ارشادِ ربانی ہے ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب پکارا
جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت
چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو پھر جب نماز پوری ہو
جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے
یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے ۔ سورۂ جمعہ کی ان دو
آیات میں دین اسلام کا امتیاز یعنی روحانیت اور مادیت کا توازن وامتزاج
بیان کیا گیا ۔ پہلی آیت میں ظاہر ہے کہ جس وقت اہل ایمان کو نماز جمعہ کے
لیے پکارا جارہا ہے تو وہ بازار میں خریدو فروخت کررہے ہیں ۔ یعنی اپنے
میدان کار میں مصروفِ عمل ہیں ۔ وہ لوگ اگر مسجد کے اندر تسبیح و تحلیل میں
منہمک ہوتے تو خریدو فروخت چھوڑنے کی تلقین نہیں کی جاتی۔ یہاں یہ بات پیش
نظر رہے کہ نماز جمعہ نصف النہار کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ کاروبار کو چھوڑ کر
مسجد کی جانب چل پڑنا مسجد کی جانب چل پڑنا یقیناً ایک مشکل ہے لیکن پھر
فرمایا کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہیں جمے نہ رہو بلکہ زمین پھیل کر
اللہ کا فضل یعنی رزق حلال کی تلاش میں لگ جاو۔ ہاں ایسا کرتے وقت اللہ کو
اسی طرح یاد رکھو جیسا کہ دوران نماز یاد کیا تھا۔
ان آیات میں بندۂ مومن بازار اور مسجد کے درمیان محو گردش نظر آتا ہے
لیکن ان کی حیثیت کا فرق بتاتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ
کو مسجدیں بہت زیادہ محبوب ہیں اور بازار انتہائی ناپسندیدہ ہیں‘‘۔ اس دنیا
میں انسان کے ساتھ بہت ساری مجبوریاں ہوتی ہیں اور بہت سارے کام وہ ذوق و
شوق کے ساتھ کرتا ہے۔ بازار انسان کی ایک ضرورت ہے لیکن وہ اس کا مطمح نظر
نہیں ہے۔ رب کائنات نے آزمائش کے لیے اس کی ضرورت کا سامان بازار میں رکھا
ہے اس لیے وہ وہاں دل لگانے کے لیے نہیں جاتا ہے بلکہ اللہ کے گھر میں اسے
چھوڑ جاتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہوکر اپنے رب کے گھر کی طرف دوڑ
پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جن سات قسم کے لوگوں کی خاطر ایک
ایسے دن اللہ کے سایہ کی بشارت دی ہے جس دن کوئی سایہ نہ ہوگا (یعنی قیامت
کے دن ) تو اس میں وہ آدمی بھی ہے جس کا دل مساجد میں اٹکا ہوا ہو۔ بقول
اکبر الہٰ بادی؎
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
مسجد میں پابندی سےآنے والوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ ایک اللہ سے مانگنے
والے اور دوسرے انسانوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والے۔ ایک مسجد میں سب سے
آگے والی صف میں جگہ تلاش کرتے ہیں اور دوسرے دروازے سے آگے نہیں بڑھتے ۔
اندر نماز کے لیے آنے والے آخری رکعت تک آتے ہیں بلکہ کبھی کبھار سلام
پھیرنے کے بعد بھی داخل ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر باہر کے سائل کبھی
تاخیر سے نہیں آتے کیونکہ انہیں پتہ ہے دیر سے آنا اور نہ آنا برابر ہے۔
ان دونوں کے اندر ایک دوسرے سے سیکھنے کے لیےاور بھی سامان ہے ۔مثلاً باہر
والے نمازوں کے اوقات اور دن بدلتے تاکہ وقفہ وقفہ سے لوگوں کے سامنے آئیں
اور استفادہ کریں ۔ ہر وقت ایک ہی مسجد کے سامنے کھڑے رہنے میں فائدہ کم
ہے۔ مسلمانوں کی اندر اصلاح کرنے والے حضرات بھی اگر محلے کی مختلف مساجد
میں نماز ادا کیا کریں تو ان کا حلقۂ اثر پھیل سکتا ہے اور رابطہ وسیع
ہوسکتا ہے۔
ان اندر والوں اور باہر والوں کے درمیان صفائی اور نظافت کے علاوہ ایک اور
بھی فرق ہوتا ہے۔ ایک روز مسجد سے نکلتے ہوئے میں نے سنا باہر بیٹھا سائل
موبائل پر کسی کو گندی گندی گالیاں دے رہا ہے اور نمازی اس کے پاس سے بلا
چوں چرا گذر رہے ہیں ۔ کسی کو حیرت نہیں ہورہی ہے۔ میں نے سوچا اگر یہ
اندرایسا کررہا ہوتا تو جس قدر بڑا ہنگامہ کھڑا ہوجاتا؟ اس وقت مجھے خیال
آیا کہ ہم لوگ محلے بھر کے لوگوں کو مسجد تک لانے کی تو خوب سعی کی جاتی
ہے اور کی جانی بھی چاہیے مگر وہ لوگ بھی تو جہ کے مستحق ہیں جو لامحالہ
مسجد تک آہی جاتے ہیں ۔ باہر والے مسلمان فقیر مسجد تک تو آہی جاتے ہیں
اگر وہ کچھ وقت پہلے آجائیں اور نماز بھی پڑھ لیں تو وہ دنیوی کے ساتھ
ساتھ اخروی فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں ۔
|