ہر معاشرہ کچھ ستونوں پر کھڑا ہو تا ہے اگر اس کے ستون ہل
جائیں توپوری عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے لیکن ایسا یکلخت نہیں
ہوتا بلکہ اس کیلئے مدتِ طویل لگتی ہے۔اپنی دنیا میں مگن رہنے والوں کیلئے
وقت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی لہذا وہ اس کا ادراک کرنے سے قاصر ہوتے
ہیں۔بقولِ شاعر۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔،۔ حادثہ ایک دم نہیں ہو تا)
۔عوامی شاعر حبیب جالب کا بھی یہی استدلال تھا (تمھیں ضد ہے کہ راستہ کٹ
رہا ہے ۔،۔ مجھے یقین ہے کہ منزل کھو رہے ہو)یہ منزل کھونا کی کیفیت اسی
وقت ہوتی ہے جب انسان بینائی سے محروم ہو جاتا ہے اور کسی بھی شہ کو اس کی
حقیقی شکل میں دیکھنے سے معذور ہو جاتا ہے۔زمینی حقائق اور اس کی سوچ میں
تال میل نہیں ہو تا اس لئے وہ آنے والے حادثات سے بے خبرہو تا ہے۔اقبال کی
نگاہِ بینا کا کمال دیکھئے کہ وہ وہ آنے والے زمانے کی بات کتنے وثوق ا ور
یقین سے کرتا ہے (حادثہ وہ جو ابھی پردہِ افلاک میں ہے۔،۔ عکس اس کا میرے
آئینہ ادراک میں ہے)۔،۔( نے ستارے میں ہے نہ کردشِ افلاک میں ہے تیری تقدیر
میرے نالہِ بے باک میں ہے) ۔ پاکستان میں بے راہ روی کے بڑھتے ہوئے رحجان
میں مسلسل اضافہ سے ہر کوئی پریشان ہے۔وہ اس کی وجوہات بھی جانتا ہے لیکن
لب بمہر ہے کیونکہ اس میں اس کی اپنی بھی رسوائی ہے۔ پروین شاکر کا ایک
خوبصورت شعر (میرے لبوں پر مہر تھی لیکن میرے شیشہ روح نے تو ۔،۔ شہر کے
شہر کو میرا واقفِ حال کر دیا) کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ والدین کی
تربیت سے غفلت کا نتیجہ ہے جبکہ کچھ اسے مذہب سے دوری کا نتیجہ قرار دے رہے
ہیں لیکن کوئی بھی یہ بتانے کیلئے تیار نہیں ہے کہ موبائل کا وہ ایٹم بم جو
والدین خوشی خوشی اپنے بچوں کے ہاتھوں میں تھمانے کے جنون میں جٹے ہوئے ہیں
وہی نسلِ انسانی کی تبای کا ذمہ دار ہے۔مذہب سے لگاؤ کی ایکٹنگ تومعاشرہ
میں اب بھی جاری ہے لیکن اس پر عملداری کا کہیں نام ونشاں نہیں ہے۔سب
دکھاوے کا ڈرامہ ہو رہا ہے اور ہم وطنوں کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے ۔،۔
نعتوں،حمد و ثناء ،آیاتِ قرآنی،اقوالِ زریں،قوالیوں اور اعلی شاعری سے سوشل
میڈیابھرا پڑا ہے لیکن اعمال کی پاکیزگی کا کہیں نام و نشاں نہیں
ہے۔اساتذکی تربیت تو قصہِ ماضی بن چکی ہے جبکہ والدین کی عزت و احترام کا
اﷲ ہی حافظ ہے۔کوئی کسی عالم،مفتی،دانشور،ادیب، شاعر اور صاحب ا لرائے
انسان کی بات سننے کیلئے آمادہ نہیں ہے۔ہر کوئی اپنی ڈفلی بجا رہا ہے۔مذہب
اب ذاتی معاملہ رہ گیا ہے اور انسان کو اپنی مرضی سے جینے کا مکمل اختیار
حاصل ہے۔میرا جسم میری مرضی ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے ۔جذباتیت
کے مارے ہوئے انسان اس کی حقیقت نہیں سمجھ پا رہے وگرنہ سچ تو یہی ہے کہ اب
ہر فرد کی اپنی ایک دنیا ہے جس میں وہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں
کرتا۔موجودہ دور میں موبائل پر اپ لوڈڈ مواد کی وجہ سے بچے وقت سے پہلے
بالغ ہو رہے ہیں اور ان کی جنسی تسکین کے ذرئع محدود ہونے کی وجہ سے معاشرہ
فرسٹریشن کا شکار ہو رہا ہے۔دنیا گلوبل ویلج کا روپ دھار چکی ہے۔کسی دور
دراز مقام پررونما ہونے والا واقعہ چشم ِ زدن میں پوری دنیا میں پھیل جاتا
ہے جس سے ہر شخص متاثر ہو تا ہے۔سوال ملکی حد بندیوں کا بھی نہیں رہا بلکہ
کوئی بھی حیرت انگیز واقعہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رونما ہو سب اس کی مذ
مت کرتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی اور سماجی رویے اپنے ا ثرات مرتب
کررہے ہیں اور انسانی اعمال کی بنیاد بن رہے ہیں لیکن بہت سوں نے اپنی
آنکھیں بند کر کھی ہیں۔پروین شاکر کا ایک انتہائی خوبصورت شعر(پا بگل سب
ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون۔۔دست بستہ شہر میں کھولے میری زنجیر کون)۔
علامہ اقبال نے تو کسی اور پیرائے میں کہا تھا کہ ( ہر فرد ہے ملت کے مقدر
کا ستارا)لیکن اب واقعی وہ ملت کے مقدر کا ستارا بن گیا ہے۔اس کی دنیا الگ
ہے،اس کی ترجیحات الگ ہیں ، اس کی پسندو نا پسند الگ ہے ،اس کی سوچ الگ
ہے،اس کے اعمال الگ ہیں،اس کا حلقہِ اثر الگ ہے،اس کے دوست الگ ہیں،اس کے
ہمنوا الگ ہیں،اس کے دلدار الگ ہیں،اس کی سوچ الگ ہے،اس کی فکری اڑان الگ
ہے اور اس کی منزل الگ ہے۔معاشرتی رویے اب کسی ڈبے میں بند نہیں رہ پا رہے
بلکہ وہ اپنے اثرات پورے کر ہ ِ ارض پر مرتب کر رہے ہیں۔نوجوان ایسے واقعات
کا سب سے زیادہ اثر قبول کرتے ہیں۔اگر ہم کالجوں کا ماحو ل دیکھیں تو
منشیات اور جنسیات پورے عروج پر ہے ۔گھر والے خاموشی کی چادر اوڑھے سو رہے
ہیں اور بچے اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں۔ لڑکیوں کو چونکہ خاندان کی عزت قرار
دیا جا تا ہے لہذا ان پر سب کی نظریں جمی ہوتی ہیں لیکن بد قسمتی سے سوشل
میڈیا پر دل لبھاتی ادائیں بھی لڑکیوں سے ہی سر زد ہو رہی ہیں جو نوجوانوں
میں ارتعاش پیدا کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔حد تو یہ ہے کہ کچھ خواتین کو
اپنا ایک ایک انگ دکھانے کا بے پناہ شوق ہو تا ہے،ان کا بناؤ سنگھار کا عزم
اسی کا پرتوہوتا ہے جبکہ خدائی حکم ہر ایک ا نگ کو چھپانے کا ہے۔عورت
بنیادی طور پر نمائش پسند ہوتی ہے،اسے اپنے حسن کی نمائش میں لطف آتا ہے اس
کا بناؤسنگھاردر ا صل اسی جبلت کا اظہار یہ ہے جسے صرف مذہب ہی روک سکتا
ہے۔موبائل فون کی تباہی کی شدت کو ابھی تک صحیح طور پر جانا نہیں گیا ۔ابھی
ہم خوش گمانی میں ہیں۔ جوان لڑکے اور لڑکیاں اس کی زد میں ہیں اور ان کی بے
قراریان حدود فراموش ہوتی جا رہی ہیں۔وہ آزادی چاہتے ہیں لیکن معاشرہ اور
مذہب ان کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہے جس کی وجہ سے وہ بغاوت پر اترے
ہوئے ہیں۔روز ا نہ قانون شکنی اور خونی رشتوں میں قتل و غارت گری اسی بغاوت
کا شاخسانہ ہے۔وہ جنس پرستی میں دیوانگی کی حدوں کو چھورہے ہیں اور والدین
ان کے مطالبات کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے پر آمادہ نہیں تو نتیجہ وہی
معاشرتی ٹکراؤ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جس کی وجہ سے معاشرہ افرا تفری
اور انتشار کا منظرپیش کرنے لگ گیا ہے۔تن کی دنیا پر اقبال کا اظہاریہ ۔
(تن کی دنیا، تن کی دنیا ،سودو سودا مکرو فن )۔،۔
اس وقت لبرل ازم اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ میدان میں اترا ہوا ہے اور
اس کے ہاتھ میں موبائل کاایک ایسا ہتھیار ہے جس کے سامنے کسی دوسری قوت کا
ٹھہرنا ناممکن ہے۔بنیادی طور پر مذہب میں بے پناہ اور لا محدود قوت ہو تی
ہے لیکن بد قسمتی سے اس ہتھیار کے سامنے مذہب کے قدم بھی نہیں جم رہے اور
وہ بھی ہیجانی کیفیت میں ہے ۔نوجوان موبائل کے اندر جنسی ہیجان کے مواد سے
آزاد ہو گا تو بھر وہ مذہب کی جانب متوجہ ہو گا ۔فون اسے آزاد نہیں ہو نے
دے رہا جس سے لبرل ازم کی آندھیاں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں اور نوجوان اس کا
ایندھن بن رہے ہیں۔نوجوان زبان سے مذہب کا قائل ضرور ہے لیکن جنسی ہیجان کا
ریلہ اسے بے بس کر رہا ہے۔اس کی حالت اس بیوہ کی سی ہے جو رات کو اپنی
تنہائی کی اذیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر روز شادی کا قصد کرتی ہے لیکن پھر
معاشرے کے خوف سے صبح کے اجالے میں اپنی خواہش کا گلہ گھونٹ دیتی ہے ۔لبرل
ازم کا علمبردار طبقہ نو جوانوں کو ورغلا رہا ہے ،انھیں مذہب سے دور کر رہا
ہے اور انھیں سہانے سپنے دکھا کر ان کی عاقبت کو تباہ کر رہاہے۔لبرل بیانیہ
اور مذہبی بیانیہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑ ے ہیں لیکن مذہبی بیانہ لمحہ
بہ لمحہ کمزور ہو رہا ہے ۔ یورپ کی پشت پناہی اور سائنسی ایجادات نے رہی
سہی کسر پوری کر دی ہے ۔دوسری طرف روحانی دنیا پر پیروں فقیروں نے قبضہ جما
لیا ہے ۔ وہ دن رات عوام کو بیوقوف بنانے اور ان کا مال اینٹھنے کیلئے
مسندیں سجا ئے ہوئے ہیں۔ تعویز ،گنڈوں اور جھاڑ پھونک پورے زوروں پر ہے،ایک
دنیا ہے جو اپنی خواہشات کی برو مندی کیلئے ان کے سجائے ہوئے آستانوں پر
سجدہ ریز ہے۔سچ تو یہ ہے کہ انسان نے اپنی رہائی کے سب دروازے خود بند کر
لئے ہیں۔ہیجانی کیفیت اور جنسی بے چینی نے انسان کو بے بس کر دیا ہے ۔ایک
طوفانِ بدتمیزی ہے جس کی وجہ سے آج کا نوجوان ایک ایسی دلدل میں دھنس چکا
ہے جہاں سے اس کا نکلنا انتہائی مشکل ہے ۔ بقولِ اقبال(اس سیلِ سبک سیر
وزمیں گیر کے آگے ۔،۔عقل و ،علم و ہنر ہیں خس و خاشاک)۔،۔ |