جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی
جان بچائی؛(آلقران
ہاتھ میں چھڑی ، کاندھے پر لٹکتی ہوئی دوایئوںسےبھری ہوئی بیگ، ۶ فٹ برف
میں کھڑی ہوئی یہ خاتوں کوئی اور نہیں آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان چترال
کےصحت کا ایک ورکر ہے۔موسم کی سختی اس کی ہمت کے سامنے بے بس ہے، گلشیر اور
برف کا سینہ چیڑ کر ہوا کی یہ بیٹی سطح سمندر سے 13600 فٹ بلند ی پر واقع
وادی بروغل کے باسیوں کی مسیحا ہے۔
سطح سمندر سے 13600 فٹ بلند گلیشر کے دامن میں آباد اس مقام کا نام وادی
بروغل ہے ۔جو چترال سے 250 کلومیٹر دور افغان صوبے بدخشاں کے ضلع واخان کے
بارڈر پر واقع ہے۔جو ۱۶۰۰ آبادی کے ۲۲۰گھرانوں پر مشتمل ہیں۔ وادی بروغل کے
شمال مشرقی حصے میں گلگت بلتستان کا علاقہ آباد ہے۔
وادی بروغل اتنی خوبصورت ہے۔ کہ اسے زمین پہ جنت کہا جاتا ہے، بروغل کے
رہائشیوں کے لیے زندگی اتنی آسان نہیں ہے۔ جتنی ہم جیسے انسان تصور کرتے
ہیں۔یہ علاقہ سردیوں کے مہینوں میں بہت سخت موسم کا تجربہ کرتا ہے، یہاں ہر
سال پانچ سے چھ فٹ برف پڑتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وادی بروغل ضلع چترال کے
باقی حصوں سے بالکل الگ تھلگ ہو جاتی ہے ۔اور تمام مواصلاتی رابطہ منقطع ہو
جاتا ہے۔سال بھر زندگی گزرانے کے لئے تمام اشیائے خوردانی جمع کرنا پڑتی
ہے۔اس وادی میں صحت کے حوالے سےکوئی خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کے برابر
ہے۔ وادی بروغل کے لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں وادی
میں نہ تو کوئی مواصلاتی نظام فعال ہے اور نہ روزگار کے مواقع موجود ہیں،
زیادہ تر لوگ مال مویشی پالتے ہیں مگر موسم سرما میں شدید برف باری کی وجہ
سے کئی مہینے یہ لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ جاتے ہیں اور اس دوران ان کے
مال ماوشیوں کے لئے چارہ بھی مشکل سے دستیاب ہوتاہے۔
آغا خان ہیلتھ سروس گزشتہ کئی دہایئوںسے ضلع چترال اور گلگت بلتستان کے
پسماندہ علاقوں میں صحت کے شعبے میں اپنی بہتریں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اے
کے ایچ ایس پی سماجی صحت عامؔہ کے پرگراموں کو ترتیب دیتا ہے تاکہ معاشرے
میں عدم تحفظ کے شکار طبقے تک رسائی حاصل ہو خاص طورپر حاملہ خواتین کی
دیکھ بھال اور وقت کے ساتھ سنگین نوعیت کے کیسز کو ریفر کرنا ،تاکہ ماں اور
بچے کی صحت کو بروقت کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ اور چھوٹے بچے جنہیں تکنیکی طبی
سہولیات فراہم کی جاسکیں۔مثلاًحفاظتی ٹیکے، حاملہ عورتوں کی دیکھ بھال،
جراثیم سے پاک تولید، دست کے علاج کے لیے اورل ری ہائڈریشن تھراپی کی
فراہمی اس نیک عمل کا حصہ ہے۔
آغا خان ہیلتھ سروس، پاکستان نے ایک ہیلتھ سنٹر قائم کیا ہے جو یارخون کے
گاؤںشوست میں ہے ۔جو وادی بروغل سے 55 کلومیٹر دور ہے۔ وادی بروغل کے
باسیوں کے لئے آغا خان ہیلتھ سنٹر شوشت تک رسائی ممکن نہیں ہے کیونکہ اس
وادی میں گاڑیاں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔اگرچہ عام دنوں میں اس وادی تک
پہنچنا مشکل ہوتا ہے، لیکن خاص طور پر سردیوں کے موسم میں اس وادی تک رسائی
تقریباً ناممکن ہے۔
سال ۲۰۲۰اور سال ۲۰۲۱کے موسم سرما میں AKHSP کےلیڈی ہیلتھ وزیٹر میں سے ایک
محترمہ نفس بی بی نے بہت سنگین نوعیت کے خواتین کے کیسز (ڈلیوری، ریٹین
نال) میں شرکت کے لیے کئئ بار وادی بروغل کا دورہ کیا ہے۔ اس نے پیدل سفر
کیا اور شدید برف باری میں مسلسل دو دن گھوڑے پر سوار ہو کر اس مقام تک
پہنچی جہاں اللہ تعالیٰ ایک امید کی روشنی بنا کربے سہاروں کا سہارہ بنا کر
نفس بی بی کو ا س علاقے کے لئے میسحا کے طور پر ذمہ داری سونپ دی ہے۔نفس بی
بی اس وادی کے خواتین کے لیے کسی مسیحٓا سے کم نہیں ہے، کیونکہ جہاں زندگی
اتنی بے درد ہو وہا ں کوئی سہارہ بن کر اترے وہ کسی معجزے سے کم نہیں
ہے۔زندگی کے بینادی سہولیات سے محروم اس وادی میں آغا خان ہیلتھ سروس
گرران قدر خدمات انجام دے رہی ہے۔
نفس بی بی گزشتہ کئی سالوں سے آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان کے ساتھ وابستہ
ہے۔اس نے اس پسماندہ علاقے میں ہوا کی بیٹی کو زندگی کے ابتدائی ایام میں
کامیاب پیدایش اور پیشہ ورانہ طور پر ان کی بہتر صحت کو برقرار رکھنے کا
ذمہ سنبھالی ہےْ۔ اس نے ماؤں کی جانیں اور ان کے بچوں کی جانیں بچائیں۔گاوں
شوست سیمت وادی بروغل کے دورافتادہ علاقوں میں زچگی کے کیسز اور نملود بچوں
کو انجگشن لگانا ،اور ساتھ پیدایش سے ۵ سال تک کے بچوں کو تسلسل کے ساتھ
چیک اپ کرنا تاکہ بچوں میں غذائی کمزوری کی نشادہی اور ساتھ ۱۳ مہلک
بیمارویوں سے بچاو کے حفاظتی ٹیکے لگانا ،۶ سال ۱۶ سالکے بچوں کو سکول
ہیلتھ پروگرام کے تحت تشخص کرنا تاکہ بچوں میں سنے بولنے چلنے کی صلاحیت کی
پیمایش کی جا سکے تاکہ وقت پر کسی بھی قسم کی کمزوری کی نشاندہی ہو سکے اور
وقت پر علاج کیا جاسکے۔صحت کے طےکردہ یہ سب اصولوں کو عبادت کی طرح
سمجھا۔نفس بی بی نے کھبی بھی موسم کی سختی اور حالات کی مجبوری کو اپنے فرض
کے سامنے مجبور کیا، ہر وقت سخت موسم میں کھبی پیدل کھبی گھوڑے پر سوار ہو
کر دکھی انسانیت کی خدمت کو تر جیح دی۔
کہتے ہیں کہ اس دنیا میں اگر سماج سے آپ کو عزت چاہیےتو سب سے پہلے لازمی
ہے کہ آپ اہم بنیے اگر آپ اہم بنا چاہتی ہے تو مسائل کاحل کریں۔
وادی بروغل کے گاوں چیلیمارہ باد سے ایک خاتون نفس بی بی کے بارے یوں کہتی
ہے
عورت کی زندگی میں سب سے مشکل ترین مرحلہ ایک بچے کو جنم دینا ہے۔ان مراحل
سے گزرنا کسی اذیت سے کم نہیں، میں اپنے زندگی کے آخری سانس لے رہی
تھی،مجھے یوں لگا کہ شاید اب میں بچ نہیں پاونگی، کیونکہ اس علاقے میں صحت
کے حوالے سے نہ کوئی داعی موجود ہے نہ داویئاں میسر ہیں، اور نہ دوسرے
علاقوں کی صحت کے مراکز تک پہنچنے کا زریعہ ہے۔اس اثنا میں اللہ تعالیٰ نے
اپنا رحم،وکرم کی نظر ہم پہ ڈالی ، کسی مسیحا کو گھوڑے پہ سوار میری زندگی
بچانے کے واسطے بھجی،نفس بی بی جتنی خوش اخلاق ہے اتنی انسانی ہمددری اور
شفقت سے مالا مال بھی ہےوادی بروغل کے گاوں پچ اوچھ سے تعلق رکھنے والی ایک
اور ماں نفس بی بی کے بارے یوں کہتی ہے۔
نہیں جانتی تھی کہ زچگی میں میرا جسم اتنا زیادہ بھی کاٹ سکتا ہے۔میں کئی
مہینوں سے اس کرب سے گزر رہی تھی، مجھے ڈر تھا کہیں اگر مجھے کچھ ہو بھی
گیا تو میرے ان بچوں کا کیا گا ،جو ابھی بھی میری طرف دیکھتی ہیں،ایک طرف
غربت نے ذہنی طور پر کمزور کیا تھا دوسری طرف ایک بچے کو جنم دینا، وہ بھی
اس سخت سردی کے موسم میں۔دن رات اس خوف نے آنکھوں سے میری ننید بھی لے چکی
تھی،وہ دن بھی آیا جب نفس بی بی اس موقع پر میری ساتھ تھی،میری بیٹے کی
جنم ہوئی ۔میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو ٹپک رہی تھی ،کیونکہ اس سے پہلے
بھی میں اس تلخ تجروبے سے گزر چکی تھی، مگر اس بار یہ مکمل طور پر مختلف
تھا، میں پرشان نہیں تھی، اور ذہنی طور مطمیں تھی۔کیونکہ میرے سرہانے پر
انفس بی بی موجود تھی۔
نفس بی بی صحت کے شعبے میں اپنی اس سفر میں ایک دالخراش کہانی یوں بتاتی
ہیں۔
جنوری ۲۰۲۰کی کہانی ہے۔ میں حسب معمول اپنی ڈیوٹی پر معمور تھی، سردیوں کا
موسم تھا ، وادی بروغل کے گاوں لاشکر گھاس سے ایک خاتوں کو گھوڑے پر سوار ی
کرکے ہیلتھ سنٹر لائی گئی جو ۱۰دن تک مسلسل زچگی کے حوالے سے بیمار تھی ،۷
دن تک وہ بچے کو جنم نہیں دے سکی، اٹھویں دن اسے گھوڑے پر سوار کرکے دو دن
کی مسافت طے کرکے شوشت سنٹر لائی گئی،میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ بچہ تندرست
جنم لے لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا، و ہ خاتون ۱۰دن جس اذیت
سے گزری تھی اور ساتھ جس تکلیف سے وہ سخت موسم میں دو دن سفر کر ے یہاں
پنہچی وہ لمحہ میری زندگی کا سب سے دلخراش لمحہ تھی،میں اب بھی وہ دن وہ
لمحہ نہیں بھولا سکی
کاش کہ اس علاقے میں اس وقت کوئی ایل ایچ یا داعی موجود ہوتی اس خاتون کو
یہ لمحہ دیکھنا نہ پڑتی۔
|