اللہ رب العزت نے انسان کو آزاد اور بااختیار پیدا کیا
ہے۔ یوں کسی انسانی المیے کی نتیجے میں اگرانسان اپنا اختیارکھو بیٹھے یا
کسی دوسرے کے سپرد کر بیٹھے تو یہ حالت غلامی کہلائے گی۔ 2 دسمبر دنیا بھر
میں غلامی کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پہ منا یا جاتا ہے تاہم یہ دن جس
غلامی سے منسوب ہے وہ اب شکلیں بدل کر کئی اور اقسام میں آچکی ہے۔غلامی کا
سدباب کرنے کیلئے انسانی حقوق کی جو تنظیمیں معرضِ وجود میں آئی تھی انکی
الگ ہی مضحکہ خیز کہانی ہے۔
جن ترقی یافتہ ممالک کو ماضی میں کمزور ملکوں پر بذور طاقت حکمرانی کرنے کا
وسیع تجربہ رہا ہے آج وہ ممالک انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی پہلی صفوں
میں بیٹھے ہیں ۔ ان ممالک کا مہذب پن اور انسانی حقوق کے راگ صرف اپنے
ممالک تک محدود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی ان میں سے کئی
ممالک کا نشہ نہیں اترا اور وہ گاہےبگاہے وسائل سے بھرپور کسی کمزور ملک پہ
چڑھ دوڑتے ہیں۔ باقی طاقتیں براہ راست حملہ آور نہیں لیکن غلامی کا دائرہ
کار بڑھانے والوں کی پشت پناہی میں ضرور مصروف ہیں۔
عالمی منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو اس وقت امت مسلمہ پہ بالخصوص بہت
کڑاوقت ہے۔ کشمیر، فلسطین سمیت کئی دوسرے ممالک براہ راست یا عالمی قوتوں
کی پشت پناہی سے زیر عتاب ہیں۔بقیہ ممالک کمزور معیشت اور حکومتوں کے باعث
عالمی اداروں کی غلامی میں ہیں ۔ یوں کہنے کو تو یہ ملک آزاد ہیں لیکن
آزادی برائے نام ہے۔
اجتماعی سطح سے ہٹ کر ہر ذی شعور انسان کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا
میں غلام تو نہیں؟ اگر اس سوال کو صدق دل سے پوچھا جائے تو شاید کرہ ارض پہ
بہت کم لوگ ہی آزاد کہلائیں۔ اگر آپ مرعوبیت کے مرض میں مبتلا ہیں اور
دوسری اقوام کے طور طریقوں ، رہن سہن، شان و شوکت، زبان اور تہذیب سے مرعوب
ہیں تو آپ غلام ہیں۔ اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور منصب افسری میں فائز
ہونے کے بعد آپ کو اپنے ذاتی کام کرنا معیوب لگتا ہے تو ہاں آپ غلام ہیں۔
اگر آپ ہر نئی آنے والی ٹیکنالوجی کے پیچھے ہاتھ باندھ کے چل پڑتے ہیں تو
آپ غلام ہیں۔اگر آپ اکیلے وقت میں اپنے ساتھ وقت نہیں گزار پاتے
اورٹیکنالوجی کے سہارے خود کو مصروف رکھتے ہیں تو آپ غلام ہیں۔ کیونکہ
غلامی کی تعریف صرف غلام بنا لینے تک محدود نہیں اس میں غلام ہو جانے کا
تصور بھی شامل ہے۔
آقا آپکو جسمانی طور پہ آزاد بھی کردے تو اصل مرحلہ ذہن و قلب سے غلامی کے
داغ مٹانے کا ہے ۔بطور قوم تو عالمی اداروں کی غلامی سے نکل کر حقیقی آزادی
کو آنے کا راستہ بہت کٹھن ہے، تاہم انفرادی سطح پہ ہم خود کو کافی حد تک
غلامی سے نکال سکتےہیں۔ لیکن اس کیلئے شرط ہے کہ "اگر ہم چاہیں تو"۔اگر ہم
چاہیں تو مرعوبیت کے سائے سے نکل کر اپنی آزاد دنیا میں جی سکتے ہیں۔ اگر
ہم چاہیں توہمارا تعلیمی نظام ہمیں نوکری کے نام پہ جس غلامی میں دھکیل رہا
ہے ،ا س سے توبہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو نت نئی ٹیکنالوجی کی دوڑ سے
نکل کر اپنے آپ کو آزادکر سکتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اپنا اختیار کا با معنی و
با مقصد استعمال ہی ہمیں غلامی سے نکال کر آزادی کو لا سکتا ہے۔ بقول اقبال
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو کہ تجھ سے ہو نہ سکی فَقر کی نگہبانی
|