کیا ہم ہمیشہ جاہل رہیں گے!

عالمی منظر نامے میں دنیا وی معاشروں کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا درجہ ان ممالک کو دیا جاتا ہے جو اتنی طاقت رکھتے ہوں جو ریاستی طور پر ہر دائرے میں مستحکم اور ترقی یافتہ ہوں۔اور تیسری دنیا کے ممالک کی فہرست میں ایسے ممالک شامل ہیں جو معاشی، سیاسی ، اقتصادی اور معاشرتی نیز ہر دائرے میں ترقی پذیر رہیں۔ پاکستان کا شماربھی انہیں ممالک میں ہوتا ہے جو تیسری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن پاکستان کا معاملہ دیگر ممالک سے مختلف ہے۔ پاکستان نے اپنے ابتدائی سالوں خاص طور پر چھپن سے پینسٹھ تک جو کامیابیاں سمیٹیں اور جس طرح سے ملک میں موجود قدرتی ذخائر کو پہچان کر انہیں استعمال میں لانے کیلئے اقدامات کئے ان کی نظیر نہیں ملتی۔ ان دنوں میں پاکستان میں جمہوریت کے دعویدار چیدہ چیدہ تھے ۔لوگ خوشحال تھے اور ان کے بیچ کوئی فرقہ واریت یا تعصب نہیں پایا جاتا تھا۔اس قومی یکجہتی اور بے مثال اتحاد نے پاکستان کی چھوٹی سی فوج کو دشمن کے ایک بڑے لشکر کے مقابلے میں ناقابل شکست بنایا تھا۔ پاکستان کی سرحدیں نہ صرف محفوظ ہوئیں بلکہ آگے بھی بڑھیں۔

لیکن استعماری قوتیں ظاہری طور پر تو پاکستان کی فتح کو قبول کر رہی تھیں مگر انہیں یہ دفاعی طاقت اور فتح کسی صورت ہضم نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ایک ورلڈ آرڈر تشکیل دیا گیا اور پاکستان کے ہر اس پہلو پر اثر انداز ہونا شروع کیا گیا جس کے ساتھ عوام الناس کی عقیدت جڑی ہوئی تھی۔ جمہوریت کے نعروں اور عوامی حکمرانی کے وعدوں نے عوام کو ایک نئی امید کے پیچھے لگا کر ان کے اندر شخصیت پرستی کا بیج بویا۔ سقوط ڈھاکہ شخصیت پرستی کی وجہ سے ہونے والا سب سے بڑا نقصان تھا جس کا ذمہ دار جمہوری ، ملوکیوں کو اور ملوکی جمہوریوں کو ٹھہراتے ہیں۔اس کے بعد ایک بار پھر پاکستانی عوام کے اتحاد کو ایک نئے پیرائے میں آزمایا گیا، جو مذہبی بنیادی عقیدے جہاد کے نام پر تھا۔ پاکستان کی عوام نے مسلمانیت کا ثبوت دیتے ہوئے جہاد میں دل کھول کر حصہ لیا اور سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ یہ تجربہ استعماری طاقتوں کیلئے بہت خطر ناک ثابت ہوا اور انہیں جان کے لالے پڑ گئے، اس موقع پر جہادی راہ نما کے خاتمے اور لوگوں میں جہاد لفظ کے بارے میں نفرت ڈالنے میں ہی انہوں نے بقاء سمجھی۔ جس کو انجام دینے میں انہوں نے ذرا دیر نہیں لگائی۔ جہاد کا جوش و جذبہ ختم تو نہ ہو سکتا مگر معدوم ہو چکا ہے۔ اس کا آغاز بیسوی صدی کے آخری عشرے سے ہوا تھا جب پاکستان میں برقی خبر رساں اداروں کے ذریعے فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کے عناصر رکھنے والی فلمیں براہ راست چلائی گئیں ۔ یہ ایمان کو کمزور کرنے کا بہترین ہتھیار ثابت ہوا جس نے اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں اتنا زور پکڑا کہ لوگ اس کے عادی ہو چکے تھے۔ اس کے بعد پاکستانی عوام کو مسلمان اور کافر کے مدعے سے نکال کر بین المسالک مدعوں میں پھنسا دیا گیا جس نے پاکستان کو تیس سال تک آگ میں جھونکے رکھا۔ استعماری قوتیں جانتی تھیں کہ پاکستانی فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اگر موقع دیا گیا تو وہ معاملے کو بخوبی سنبھال سکتے ہیں، اسی لئے پاکستان کو عالمی انسداد دہشتگردی کے قوانین والے پرچے پر دستخط کروا کر اس جنگ کا زبردستی حصہ بنایا گیا جو پاکستان کی کبھی تھی ہی نہیں۔ اس جنگ میں اسی ہزار کے قریب پاکستانی جوان شہید ہوئے، دہشتگردانہ حملوں اور بم دھماکوں میں عام لوگوں کی شہادتوں کی گنتی الگ ہے۔ اربوں ڈالر اس جنگ میں خرچ ہوئے جس نے پاکستانی معیشت پر گہری چھاپ چھوڑی،ایٹمی دھماکوں اور ایٹمی تجربات سے پاکستان کو روکنے کیلئے اس سے بڑا کھیل نہیں ہو سکتا تھا کہ پاکستان کو اس قدر قرضدار کر دیا جائے کہ وہ کبھی سود جیسی لعنت سے چھٹکارا نہ پاسکے ۔ اس کیلئے جمہوریوں نے استعماری قوتوں کی خوب مدد کی، اور آشیر باد سمیٹی۔ رہی سہی کثر ان جمہوری و ملوکی حکمرانوں نے نکال دی جنہوں نے کرپشن کے ذریعے اپنی تجوریاں بھریں اور ان قوانین پر آنکھ بند کر کے دستخط کرتے رہے جو نہ تو کبھی پاکستانیوں کا اسلوب رہا نہ فطرت۔ ہر بار پاکستانی حکومتوں نے اپنا بڑا پن یوں دکھایا کہ عوام ہی کو ہر ایک نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان پر ٹیکسوں اور بے جا مہنگائی کی بھرمار کرتے رہے۔پچاس سال سے زائد کی سازشوں کے زیر اثر پاکستان کی جمہوریت ، ملوکیت اور عوام ہمیشہ جاہل ثابت ہوئی۔

2018 کے عام انتخابات کے وقت راقم الحروف نے اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ انتخابات پاکستانیت اور استعماری قوتوں کے مابین ہوں گے۔ جو پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کریں گی۔ حق کی پہچان ہی یہی ہے کہ باطل کے سارے تیر اس کی سمت چلتے ہیں۔یہ بات سچ ہے کہ عالمی تناظر میں موجودہ جمہوری حکومت میں جتنی مہنگائی عوام نے دیکھی ہے اتنی کسی دور میں نہیں دیکھی تھی۔مگر یہی عوام ہے جو پاکستان میں انصاف کے آڑے کھڑی نظر آتی ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ہم پر شرائط عائد کیوں کرتی ہے؟ اور کیوں ہماری حکومتوں سے اپنی مرضی کے قوانین بنواتی ہے؟ کیونکہ یہ سارے پتے انہیں کے کھیلے ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ پاکستان کے غداروں کو پناہ دیتی ہے تو دوسری طرف پاکستان کو کہتی ہے انہیں پکڑو! یہی نہیں بلکہ یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ پاکستان کے وفادار انہیں سونپ دو جنہوں نے کسی نہ کسی صورت پاکستان میں اسلامیت، پاکستانیت اور انسانیت کے چمن کو ہرا بھرا رکھا۔یہ جو لوگ عوام الناس کے جذبات کو ہتھیار بنا کر ملکی اداروں کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہے ہیں ان سے عوام یہ کیوں نہیں پوچھتی کہ جب ملک ایسی صورت میں ہے تو وہ اپنا مال ملک و ملت کی بقاء کیلئے پیش کیوں نہیں کر دیتے؟ جب ملک بے یقینی اور ہیجان کا شکار ہے تو وہ ان جائیدادوں کا کیا کریں گا؟ یا ان کے پاس کوئی خفیہ شیلٹر ہے کہ جو بھی ہو ان کا مال اور جان محفوظ رہیں گی؟ جب سیاسی و عسکری قیادت اکٹھی ہو جائے اور سارے گھنڈے اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں تو عوام کو حق اور باطل میں تمیز کرتے ہوئے حق کا ساتھ دینا چاہئے۔ہمیشہ سازشوں کا توڑ اس میں شامل ہو کر کیا جاتا ہے۔ پراپیگنڈوں کی بنیاد افواہیں ہوتی ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ جب پاکستان کو استحکام کیلئے عظیم اتحاد کی ضرورت ہے تو عوام صرف ذاتی مفاد کا رونا پیٹ کر یا اغیار کے سہولت کاروں کے ساتھ مل کر پاکستانیت کے ہی خلاف کھڑی ہوئی ہے! ساٹھ سالہ سازشوں میں ابھی تک تو جاہلانہ رویہ ہی روا رکھا ہے تو کیا پاکستانی عوام ہمیشہ جاہل ہی رہنا چاہتی ہے؟ خیال رکھیں، تحقیق کریں! کہ کہیں آپ بھی جانے انجانے اپنی جاہلیت کی وجہ سے اس پانچویں نسل کی جنگ کا حصہ تو نہیں بن رہے؟ ساٹھ سالہ زہر آلود درختوں کو جڑوں سے ختم کرنے کیلئے پیٹ بھی چاک کرنا پڑے گا، خون بھی بہانا پڑے گا اور صبر و استقامت بھی دکھانی پڑے گی! تو کیا اسلامیت اور پاکستانیت کیلئے ہم سب اتنا بھی نہیں کر سکتے؟؟؟
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 167552 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More