ایک بجھکڑ (بے وقوف شخص ) کا قصہ مشہور ہے جو اپنے آپ کو
کافی عقلمند کہلواتا تھا ، بڑے جوش و خروش سے لوگوں کو اپنی فرضی دانائی کی
کہانیاں سناتا تھا ۔۔ ایک بار قریب کے کسی گاں کا ایک شخص درخت پر چڑھ کر
پھنس گیا اور پھر اترنا مشکل ہو گیا ۔ گاں کے لوگ جمع ہوئے مگر کوئی راہ نہ
نکال سکے آخر بوجھ بجھکڑ کو بلایا گیا ۔ بوجھ بجھکڑ نے آتے ہی مسئلہ کا حل
ڈھونڈ نکالا اور ایک لمبا رسا منگوا کر اس کا ایک سرا درخت پر پھنسے شخص کی
طرف پھینکا اور اسے حکم دیا کہ اس سے اپنے آپ کو خوب کس کر باندھ لو اور
دوسرا سرا اپنے ہاتھ میں پکڑ کر نیچے کھڑے لوگوں کو دور دور ہٹ جانے کا کہا
۔ پھر ایک جھٹکے سے رسے کو نیچے کھینچا تو درخت پر پھنسا شخص ایک ہی لمحے
میں زمین پر آ لگا اور ہڈی پسلی ایک ہو گئی ۔ گاں کے لوگوں میں کہرام مچ
گیا اور سب نے بھول بجھکڑ کو گھیر لیا کہ یہ کیسا عقلمندی کا فیصلہ کیا ؟؟
بوجھ بجھکڑ نے کہا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں کیونکہ ابھی چند ہی دن
پہلے کنویں میں ایک شخص پھنس گیاتھا اسے بھی میں نے اسی طرح اپنے آپ کو رسے
سے باندھنے کا حکم دیا اور ایک جھٹکے سے رسے کو کھینچا تو وہ صحیح سلامت
زمین پر آکھڑا ہوا مگر یہاں شاید اس بندے کی موت پہلے سے ہی لکھی جا چکی
تھی اس لئے یہ زمین پر آکر بچ نہ سکا ۔۔۔ہمارے ہاں بھی ایک بہت بڑا دانشور
طبقہ اس طرح کی غلط فہمی میں مبتلا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ شاید مسلمانوں
اور غیر مسلموں کی ترقی و تنزلی کے ایک ہی اسباب ہیں ۔اگر ساری دنیا کا کفر
سائنسی میدان میں ترقی کی وجہ سے آج دنیا پر راج کر رہا ہے تو مسلمانوں کے
زوال کی وجہ بھی اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کہ وہ سائنسی اور عسکری
ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں اور مسلمانوں کا زوال اسی دن سے شروع ہوگیا جس دن
وہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک دوسرے سے پیچھے رہ گئے۔۔اس میں کوئی شک نہیں
کہ سائنسی اور عسکری جدید سہولیات اور ٹیکنالوجی وقت کی ضرورت ہے اور اس کے
بغیر چارہ کار نہیں اور اسلام بھی یہی درس دیتا ہے ..( واعدوا لھم ما
استطعتم من قو ) مگر ہمارے زوال کی بنیادی وجہ ہی سائنسی کمزوری اور وسائل
کی کمی کو سمجھنا انتہائی غلط نقطہ نظر ہے ۔۔حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں
اور غیر مسلموں کے عروج کا زوال کے اسباب الگ الگ ہیں اگر غیر مسلموں کی
ترقی و تنزلی کا دارومدار مادی میدان کی دوڑ پر منحصر ہے تو مسلمانوں کا
عروج و زوال ایمان و عمل صالح کی کسوٹی پر ہے۔ اس نقطہ نظر کا اظہار بر
صغیر کے ایک نامور مفکر و ادیب علامہ شبلی نعمانی نے ان الفاظ میں کیا کہ
اگر کافروں کی ترقی اس میں ہے کہ وہ آگے بڑھتے جائیں آگے بڑھتے جائیں تو
مسلمانوں کی ترقی اس میں ہے کہ وہ پیچھے ہٹتے جائیں پیچھے ہٹتے جائیں یہاں
تک کہ صحابہ کی صف میں جا کر کھڑے ہو جائیں ۔۔پرواز ہے دونوں کی اس ایک فضا
میں کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور اگر ہم قرآن مجید میں انصاف کی
نظر دوڑائیں جو کہ صرف آسمانی کتاب ہی نہیں بلکہ دنیا میں رونما ہونے والے
زمینی حقائق اور فطرت کے نہ بدلنے والے اٹل قوانین کی حامل کتاب ہے تو ہمیں
ہر کامیابی و سرخروئی اور عروج و خلافت کی شرط صرف ایمان و عمل صالح بتلائی
گئی ہے ۔اسی طرح اگر ذرا مڑ کر ایک گہری نگاہ تاریخ پر ڈالی جائے تو ہم
دیکھیں گے کہ اسلام کے غلبے کی ابتدائی جنگ ہی ایسے حالات سے شروع ہوئی کہ
مسلمانوں کے پاس نہ کوئی اسلحہ تھا نہ کوئی تیر تلوار اور گھوڑے ۔ تعداد
میں بھی کافروں کے مقابلے میں ایک تہائی تھے ۔ وسائل کے لحاظ سے کافروں کے
پاس ایک سو گھوڑے تھے تو مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے ۔ ان کے پاس ایک
ہزار اونٹ تو مسلمانوں کے پاس صرف ستر اونٹ مگر اس بے سروسامانی اور تہی
دامنی کے باوجود ایمان ان کے دلوں میں پہاڑ سے زیادہ مضبوط اور زندگی ایک
خدا کی بندگی کا مظہر تھی پھر دنیا گواہ ہے کہ فتح مسلمانوں کے حصے میں آئی
۔ایسے کوئی ایک دو واقعات نہیں جنہیں کوئی اتفاقات کا نام دے کر نظر انداز
کر دے بلکہ اگر غور کیا جائے تو کڑی سے کڑی جڑی نظر آئے ۔غزو احد میں سات
سو مسلمانوں کے مقابلے میں تین ہزار کفار ، غزو احزاب میں تین ہزار مسلمان
اور دس ہزار کفار ، غزو خیبر میں چودہ سو مسلمان جبکہ دس ہزار کفار تھے ،
غزو موتہ میں تین ہزار مسلمانوں کے مقابلے میں دو لاکھ کفار کا لشکر صف آرا
تھا ان سب غزوات میں مادی وسائل کا پلڑا ہمیشہ کفار کی طرف رہا اور مسلمان
وسائل کے اعتبار سے کئی گنا کم تھے مگر فتح وسائل اور افرادی قوت کی نہیں ،
دلوں میں موجود ایمان و یقین کی ہوئی ۔سیدنا عمر فاروق کے عہد میں یرموک کے
میدان میں تاریخی معرکہ ہوا جس میں تیس ہزار مسلمان دو لاکھ رومیوں سے ٹکرا
پڑے ۔ صرف تین ہزار مسلمان شہید ہوئے جبکہ رومیوں نے ایک لاکھ سپاہیوں کی
ہلاکت کے ساتھ شکست فاش کھائی ۔طارق بن زیاد سات ہزار مسلمانوں کے ساتھ
جبرالٹر کے مقام پر اندلس میں اترا تو مقابلے میں راڈرک ایک لاکھ فوج لے کر
آیا جو کیل کانٹوں سے مکمل لیس تھی مگر فتح کا پھل ایمان و یقین کے علم
برداروں کی گود میں ہی گرا ۔محمد بن قاسم کے مقابلے میں راجہ داہر چالیس
ہزار کا لشکر جرار لے کر آیا مگر صرف پندرہ ہزار مسلمانوں نے دانت کھٹے کر
دئیے اور راجہ داہر کو موت کی گھاٹ اتاردیا ۔قتیبہ بن مسلم پورے وسط ایشیا
پر فتح کا پرچم لہراتا ہوا چین تک پہنچا اور خاقان چین کے بھتیجے کی قیادت
میں لڑنے والے دو لاکھ کے چینی لشکر کو بڑی کم تعداد اور کم وسائل کے ساتھ
شکست دی اور بلا آخر جزیہ دینے پر مجبور کیا ۔الپ ارسلان نے پندرہ ہزار فوج
کے ساتھ قیصر روم ارمانوس کے تین لاکھ کو عبرت ناک شکست سیدوچار کر کے خود
قیصر روم کو گرفتار کیا ۔بہر حال ہمیشہ بہترین وسائل اور وقت کی ٹیکنالوجی
کو شکست ہوئی اور نسبتا نہتے مسلمانوں کا ایمان و عمل صالح اور خدا کی
فرمانبرداری ہر میدان میں کام دے گئی صرف یہاں تک نہیں بلکہ تصویر کا دوسرا
رخ بھی دیکھئے کہ غزو حنین میں ذرا سا ایمان و یقین کو ڈگمگا دینے والا
خیال آیا کہ آج تو ہم کثرت سے ہیں اور وسائل بھی بھرپور ہیں تو وقتی طور پر
وسائل کے باوجود شکست دے کر یہ سبق سکھا دیا گیا کہ تمھارا معاملہ کثرت و
قلت اور وسائل کی کمی زیادتی سے رہا ہی نہیں ہے ، تم پہلے بھی ایک خدا کی
فرمانبرداری کی وجہ سے آسمانی مددونصرت کے بل بوتے پر فاتح رہے اور آئندہ
بھی یہی ہوگا ۔ایک موقع پر تو مسلمان پوری دنیا پر غالب تھے ہر طرف ان کا
طوطی بولتا تھا ،وہ بلاشرکت غیرے دنیا کی سپر پاور تھے لیکن پھر آنا فانا
ایسا ہوا کہ مسلمانوں کی یہ ساری ہیبت ناک طاقت تاتاریوں کے ایک ہی ہلے میں
ہوا ہوگئی اور دریائے فرات لاکھوں مسلمانوں کے خون سے کئی دن تک سرخ رہا
۔کیا اس وقت ہم غیر مسلم دنیا سے سائنسی ترقی میں پیچھے تھے ؟؟؟؟؟؟؟؟ہرگز
نہیں بلکہ مادی ، اقتصادی اور عسکری اعتبار سے ساری دنیا پر غالب رہا ۔
اتنی بڑی طاقت بھرپور وسائل کے باوجود اتنی آسانی سے تباہی و بربادی کی
بھینٹ چڑھ گئی کیونکہ مسلمانوں کے ایمان کی سطح اور عمل کا معیار اس حد تک
گرچکا تھا کہ حاکم سے لے کر غریب رعایا تک سب کے سب خدا کو چھوڑ کر نفس کے
پجاری بن چکے تھے ۔آج موجودہ حالات چیخ چیخ کر جھنجوڑ رہے ہیں کہ خدارا
کبوتر کی طرح آنکھیں موندنے کے بجائے حقیقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
دیکھیں کہ ایمان وعمل کی کمزوری ہی ہمارے زوال کی سب سے بنیادی وجہ ہے ورنہ
پچاس سے زائد اسلامی ممالک وسائل کے اعتبار سے پہلے سے کہیں زیادہ آراستہ
ہیں مگر ایمانی ضعف اتنا کہ اتحاد کی چادر تار تار ہے اور ہر مسلم ملک
اسلامی اخوت کے بجائے قوم پرستی اور وطن پرستی کا جھنڈا بلند کئے ہوئے ہے
اور دنیا کا کفر متحد ہو کر ایک ایک اسلامی ملک کو بم بارود سے پاڈر بنائے
جارہا ہے ۔ عراق ، فلسطین ، چیچنیا ، برما ، افغانستان اور کشمیر ۔ باری
باری اور اب خدا جانے کس کی باری ؟؟؟؟بشکریہ سی سی پی۔
ہم خود تراشتے ہیں منازل کے سنگ راہ
ہم وہ نہیں کہ جنہیں زمانہ بنا گیا۔۔۔۔
|