گھریلو لڑائی

والدین کے جھگڑوں کا بچوں پر اثر

معاشرے کا ایک گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ آج کی نوجوان نسل نفسیاتی امراض کا شکار ہو رہی ہے۔ تعلیم کے میدان میں قابل ذکر کارنامے انجام دینے سے قاصر ہے تو اس کی وجہ ان کی تربیت میں کمی ہے کیونکہ تربیت کرنے والے آپس کے جھگڑوں میں اس حد تک الجھے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی اولاد سے بے پروا ہو گئے ہیں۔ وہ اولاد جن سے وہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گی جو والدین کیلئے قابل فخر ہو گی۔ والدین کا قرض صرف تین وقت کا کھانا کھلا دینا ہی نہیں‘ بلکہ ان کی ذہنی اور جسمانی تربیت بھی ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ بچہ جب گھر سے نکلتا ہے تو اسے لاتعداد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ تب والدین کو چاہیے کہ وہ بچے سے اپنا رویہ اس طرح رکھیں کہ وہ اپنی ہر مشکل اپنے والدین کو بتا سکے اور والدین کے مشوروں کی روشنی میں زندگی کی عمارت مضبوط بنا سکے اور اگر یہی والدین اپنے آپس کے جھگڑوں میں مصروف رہیں گے اور اپنی اولاد کو بھول جائیں تو وہ جسمانی اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماں باپ کے جھگڑے اولاد پر بہت برا اثر ڈالتے ہیں۔اس صورت حال سے بچے سب سے زیادہ متأثر ہوتے ہیں۔ گھر میں آئے روز کے لڑائی جھگڑوں اور بدکلامی سے ان کے ذہن اور نفسیات پر پہلے ہی منفی اثرات پڑ رہے ہوتے ہیں۔

ایسے افراد کی شخصیت میں عدم تحفظ اور خوف کا احساس ان کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے اور مستقبل میں وہ کام یاب شخصیت کے مالک نہیں بن پاتے
۔
گر ماں باپ میں لڑائی جھگڑا ہوا تو بچے کا چین اور سکون چھن جاتا ہے _ وہ پریشان اور مضطرب رہتا ہے _ ماں باپ آپسمیں لڑرہے ہوتے ہیں انہیں آس امر کا اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ بے چارے بچے کى کیا کیفیت ہے _ ایسے عالم میں بچے خوف زدہ ہوتے ہیں اور ان کے دل ٹوٹے ہوتے ہیں وہ یا کسى کونے کھدرے میں حیرت و استعجاب میں ڈوبے ہوتے ہیں یا پھر ایسے آشیانے سے فرار کرکے کسى کوچہ و بازار میں پناہ حاصل کرتے ہیں _ بچے کى زندگى کى تلخ ترین یادیں اسکے ماں باپ کى باہمى لڑائی ہے _ بچے ایسے واقعات اپنى آخرى عمر تک بھلا نہیں پاتے _ یہ واقعات ان کى روح پر برے طریقے سے اثر پذیر ہوتے ہیں_

ایسے بچوں کے دلوں میں گرہیں پرجاتى ہیں ، اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں ، دل شکستہ رہتے ہیں اور وہ بدبینى کے عالم میں زندگى گزارتے ہیں _ ہوسکتا ہے ایسے گھر کى بیٹى اپنے باپ کى بداخلاقى اور کج مزاجى سے یہ سمجھے کہ سارے مرد ایسے ہى ہوتے ہیں ممکن ہے اس خیال کے باعث وہ شادى کے نام ہى سے خوف کھاتى ہو _ ہوسکتا ہے ایسے گھر کا بیٹا اپنى ماں کى بداخلاقى اور لڑا کا پن کے باعث سب عورتوں کو ایسا ہى خیال کرے اور شادى سے بیزار ہوجائے _ اس صورت حال میں وہ بچپن میں جس اذیت سے گزرے دوبارہ اس اذیت کو خوف ان کے اندر گھر کر جاتا ہے۔
 

Ayesha Gulzar
About the Author: Ayesha Gulzar Read More Articles by Ayesha Gulzar: 12 Articles with 29741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.