپنا ہاتھ باہر نکالے تواسے بھی دیکھے نہ پائے اور جس شخص کو اﷲ کا ہی نور حاصل نہ ہو تو اس کے لیے کوئی نور نہیں (سورہ نور24تا40)

ﷲ پاک کے واضع فرمان کے بعد ہم لوگ اپنا جائزہ لیتے ہیں کہ ہم لوگ کہیں اﷲ پاک کے فرمان کا کہیں انکار تو نہیں کر رہے ؟ کیا ہمارا نماز ، روزہ پوری ایمان داری کے ساتھ پاک ہے ؟ یا پھر کہیں ہم اﷲ پاک کے باغی ہیں ؟جس ملک میں لاکھوں لوگ تبلیغی اجتماعات میں جاتے ہوں ۔ جہاں لاکھوں لوگ دعوت دین کیلئے سفر کرتے ہوں ۔جہاں سے لاکھوں لوگ بیت اﷲ شریف میں حج وعمرہ کیلئے جاتے ہوں ۔ میلاد النبی ﷺ کے موقع پر ہر شہر میں جلوسوں میں لاکھوں لوگ شامل ہوں ۔ جس ملک میں ہر رات لاکھوں محافل میلاد اور درس و قرآن ہوتے ہوں جس ملک میں یوم عاشورہ والے دن لاکھوں لوگ غم حسین میں عذاداری کرتے ہوں جس ملک میں عیداور جمعے کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہوں جس ملک میں تسبیحات پڑھنے والے لاکھوں میں اور درود و سلام کی تعداد اربوں میں ہو ۔ وہ ملک ایماداری میں160ویں نمبر پر آئے اور کافروں کا ملک جاپان ایمانداری میں نمبرون ملک قرار پائے تو سوال تو اُٹھے گا کہ ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں خود کو یا خدا کو ؟

اسی طرح ایک واقع1957کو پیش آیا ۔ بیسویں صدی کا مشہور مواخ’’ٹائن بی ‘‘ پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا ۔ کوئی تاریخ کے بارے میں کوئی سیمینار تھا ۔ تقریب کے اختتام پر پاکستان کے ایک نامور مصنف اور سرکاری ملازم ڈائری لے کر آگے بڑھے اور آٹو گراف کی درخواست کی ۔ ٹائن بی نے قلم پکڑا دستخط کیے ،نظریں اٹھائیں اور بیورو کریٹ کی طرف دیکھ کر بولے میں ہجری تاریخ لکھنا چاہتا ہوں ۔ کیاآپ مجھے بتائیں گے کہ آج ہجری تاریخ کیا ہے ؟

سرکاری ملازم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں ۔ ٹائن بی نے ہجری تاریخ لکھی تھوڑا سا مسکرایا اور اس کی طرف دیکھ کر کہا تھوڑی دیر پہلے یہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑے زور و شور سے تقریریں ہو رہی تھیں ۔ وہ لوگ تاریخ کیسے بنا سکتے ہیں جنہیں اپنی تاریخ بھی یاد نہ ہو ۔تاریخ باتیں کرنے سے نہیں ۔ عمل سے بنتی ہیں ۔ سرکاری ملازم اور مصنف نے شرمندگی سے سر جھکا لیا ۔منقول،بشکریہ سی سی پی۔

 

Mehr Ishtiaq
About the Author: Mehr Ishtiaq Read More Articles by Mehr Ishtiaq: 31 Articles with 21454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.