دنیا انسانی حقوق کی پامالی کا شدید شکار

اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو برابری کی سطح پر پیدا کیا۔ گورے، کالے، عربی ، عجمی، یوریشیائی و افریقی اور مرد و عورت کی کوئی تفریق نہیں رکھی۔ کھانے، پینے اور چلنے پھرنے کے لیے اعضاء سب کو ایک جیسے اور برابر دیے۔ تخلیق انسانیت کے وقت خوب صورتی و بدصورتی اور علم و جہالت کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا۔ صد افسوس! ہمارے معاشرے کے چند افراد نے اپنے مفاد کی خاطر سب کو ذات پات، علاقے، زبان، رنگ، نسل اور قومیت کے جدول میں تقسیم کر دیا۔ وطن و علاقے کی تفریق پیدا کر کے ایک دوسرے کے حقوق سلب کرنے شروع کر دیے۔ جب ایک فریق دوسرے کے حقوق میں نقب لگانے لگا تو لامحالہ دوسری جانب سے ردّعمل سامنے آیا، جس سے لڑائی اور جھگڑے کی بنیاد اٹھنے لگی۔ نتیجہ جنگوں، بدامنی اور تعصب کی صورت سامنے آنے لگا۔جس کے انتہائی بھیانک اور وحشیانہ و سفاکانہ نتائج نکلے۔

اقوام متحدہ کی بنیاد رکھتے وقت اس کے مؤسسین کے ذہن میں یہ فکر دامن گیر تھی کہ جنگ عظیم اول یا دوم کی طرح کا سانحہ دوبارہ رونما نہ ہو، چنانچہ انہوں نے اس کا چارٹرڈ بناتے وقت حقوق کا خاص خیال رکھا۔ یہ الگ بات کہ اس پر کتنا عمل ہوا؟ لیکن اس میں ذات، پات، رنگ، نسل، علاقے ، جنس اور مذہب غرض ہر طرح کے حقوق کی بہ ظاہر رعایت رکھی گئی۔ 10دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے تیس نکات پر مشتمل عالمی منشور کی منظوری دی۔ اس کے بعد ممبر ممالک پر زور دیا گیا کہ اس منشور پر پابندی اور عمل کیا جائے۔اس کے مطابق بنی نوع انسان کو اپنی بات کہنے اور عقیدے پر قائم رہنے کی مکمل آزادی دی گئی، قانون سب کے لیے یکساں قرار پایا۔ حتی کہ جنگی قیدیوں اور گھروں میں رہنے والے غلام اور لونڈیوں تک کو مدنظر رکھا گیا۔ رنگ، نسل، ذات، پات اور زبان کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے روک دیا گیا۔ سماجی و معاشرتی اور ثقافتی و اقتصادی تحفظ کا حق ہر فرد کو دیا گیا۔ نیز یہ بھی کہا گیا کہ ہر شخص اپنے ملک کے نظام و وسائل کے مطابق قومی کوشش اور بین الاقوامی تعاون سے اپنے لیے اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق حاصل کرے۔ اسی طرح مرد و خواتین کے لیے یکساں تعلیم اور دیگر حقوق کی بات کی گئی۔ اس منشور پر تمام ممبر ممالک نے اپنے دستخطوں کے ذریعے مہر تصدیق ثبت کر دی۔ یوں پوری دنیا حقوق کے عالمی چارٹر پر متفق ہو گئی۔

تصویر کا ایک رُخ تو یہ ہے۔ جب کہ دوسرا رُخ بڑا بھیانک ہے۔ انسانی حقوق پر بات کرنے، اسے بنانے اور نافذ کرنے والوں نے اپنے ہی اس منشور اور چارٹر کی ایسی دھجیاں اڑائیں کہ عقل سر پیٹ کر رہ گئی۔ ان ممالک کی دو رُخی پالیسیوں اور منافقانہ طرزعمل سے دیگر ممالک کا اس منشور سے دل اُچاٹ ہو گیا۔ امریکہ بہادر اور اس کے ہمنوا دیگر ممالک نے حقوق فراہم کرنے کے بہانے لاکھوں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے۔ آزادی دلوانے کے دعوے کرتے ہوئے کئی ممالک کی آزادی سلب کر لی۔ نتیجتا دنیا نے جس امن کو پانے کے لیے اقوام متحدہ کی چھتری تلے پناہ لی تھی، اسی کے لیے کسی اور مسیحا کی راہ تکنے لگی۔

یہاں چند ایک سوال جنم لیتے ہیں کہ ان لوگوں نے امن کے نام پر بدامنی کیوں پھیلائی؟ آخر وہ کون سے مقاصد تھے جنہیں پانے کے لیے لاکھوں نفوس کا خون بہا کر بھی انہیں حاصل نہیں کیا جا سکا؟ اس راہ میں کون سدّ بن کر کھڑا ہو گیا؟ وغیرہ۔ تہذیب و تمدن اور تاریخ کا مطالعہ رکھنے والا شخص یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ ہمیشہ طاقت ور اقوام نے کمزور لوگوں کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ یہ طاقت معیشت، افرادی قوت، ٹیکنالوجی اور مذہب سے حاصل ہوتی ہے۔ اِس وقت طاقت کا سرچشمہ مغربی اقوام شمار کی جاتی ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے انقلابِ فرانس کے بعد طاقت کے تمام ذرائع کا رخ ان ممالک کی جانب مڑ گیا۔ انہوں نے معیشت اور ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کر لی،(کیسے حاصل کی؟ یہ سوال پھر کسی موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں)، جب کہ افرادی قوت کے لیے انہوں نے اپنی خواتین کو میدان میں اتار لیا، اس کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی افرادی قوت کو لالچ، طمع اور دھونس کے ذریعے اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ رہ گیا معاملہ مذہب کا... تو بظاہر یہ آواز لگائی گئی کہ ’’مذہب ہر شخص کا نجی معاملہ ہے۔ اسے حق حاصل ہے جس پر چاہے عمل کرے۔‘‘ لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ مغربی تہذیب بھی ایک ’’جدید اور بے نام مذہب‘‘ ہی ہے۔ لاکھ کہا جائے کہ وہ سیکولر ہیں، لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے۔

اسلام کے پانچ ارکان کی طرح تہذیبِ جدید کے چار بنیادی ارکان ہیں: آزادی (Freedom)، مساوات(Equality)، ترقی(Development)، اور انسانی حقوق(Human Right)۔ انہیں نافذ کرنے کے لیے کئی مزید خوش نما امور اور معاملات گھڑے گئے ہیں؛ مثلا جمہوریت، سول سوسائٹی، موٹیویشنل سپیکرز، سیکولر اور لبرل ازم وغیرہ۔ بظاہر یہ الفاظ بڑے خوش نما اورپرکشش ہیں لیکن ان کی تشریح وہ نہیں ہے جو مسلم یا ایشیائی معاشروں میں کی جاتی ہے۔ ’’آزادی‘‘ سے مراد ہر طرح کی حدود و قیود سے آزادی ہوتی ہے، جس کا نتیجہ معاشرے میں اضطراب کی صورت نکلتا ہے۔ آپ گستاخانہ خاکوں کی مثال ہی لے لیجیے۔ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کی جا رہی ہے۔ ’’مساوات‘‘ کی آڑ میں خواتین سے وہ کام لیے جا رہے ہیں جو ان کی فطری تخلیق سے مناسبت ہی نہیں رکھتے۔ اور ’’انسانی حقوق‘‘ دینے کی آڑ میں ان کی مکمل پامالی کی جا رہی ہے۔ انہیں نافذ کرنے کے لیے ان تمام امور کو روا سمجھا جا رہا ہے جو ظلم و جور اور ستم کے زمرے میں آتے ہیں۔ خود ہزاروں ایٹم بمز رکھنے والے ممالک... عراق بارے پائی جانے والی جھوٹی خبروں کو بنیاد بنا کر پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانا جائز سمجھتے ہیں۔ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو مذہب کی آڑ میں پل بھر میں تقسیم کر دینے والوں کی آنکھیں فلسطین اور کشمیر بارے بند ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آزادی، مساوات، ترقی اور انسانی حقوق غلط نعرے ہیں تو ان کی جگہ صحیح نعرے کون سے ہیں؟ جنہیں اپنا کر دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ جواب بہت سادہ اور پرانا ہے۔ اسلام نے آزادی کی بجائے ’’بندگی‘‘ کو امن کا معیار بنایا ہے۔ خالقِ کائنات نے آزادی کی حدود و قیود متعین کر دی ہیں، چنانچہ ہر بندہ ہر کام میں نہ تو مکمل آزاد ہے اور نہ ہی بہت زیادہ پابند۔ کھانے، پینے، بولنے، کام کرنے، تعلقات بنانے حتی کہ سوچنے تک کی کچھ حدود متعین کر دی گئیں۔ اس سے بظاہر انسان کی آزادی کو ضرب لگی لیکن دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن گئی۔ ’’مساوات‘‘ کی بجائے ’’عدل‘‘ کو معیار بنایا گیا۔ مرد و خواتین اور بوڑھے و بچے ہر ایک کی تخلیق و فطرت کے اعتبار سے ان کے دائرہ کار متعین کیے گئے۔ پھر پابند کیا گیا کہ کوئی بھی اپنے دائرے سے نکل کر دوسرے کے دائرے میں قدم نہ رکھے۔ اگر ایسا کیا گیا تو مرنے کے بعد جواب دہ ہونا پڑے گا۔ مرد اور عورت کو گاڑی کے دو پہیے تو قرار دیا گیا لیکن اس طرح نہیں کہ دونوں پہیے گاڑی کے ایک ہی جانب لگا دیے جائیں بلکہ دونوں پہیوں کا اپنا اپنا مقام متتعین کر دیا گیا۔ جیسے ٹریکٹر کے اگلے پہیے کو پیچھے لگانے سے ٹریکٹر Unbalance ہو جاتا ہے اسی طرح خواتین سے مردوں والے کام لینے سے معاشرہ بھی مضطرب اور Unbalance ہو جاتا ہے۔

’’ترقی‘‘ اور برتری کا معیار دولت، سرمایہ اور جاہ و مرتبہ کی بجائے تقوی اور پرہیزگاری کو ٹھہرایا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ اونٹوں کے چرواہے اسلامی تاریخ میں بادشاہ بنا دیے گئے۔ (یاد رہے! وہ دھونس دھاندلی سے برسر اقتدار نہیں آئے بلکہ عوام نے ان کا انتخاب خود کیا۔)جب کہ بڑے بڑے امراء کو مجالس کے آخر میں جگہ دی گئی یا پھر انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ مشاورت میں شریک کیا جائے۔ رہ گئی بات ’’انسانی حقوق‘‘ کی ... تو اس کے لیے ’’حقوق العباد‘‘ کو معیار بنایا گیا۔ جس کی تاکید اتنی بار کی گئی کہ اس کی اہمیت حقوق اللہ سے بھی بڑھ گئی۔ نیکیوں کے پہاڑ لانے والوں کو حقوق العباد کی پامالی کے جرم میں جہنم میں دھکیل دیا گیا۔ بڑے بڑے سرداروں کا بدمذہب ہو جانا قبول کر لیا گیا لیکن حقوق العباد کی تلفی کسی صورت قبول نہیں کی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ’’جبلہ بن ایہم غسانی‘‘ کا مرتد ہو جانا اسی وجہ سے ہوا کہ اس سے ایک تھپڑ کا حساب مانگا گیا تھا۔

خلاصہ یہ کہ اگر کرہ ارض کو امن و سکون اور آشتی کی فضا دینی ہے تو اسلام کی چھتری تلے آنا پڑے گا۔ ’’انسانی حقوق‘‘ کا خیال ہے تو تیس تیس رکنی منشور کی بجائے اُس آٹھ رکنی منشور پر عمل پیرا ہونا پڑے گا جو عرب میں نمودار ہونے والی نبی کریم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس کے علاوہ سب چیزیں سراب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔جتنا اس کے پیچھے دوڑیں گے، وہ اتنا ہی دور ہوتا جائے گا!!!

 

عبدالصبور شاکر
About the Author: عبدالصبور شاکر Read More Articles by عبدالصبور شاکر: 53 Articles with 99315 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.