چنگا بندہ ۔۔۔۔۔۔۔

میں اس کو نہیں جانتا تھا مگر اس نے مجھے اپنا تعارف ہی نہ کروایا بلکہ اپنے تعارف کے ساتھ اپنی پہچانت بھی کروای اور جلد ہی اپنا آپ بھی منوایا کر دکھایا

اس کا تعارف تو سفیان سعید کے نام سے تھا لیکن اس کی پہچان عاجز خان اخلاق حسین شرافت علی دل دار علی معصوم احمد کے طور ہونا مجھے زرا زیادہ چنگی لگی وہ یونہی سرراہ چلتے واقف ہوا لیکن اس کی موت نے دھچکا ایسے لگایا کہ وہ کوی ہمارا ٹبر دار تھا کہیں ہمارے دلوں پر راج کر رہا تھا اس کو بہت جلدی سی تھی اور جلد ہی وہ منزل کو سدھار بھی گیا لبنانی طرز کی سیاہ پٹی ماتھے پہ پہنے وہ ایک دلربا صورت بناے تھا اس انداز نے اس کو شہادت کا متلاشی بنا رکھا تھا اسی وکھرے سٹاہل میں جب وہ نماز کے لیے رخت سفر باندھتا تو اور روپ چڑھ جاتا کھبی معلوم بھی نہ کیا کہ وہ کون ہے۔۔۔المناک حادثہ کے بعد خبر ہوء اس شہر کے معتبر وسعید بندے کا وہ لاڈلہ اور چنگا پتر تھا موباہیل زدہ بچوں کے برعکس وہ میدان کا شاہ سوار تھا اور شاہ سواری کے لیے اس نے مقبول ترین کھیل فٹبال کا انتخاب کر کے راولاکوٹ کی سب سے مشکل ٹیم کو اپنے لیے منتخب کیا تھا جو دل گردے کاہی کام تھا اس کھیل کی بدولت اس نے کتنا عروج پانا تھا کس حد تک پرل کی سرزمین سے اس نے نشاط اور یاسین کی جھلک دکھانا تھی یا ان کا متبادل بننا تھا اس کے ادھورے ارمان ہی رہے سنا ہے وہ بہترین فٹبالر کے ساتھ بہترین ڈیبیٹر بھی تھا مباحثہ لوٹنا شاہد اس کے باہیں ہاتھ کا کھیل تھا گے دنوں اس کے اندر کا انسان بھی خوب جاگا راولاکوٹ کے کچہری چوک میں ہند وپاک کے کھٹہ جوڈ اور کشمیر کی بندر بانٹ پر وہ خوب گرجا برسا. تقسیم کشمیر کی سازشوں پر اس نے بھی خوب پوسٹمارٹم کرتے تاریخی ریت کا تسلل زندہ رکھنے کاعزم کیا حسیں سپنے دیکھتے وہ آگے بڑھ رہا تھا جانے اس کی۔منزل کہاں تھی اس کا باپ ایسے ہی اس کو امید و ں کا مرکز بناے تھا جیسے ہمارے محسن دانش ریاض کو اس کے گھر والوں نے نقط ماسکہ اور مرکز بنا رکھا تھا اور ہم بھی کچھ انتظار کیے جا رہے تھے کہ ایسے ہی ایک شب اسلام آباد کے ایک خونی درخت سے دانش کی کار بھی جا ٹکرای اور وہ بہنوں کا اکلوتا ویر ہمیں تہنا چھوڑ کر اگلے جہاں سدھار چلا آج ایسے ہی کالی رات سفیان سعید بھی اپنوں کو گہرے زخم لگاے رخصت ہوا مجھے اسلام آباد اور پنڈی سے چڑ میں اور شدت پیدا ہوی حالانکہ یہ قدرت کی طرف سے طے تھا ان شہروں میں سے مجھے دانش کی جوانی مٹتی ملی تو پیر ومرشد سردار آفتاب کے مسکراتے چہرے کے بجاے ایک نحیف سا لاشہ دیکھنے ملا تھا اس قاتل مٹی سے سردار عارف شاہد کی زندگی چھینی ہوی ملی آج وہاں سے جب سفیان سعید کی معصوم زندگی کے بدلے مسکراتا چہرہ تابوت میں ملا تو نفرت میں اضافہ ہی ہوا مجھے سفیان سعید کے جسد خاکی کو الوداع کہنے اہیر یونیورسٹی اسلام آباد کے سوگ میں ڈوبے روتے رنجیدہ طلبہ کو دیکھ کر قاہداعظم یونیورسٹی کے وہ طلبہ یاد آے جو چھ برس قبل ایسے ہی حادثہ کا شکار ہو نے والے دانش ریاض کی موت پر آسمان کو رلا رہے تھے آج جب اہیر یونیورسٹی کے طلبہ اور جمعیت کے کارکن دھاڑیں مارے اپنے غم کا بوجھ ہلکا کر رہے تھے مجھے وہ گیت یاد آیا جو غم کی تسکین کا باعث ہے۔۔۔۔کسے دا یار نہ بچھڑے۔۔۔۔,۔ آج مجھے اپنے پیر ومرشد سردار آفتاب کے ماضی کی جھلک دیکھنے ملی ہر واقف حال آفتاب پہای کی جس ادا سے متاثر ہے وہ بس ان کا حسن خلق تھا جب سفیان سعید کو اس دنیا سے الوداع کیا جا رہا تھا تو سب ہی اس کی عاجزی شرافت معصومیت دلرباء کے قصے سنا رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا آفتاب پہای بھی بچپن میں ایسے ہی ہوے ہونگے اور اگر سفیان سعید بڑی عمر جی لیتا تو وہ سردار آفتاب کا متبادل ہوتا لوگ مرنے کے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں مگر سفیان سعید جیسوں کی موت سماج میں قحط الرجال پیدا کر سکتے ہے۔۔۔شاعر نے اسی لیے کہا تھا۔۔۔۔اک شوخی میں کھو دہیے وہ لوگ۔۔۔ڈھونڈا تھا برسوں جہنیں خاک چھان کر. سفیان جیسوں کی وجہ کسی اور کو کہنا پڑا تھا۔۔۔۔۔۔اب ڈھونڈ انہیں چراغ رخ زیبا لیکر۔۔۔۔۔۔۔ میں برسوں سے ڈھونڈ رہا تھا کہ میں کسی انسان کو تلاش کر پاوں سفیان سعید کو الوداع کہنے کے بعد مجھ بے خبر کو کہ خبر ملی کہ سفیان سعید کے روپ میں بہروپیوں کے معاشرے میں ایک انسان بھی تھا اور مجھے کھوجی ہو نے کے باوجود خبر نہ ہو ء کہ گھر کے اندر کون ہے. وہ ایک ایسا صدمہ دے گیا کہ مجھے کسی اور سے نہیں خود سے تعزیت کر نے جی چا رہا ہے اپنی بے خبری کا ماتم کرتے جنت میں سفیان سے ملاقات پر اس سے معذرت کرنا ہوگی کہ میں وقت پر اس ولی اور بہروپیوں کے معاشرے میں موجود انسان کو پہچان کیوں نہ سکا۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں یہ بھی چٹا سچ ہے کہ سفیان سعید مر گیا۔۔۔مگر وہ اپنے طرز عمل کے باعث مر کر بھی حقیقی زندگی کا گیا جب مردہ معاشرے میں جہاں انسانیت شرما رہی ہے وہاں اس کے قصے اور کہانیاں عام ہیں کہ وہ با اخلاق تھا با ادب تھا نیک ڈیرے تھا دلربا تھا بندے کا پتر ہی نہیں خود بھی بندہ تھا اس کی موت سے انسانیت یتیم ہو چلی سچ تو یہ ہے کہ سفیان سعید کے روپ میں گے گزرے دور میں وہ ایک پورا انسان بھی تھا تو ایک مسلمان بھی۔۔۔۔۔۔۔۔تب ہی تو خلق خدا کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زمین کے اندر بھی روشنی ہو۔مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے
 

Asif Ashraf
About the Author: Asif Ashraf Read More Articles by Asif Ashraf: 32 Articles with 19631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.