شعور، معاشرہ اور نظام

کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ عام انسان کو سمجھ بوجھ حاصل کرتے نہیں دیکھ سکتا- کیونکہ سمجھ رکھنے والے کے گرد بغاوت کی خوشبو ہو گی۔ وہ آزادی میں رہنا چاہے گا- اپنے حق کا استعمال آزادانہ چاہے گا- لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرہ کیا ہے اور اس کا وجود کیا ہے؟

اگر فلسفے کی رو سے دیکھا جائے تو معاشرہ کو انسان کے مستقل اتحاد کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے- وہ لوگ جن کے رویے، طور طریقے، اقدار اور انجام اور دلچسپی مشترک ہو، مل کر ایک معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں-

ایسے افراد میں کچھ لوگ کمزو، کچھ بہت کمزور اور کچھ انتہائی بے ضرر- دوسری طرف کچھ افراد طاقتور، کچھ بہت طاقتور اور کچھ انتہائی ظالمانہ صفت رکھنے والے طاقتور موجود ہوتے ہیں- جو فطرتاً ہی حاکمیت چاہتے ہیں جو ان کا حق ہو یا نہیں وہ اسے حاصل کرنا جانتے ہیں اور حصول کی راہ میں رکاوٹیں ہوں تو اسے چھیننا اپنا حق سمجھتے ہیں-

ایک طرف وہ لوگ جو صرف اپنی زندگی گزرانا چاہتے ہیں- اس معاشرے میں رہ کر ان کے کیا حقوق ہیں وہ یا تو جانتے ہی نہیں یا جاننا چاہتے ہی نہیں یا ان کو‘‘معاشرے‘‘ نے جاننے کے حق سے محروم رکھا ہے-

یہ ازل سے ہوتا آرہا ہے کہ طاقتور کمزور کو دبانا چاہتا ہے اور اپنی حاکمیت قائم رکھنا چاہتا ہے- جب یہ کہا جاتا ہے کہ معاشرہ انسان کو عقل کے پردے فاش کرتے دیکھنا نہیں چاہتا تو اس سے مراد یہی لوگ ہیں جو کسی بھی حال میں عام انسان کی عقل پر پڑے پردے کو ہٹانا نہیں چاہتے- جب انسان سمجھ بوجھ استعمال کرنے لگے تو اس کا استحصال مشکل ہوگا-
اس کی کئی مثالیں ارد گرد بڑی واضح نظر آتی ہیں-
جاگیردارانہ نظام، بیورو کریسی، سیاست, یہ سب اسی اصول پر اپنا سکا جما کر رکھے ہوئے ہیں- اس میں سب سے بڑا کردار سیاسی نظام کا ہے- لیکن اس نظام کے لوگ منتخب ہو کر یا منتخب کروا کر آتے ہیں یا لائے جاتے ہیں- اس سے ہٹ کر بیرو کریسی وہ حکومتی نظام ہے جس میں اہم فیصلے منتخب نمائندوں کے بجائے ریاستی حکام کے ذریعے کیے جا تے ہیں-
یہ نظام کا کتنا اہم حصہ ہیں اس کے بارے میں ایک پرانی کہانی ذہن میں آگئی-
ایک بادشاہ جو شکار کے دوران کسی جنگلی جانور کے حملے سے بہت ذخمی وہ جاتا ہے اور ا س کے بچنے کی امید نہیں رہتی تو کچھ مہرے بادشاہ کے داہنے ہاتھ یعنی اس کے قریب ترین ساتھی اور وزیر کے گرد اکٹھے ہونے لگتے ہیں کہ وہ جلد از جلد تخت سنبھال لے- لیکن بادشاہ کا داہنا ہاتھ، اس کا ساتھی یہ قبول نہیں کرتا کیونکہ بادشاہ کے بعد تخت کا حقدار اس کا چھوٹا بھائی ہے- اچانک بادشاہ کا انتقال ہوتا ہے اور تخت اس کا بیٹا سنبھال لیتا ہے- جس کو سمجھایا جاتا ہے کہ بادشاہ کا داہنا ہاتھ، وزیر اس تخت کا سب سے بڑا امیدا وار تھا تو وہ بادشاہ وقت کے لئیے سب سے بڑا خطرہ بن سکتا ہے- لہذا اسے قید خانے میں ڈال دیا جاتا ہے- اور اس کے تمام خاندان کے افراد کے بارے میں بھی یہی حکم جاری ہوتا ہے- بادشاہ کے داہنے ہاتھ، وزیر کو وہی لوگ قید خانے پہنچاتے ہیں جو اسے بادشاہ بنانا چاہتے تھے- وہ وزیر ان ہی مہروں میں سے کسی سے سوال کرتا ہے کہ آخر تم کس کے وفا دار ہو؟
تو وہ جواب دیتا ہے کہ‘‘نظام کے‘‘
بادشاہ آتے ہیں چلے جاتے ہیں لیکن نظام نہیں گرنا چاہئیے! یہ بیوروکریسی وہیں قائم رہتی ہے- یہ مہرے اپنی جگہ بہت آہستہ بدلتے ہیں- تخت کے چاروں پیر اسی نظام اور اس کے مہروں کے محتاج رہتے ہیں- بے شک اس پر بیٹھا شخص وقت کا طاقتور ترین حاکم ہوتا ہے- لیکن جونہی یہ مہرے اپنی جگہیں بدلنے لگتے ہیں تو سب سے پہلے یہی تخت ہلنے لگتا ہے- کیونکہ اس پر اسی کو بٹھایا جاتا ہے جو‘‘نظام‘‘ کو چلنے دے-
یہ نظام وہی ہے جو ایک‘‘عام آدمی‘‘ کو اس کے حقوق سے آگاہی سے محروم رکھنا چاہتا ہے- نہیں تو یہ عام آدمی ایک مشینی زندگی اختیار نہیں کرے گا، نہ ہی وہ محکوم بن کر رہنا چاہے گا-
سندھ میں بہت سے علاقوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آٹے کی بوری اور صاف پانی سے ایک پورے خاندان کا ووٹ خریدا جا سکتا ہے- یہی حال جنوبی پنجاب کا ہے جہاں ووٹ خریدنا کوئی مشکل کام نہیں- ایک عام آدمی کو بنیادی ضروریات سے اس قدر محروم رکھا جائے کہ وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے عوض اپنا حق بیچ ڈالے-
پاکستانی سیاست میں اس نظام کے تحت کتنی حکومتیں آئیں اور دو، دو سال یا تین سال کے عرصہ میں زمین بوس ہوگئیں- اوپر سے شکلیں تو بدلتی رہیں لیکن کمزور پر حاکمیت کا جاگیردارانہ نظام اپنی آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم رہا- وردی والے اسی نظام سے ٹکر لے کر اسے بدلنے کے بجائے وردیاں اتار کر شیروانیاں زیب تن کر کے اس کا حصہ بنے-
پاکستان کے ہر صوبے کی اپنی الگ ثقافت تو ہے لیکن نظام وہی بوسیدہ ہے جہاں مختلف خاندانوں کی حکومتیں قائم ہیں-
سندھ کو دیکھا جائے تو وہاں چند سیاسی خاندان چھائے ہوئے ہیں جن میں ارباب، بھٹو، پٹھان، پگاڑا، پیرزادہ، تالپور، شاہ (تھر پارکر)، جام، جاموٹ، جتوئی، جنیجو، چانڈیو، شاہ (خیر پور) زرداری، سید (سن)، سومرو، پیر (سہیون) شیرازی، عباسی، قاضی، کھوڑو، گبول، شاہ (مٹیاری)، مخدوم کے علاوہ اور بھی بہت سے خاندان شامل ہیں جنہیں سیاسی وڈیرے کہا جاتا ہے-
صوبہ سرحد کے سیاسی خاندانوں کا تذکرہ کیا جائے تو وہ ارباب، رند، بلور، ترین، تنولی، جدون اور خٹک خاندانوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے راجگان گکھڑ، شیر پاؤ، کنڈی، گنڈا پور اور محمد زئی اور بہت سے خاندان ہیں جو سیاست پر چھائے ہوئے ہیں- ایسے ہی بلوچستان کی سیاست پر ہمیں اچکزئی، بزنجو، بگٹی، جام، جمالی، جوگیزئی اور رئیسانی سرداروں کا سکہ چلتا دکھائی دیتا ہے-
پنجاب کے بڑے سیاسی خاندان بشمول نواز شریف، ٹوانے، قریشی، گیلانی، گجرات کے چوہدری، جنوبی پنجاب کے مخدوم اور اس کے علاوہ سیاسی حکومتوں کا تختہ الٹنے والے جرنیلوں کے بچے بھی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی شان نظر آتے ہیں- کہنے کو پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے لیکن یہاں چند خاندانوں کے علاوہ سیاسی پردے پر معاون اداکار تو نظر آتے ہیں لیکن اس پر مرکزی کردار صرف انہی سیاسی شہزادوں اور شہزادیوں کو ملتے ہیں-
بادشاہت میں عام آدمی کی آواز محلوں کی دیواریں پار نہیں کر سکتیں- ازل سے اس معاشرے کے طاقتور لوگوں نے کمزور کی آزادی کو چھینا ہے- اور اسے اس کے حق سے محروم رکھا ہے- اگر یہی کمزور سوچنا شروع کر دے اور اس کی عقل کے گھوڑے دوڑنا شروع کر دیں تو وہ اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کرے گا- اور ہر خا ص و عام کو اس کے حقوق سے نوازنا اس معاشرے کے جاگیردارانا نظام کو‘‘سوٹ‘‘ نہیں کرتا- اس کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری ہونے لگیں تو وہ سوچنے لگے گا اور اپنی آواز اٹھائے گا-
کہتے ہیں کہ؛
‘‘درحقیقت عقلمند انسان ایک آگ ہے، وہ زندگی ہے، شعلہ ہے۔ وہ غلامی کی بجائے مرنا پسند کرے گا۔''
 

Atiya Rabbani
About the Author: Atiya Rabbani Read More Articles by Atiya Rabbani: 20 Articles with 14961 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.