#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 45 تا
48!!اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھاالنبی
انا ارسلنٰک شاھدا
و مُبشرا و نذیرا 45 و
داعیا الی اللہ باذنهٖ وسراجا
منیرا 46 وبشرالمؤمنین بان لہم
من اللہ فضلا کبیرا 47 ولاتطع الکٰفرین
والمنٰفقین ودع اذاہم وتوکل علی اللہ وکفٰی
باللہ وکیلا 48
اے ھمارے نبی ! ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ آپ کو ھم نے
اپنے جہان میں ایک ایسا فردِ نگاہِ دار بناکر مامُور کیا ھے جو اہلِ جہان
کو اہلِ جہان کے مُثبت اَعمال کے نتیجے میں ملنے والی آسائشوں کی خبریں
سُناتا ھے اور اہلِ جہان کو اہلِ جہان کے مَنفی اعمال کے نتیجے میں پیش آنے
والی آزمائشوں سے بھی ڈراتا ھے اور ھم نے آپ کو اہلِ جہان میں حق کا ایسا
داعی بنا کر مامُور کیا ھے جو اہلِ جہان کو اللہ کے حُکم سے اللہ کے اَحکام
سناتا ھے اور ھم نے آپ کو اِس تاریک جہان میں ایک ایسا روشن چراغ بنایا ھے
جس روشن چراغ کی روشنی دُور دُور تک جاتی ھے اور دُور دُور سے نظر آتی ھے
جو اہلِ ایمان کے لیۓ اللہ کی وہ عظیم بشارت و مہربانی ھے جس کے بعد آپ نے
مُنکرین کے کسی انکار اور منافقیں کے دُہرے کردار کے دباؤ میں نہیں آنا ھے
بلکہ اُن کی اِن باتوں اور گھاتوں کو ہمیشہ کی طرح ہمیشہ ہی نظر انداز کرتے
رہنا ھے اور آپ نے ہر لَمحہ و ہر آن میں اللہ پر اپنے اعتماد و اعتقاد کو
قائم رکھنا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اٰیت 40 { ماکان محمد ابا احد من رجالکم } کے مطابق جہان میں
جب اِس کارِ تنزیل کی تَکمیل ہوگئ اور جہان میں جب اِس کارِ تنزیل کی زبانی
تعلیم کے بجاۓ لفظی تعلیم کے لیۓ یہ کتابِ عظیم آگئی تو جہان میں کارِ نبوت
کی اَنجام دہی کے لیۓ آنے والے اَفرادِ نبوت کا آنا بھی بند کر دیا گیا اور
اَفرادِ نبوت کی اِس بندش کے اِس اعلان کے بعد پہلے اِس سُورت کی اٰیت 41
سے لے کر اِس سُورت کی اٰیت 44 تک اہلِ ایمان کو اِس بات کی تسلّی دی گئی
ھے کہ اللہ تعالٰی نے اپنی اِس عظیم تنزیل کی عظیم تَکمیل کے بعد جہان میں
اَفرادِ نبوت کی زبانی تعلیم کا سلسلہ اگرچہ بند کر دیا ھے لیکن اِس کتاب
کی اٰیاتِ نبوت کا تعلیمی اکتساب یومِ قیامت تک جاری رھے گا لیکن اُس اعلان
کے بعد جس طرح اَفرادِ اُمت کے ذہن میں اُمت کی تعلیم کا اَچانک ہی ایک
تشویش بھرے خیال کا اُبھرنا ایک فطری عمل تھا اسی طرح خود سیدنا محمد علیہ
السلام کے ذہن میں بھی اُمت کی تعلیم کے بارے میں اِس تشویش کا پیدا ہوجانا
بھی ایک فطری اَمر ہی تھا کہ خُدا جانے آپ کے بعد آپ کی اُمت کا تعلیمی
اَحوال کیا ہو گا اِس لیۓ اُمت کو تسلّی و تشفی دینے کے بعد اللہ تعالٰی نے
اپنے رسُولِ مقبول علیہ السلام کو بھی ایک دائمی تسلّی و تشفی دینے کے لیۓ
یہ ارشاد فرمایا ھے کہ آپ ھمارے اِس جہان میں محض ھمارے ایک فرض شناس
نمائندے ہی نہیں ہیں بلکہ آپ تو اپنے عظیم الشان کارِ نبوت کے حوالے سے
ھمارے چنیدہ بندوں میں سے ھمارے وہ پسندیدہ بندے ہیں جس پر ھم نے اپنی وہ
پسندیدہ کتاب نازل کی ھے جو ھمارے حتمی و ختمی اَحکام کی ایک حتمی و ختمی
دستا ویز ھے اور جس طرح آپ ھمارے صاحبِ خیر بندوں کے مُثبت اعمال پر ھمارے
بندوں کو آنے والے زمانوں میں آنے والی آسائشوں کی اور مَنفی اعمال پر
ھمارے عاملِ شر بندوں کو آنے والے زمانوں میں آنے والی آزمائشوں کی خبر
دیتے ہیں اسی طرح آپ پر نازل ہونے والی یہ عظیم الشان کتاب بھی مُثبت اعمال
پر ھمارے صاحبِ خیر بندوں کو آنے والے زمانوں کی راحتوں کی خبر دیتی ھے اور
مَنفی اعمال پر ھمارے عاملِ شر بندوں کو آنے والے زمانوں میں آنے والی
جسمانی و رُوحانی جراحتوں کی خبر بھی دیتی ھے اور جس طرح آپ اپنی زندگی میں
اُمت کی علمی و عملی رہنمائی کر رھے ہیں اسی طرح آپ پر نازل ہونے والی یہ
کتابِ ناطق بھی آپ کے بعد آپ کی اُمت کی علمی و عملی رہنمائی کرتی رھے گی
اِس لیۓ اَب آپ قُرآن کے منکروں کی کافرانہ گھاتوں اور قُرآنی معاشرے میں
رہنے والے منافقوں کی منافقانہ وارداتوں سے بھی بے غَم ہو جائیں کیونکہ
ھماری یہ کتاب ایک نُور ھے جو اپنے اِس نُور کے ساتھ دُور دُور تک جاۓ گی
اور اِس کے نُور کی یہ روشنی دُور دُور کے انسانوں کو دُور دُور سے کھینچ
کھینچ کر اپنی راحت و رحمت میں لاۓ گی اور مزید یہ کہ ھماری یہ کتاب جو
قیامت تک موجُود رھے گی وہ قیامت تک اِن مُنکروں اور منافقوں کی ساری
گھاتوں اور ساری وارداتوں کو بھی ناکام بناتی رھے گی ، ھمارے جو بندے اِس
کتابِ حق سے جتنے زیادہ جُڑے ہوۓ ہوں گے اُن کو اتنی ہی زیادہ ھماری مدد
حاصل ہوتی رھے گی اور ھمارے جو بندے اِس کتابِ حق سے جتنے دُور ہوتے جائیں
گے وہ اِس کتاب کی علمی و عملی رحمت و مہربانی سے بھی اتنے ہی دُور ہوتے
چلے جائیں گے ، اٰیاتِ بالا میں وارد ہونے والے لفظ شاھد سے اہلِ روایت نے
سیدنا محمد علیہ السلام کے شاھد ہونے کا یہ مفہوم اخذ کیا ھے کہ سیدنا محمد
علیہ السلام جس طرح اپنی حیات میں اپنی اُمت کے اعمالِ نیک و پر شاھد تھے
اسی طرح اپنے وصال کے بعد بھی اپنی اُمت کے اعمالِ نیک و بد پر شاھد ہیں
اور قیامت کے روز آپ اسی بنا پر اپنی اُمت کے اُن اعمالِ نیک و بد پر اپنی
گواہی دیں گے جو نیک و بد اعمال آپ کی اُمت نے آپ کے وصال کے بعد اَنجام
دیۓ ہوۓ ہوں گے ، چنانچہ تفسیر مظہری کے مفسر ثناءاللہ پانی پتی نے ابنِ
مبارک کے حوالے سے سعید ابن المسیب کا یہ قول نقل کیا ھے کہ { لیس من یوم
الّا و یعرض علی النبی امته غدوة و عشیة فیعرفھم بسیماھم ولذٰلک یشھد علیھم
} اور اِس قول کا ماحصل یہ ھے کہ ہر روز صبح و شام آپ کی اُمت آپ کے سامنے
پیش کی جاتی ھے اِس لیۓ آپ اُمت کے ہر فرد کو اُس کی صورت سے پہچانتے ہیں
اور آپ اپنی اسی پہچان کی بناپر آپ قیامت کے روز ہر فرد کے اچھے اور بُرے
عمل کے بارے میں اللہ تعالٰی کے سامنے اپنی گواہی دیں گے ، اسی طرح مُفسر
ابنِ کثیر نے بھی اپنی تفسیر ابنِ کثیر میں تحریر کیا ھے کہ { شاھدا علی
اللہ بالوحدانیة وانه لاالٰه غیره وعلی الناس باعمالھم یوم القیٰمة } یعنی
آپ اِس اَمر میں اللہ کی توحید کے گواہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
ھے اور قیامت کے روز آپ لوگوں کے اِن ہی اعمالِ شرک و توحید کے بارے میں
اپنی گواہی دیں گے اور ہمیں حیرت ھے کہ روح المعانی کے معروف مفسر نے بھی
یہی لایعنی و بے معنی بات تحریر کی ھے کہ { شاھدا علٰی من بعث الیھم تراقب
احوالھم و تشاھد اعمالھم ... وتؤدیہا یوم القیٰمة اداء مقبولا فی مالھم و
ما علیھم } یعنی آپ قیامت کے روز اُمت کے اعمال کی گواہی دیں گے کیونکہ آپ
دُنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی اُمت کے اعمال کا مشاہدہ کر رھے ہیں اور اسی
بنا پر آپ قیامت کے روز کسی کے خلاف اور کسی کے حق میں گواہی دیں گے } مگر
اہلِ روایت کے یہ تمام اقوال قُرآنِ کریم کی مُتعدد واضح اٰیات خلاف ہیں
اور خلافِ قُرآن ہونے کے باعث کسی طرح کی کسی بھی دلیل سے درست نہیں ہیں ،
حقیقت یہ ھے کہ قیامت کے روز اُمت کے اعمالِ نیک و بد کا فیصلہ صرف اِس بات
پر ہو گا کہ کس انسان کا عمل قُرآن کے مطابق ہوا ھے اور کس انسان کا عمل
قُرآن کے خلاف رہا ھے !!
|