وہ ہر ہفتے قبرستان جاتا اور اپنے والد کی قبر پر
پھولوں کی چادر چڑھا تا۔وہاں کی اکثر قبروں کو دیکھ کر اسے محسوس ہوتا کہ
شاید ان کا دنیا میں کوئی نہیں اسی لیے یہ شکستہ اور ویران ہیں،لیکن کچھ
قبریں ایسی ہوتیں جوپھولوں سے بھری ہوتیں اور ہمہ وقت ا ن سے خوشبو آرہی
ہوتی۔وہ سمجھتا کہ ان کے گھر والے بھی شاید اسی کی طرح اپنے مرحومین سے بہت
محبت کرتے ہیں اسی لیے اب بھی ان کا خیال رکھتے ہیں۔
ایک دن وہ حسبِ معمول قبرستان گیااور والد کی قبر پر چادر چڑھانے لگا۔اچانک
اسے ایسے محسوس ہواکہ جیسے کوئی رو رہا ہے ۔اس نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ
یہ آوازایک پختہ ،پھولوں سے لدی ہوئی قبر سے آرہی ہے۔پہلے تو اسے بہت
حیرانی ہوئی پھر اس نے ہمت کر کے اس قبر کے مکین سے رونے کی وجہ پوچھی تو
اس نے کہا کہ میں اپنی بد حالی کا ماتم کر رہا ہوں۔وہ اور بھی حیران ہوا۔اس
نے کہا آپ تو خوشحال نظر آتے ہیں۔آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آپ کے گھر
والے آپ سے اتنی محبت کرتے ہیں اور آپ کا خیال رکھتے ہیں۔وہ آپ کی قبر کو
خراب نہیں ہونے دیتے ،اس کو معطر رکھتے ہیں اور اس پر پھول چڑھاتے ہیں۔ وہ
مکین دکھ بھرے لہجے میں کہنے لگاکہ اسی وجہ سے تو ر و رہا ہوں کہ ہمارے گھر
والوں کو پھولوں کی چادر چڑھانا اور قبر کو خوشبو سے معطر کرنا تو یاد رہتا
ہے،لیکن ان کو ہمارے درجات کی بلندی اور قبر میں آسانی کے لیے دعا کرنا
اورقرآن پڑھنا یاد نہیں رہتا۔وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید اس شہرِ خموشاں کے
خاموش مکینوں کو فقط پھولوں اور چادروں کی ضرورت ہے اور یہی ان کی خوشحالی
ہے۔نہیں!ہر گز ایسا نہیں ہے۔دنیا والوں کو جا کر بتا دو کہ یہاں کے مکین
تمہاری دعاؤں کے لیے ترستے ہیں،نیک اعمال کے لیے ترستے ہیں۔خدارا ! ان کو
بتا دو کہ ایسا کر کے وہ ہمیں راحت نہیں اذیت دیتے ہیں۔
خدارا ! ا ن کو سمجھا دو........ان کو سمجھا دو .......ان کو سمجھا دو۔ یہ
کہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
یہ سب سن کر اس کے ہاتھ سے پھولوں والی چادر چھوٹ کر گر گئی اور اس کے ہاتھ
بے اختیار دعا کے لیے اٹھ گئے،کیوں کہ اس کو سمجھ آگئی تھی کہ اس کے والد
کو اس کی لائی ہوئی چادر کی نہیں،بل کہ اس کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ وہ دل ہی
دل میں شہرِ خموشاں کے اس مکین کی صدا دنیا تک پہنچانے کا ارادہ کر کے لوٹ
آیا۔۔۔
|