#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 43 ، 44
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ھو
الذی یصلّی
علیکم و ملٰئکته
لیخرجکم من الظلمٰت
الی النور وکان بالمؤمنین
رحیما 33 تحیتھم یوم یلقونه
سلٰم و اعد لھم اجرا کریما 44
اللہ تُم کو اپنے جو اَحکام بجا لانے کا حُکم دے چکا ھے اور جو اَحکام بجا
لانے کا حُکم دے رہا ھے اگر تُم اللہ کے اَحکام کو بجا لاتے رہو گے تو اللہ
اور اُس کے ملائکه نے اِس وقت تُم کو استقامت علی الحق کا جو حوصلہ دیا ہوا
ھے اِس کے بعد بھی وہ تُم کو استقامت علی الحق کا یہی حوصلہ دیتے رہیں گے
تاکہ تُم جہالت کے اندھیروں سے نکل کر ہمیشہ کے لیۓ اللہ کے اُس علمِ ھدایت
کی روشنی میں آجاؤ اور اُسی علمِ ھدایت کی روشنی میں رہ جاؤ جس علمِ ھدایت
کی روشنی اُس نے تُم کو اِس کتابِ ھدایت کی صورت میں دی ہوئی ھے کیونکہ
اللہ تُم پر اپنی جو رحمت و مہربانی ہمیشہ کرتا رہا ھے وہی رحمت و مہربانی
وہ ہمیشہ کے لیۓ کرنا چاہتا ھے اِس لیۓ تُم میں سے جو لوگ اللہ کے اِن
اَحکام کی بجا آوری کریں گے تو اُن تمام لوگوں کو اُس روز کی اُس رحمت و
مہربانی سے نوازا جاۓ گا جس روز وہ جس رحمت و مہربانی کے لیۓاللہ کے سامنے
پیش ہوں گے اور جس روز اُن سب کو اُن کی حیات افروزی اور سلامتی کی بشارت
دی جاۓ گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اہلِ روایت کے جس تحیہ و تشھد کا ھم نے ذکر کیا ھے اُن کے اُس تحیہ و تشھد
کے چار لفظی دائروں میں سے جو چوتھا لفظی دائرہ ھے وہ دائرہ { اشھد ان لا
الٰہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ و رسوله } کے اُن دو اَجزاۓ کلام سے
عبارت ھے جن کے لفظی دائرہِ کلام کا پہلا لفظی مُرکب اللہ کی توحید اور
دُوسرا لفظی مُرکب سیدنا محمد علیہ السلام کی رسالت کے اقرار پر مُشتمل ھے
اور اِن دونوں مُرکبات کی اِس لفظی ترکیب سے جو کلمہِ توحید و رسالت برآمد
ہوا ھے وہ بندہِ مومن کا وہ کلمہِ شہادت ھے جو کلمہِ شہادت ایک بندہِ مومن
اپنے ایمان و اعتقاد کے اقرار و اظہار کے لیۓ پڑھتا ھے لیکن اہلِ روایت نے
پہلے تو اِس کلمہِ شہادت کو شہادتِ ایمان کے اُس مقررہ مقام سے ہٹا کر
تحیہِ نماز کا ایک حصہ بنایا ھے اور اِس کے بعد اپنے اِس عمل کی دلیل کے
طور پر یہ دعوٰی فرمایا ھے کہ سیدنا محمد علیہ السلام بھی اپنی نماز میں
اِس کلمہِ شہادت کو اسی طرح پڑھا کرتے تھے جس طرح اُنہوں نے اپنی روایاتِ
تحیہ و تشھد میں بیان کیا ھے لیکن اِس کلمہِ شہادت کے دُوسرے مُرکب { واشھد
ان محمد عبدہ و رسوله } کے الفاظ اُن کے اِس باطل دعوے کی مُکمل تردید کرتے
ہیں کیونکہ اگر سیدنا محمد علیہ السلام بھی اپنی نماز کے تشھد میں یہی تحیہ
پڑھتے جو اہل روایت نے اپنی روایات میں درج کیا ہوا ھے تو آپ لازما اِس
کلمہِ شہادت کے اِس لفظی مُرکب میں { اشھد ان محمد عبدہ و رسوله } کے الفاظ
پڑھنے کے بجاۓ { اشھد انی عبداللہ و رسوله } کے وہ الفاظ پڑھتے جو اِس لفظی
مُرکب کے اِس مضمون کو ظاہر کرتے کہ میں اللہ کا ایک بندہ اور اُس کا ایک
رسُول ہوں لیکن اہلِ روایت کی روایات میں جو صورتِ حال ھے وہ اِس اصل صورتِ
حال سے بالکُل مُختلف ھے کیونکہ اہلِ روایت کا مقصد تو صرف یہ ثابت کرنا ھے
کہ سیدنا محمد علیہ السلام اپنے تحیہِ نماز میں اپنی عبدیت و رسالت کے
اظہار کے لیۓ جو الفاظِ شہادت پڑھا کرتے تھے وہ آپ کا ایک ایسا ذاتی عمل
تھا جو آپ کی ذات کے ساتھ خاص تھا اور اپنی اِس خاصیت کے اِس خاص حوالے سے
اِس اَمر کا متقاضی نہیں تھا اور نہیں ھے کہ آپ کی اُمت کے اَفرادِ اُمت
بھی آپ کی اتباع کرتے ہوۓ اِس کو اسی طرح سے پڑھیں ، اہلِ روایت نے ایک طرف
تو آپ کو اِس عمل کا پابند بنایا ھے اور دُوسری طرف آپ کی اُمت کو آپ کے
اِس عمل سے باہر رکھنے کے لیۓ آپ کے اِس عمل کو آپ کا ذاتی عمل بنانے کے
لیۓ کتابِ بخاری کی حدیث 6230 ، 6265 اور حدیث 1202 میں پہلے تو آپ کے نماز
میں اَدا کیۓ گۓ بعض اعمال کو آپ کے ذات کے ساتھ مُختص personalize کیا ھے
اور اُس کے بعد اِس تحیہِ نبوی کے حوالے سے اپنے اُس دعوے کا ذکر کیا ھے جس
کا ھم نے حوالہ دیا ھے اور اِس دعوے کے مطابق اُنہوں نے نبی علیہ السلام کے
تحیہ و تشھد سے آپ کی عبدیت اور رسالت کے عمل کو بھی آپ کا بالکُل ہی ایک
ذاتی عمل اور ایک ذاتی تجربہِ نبوت personal experience بنادیا ھے اور پھر
آپ کے اُس تحیہ و تشھد کے تجربہِ ذات کو بھی آپ کے پاس نہیں رہنے دیا بلکہ
آپ کی طرح کے ایک دُوسرے فرد second person کے تجربہِ ذات کے ساتھ مُنسلک
کر کے آپ کی شخصیت کے ساتھ ایک دُوسرے محمد کی وہ دُوسری شخصیت کھڑی کردی
ھے جس کا آپ اپنے تحیہِ نماز میں ذکر کیا کرتے تھے کیونکہ اُنہوں نے تحیہ و
تشھد کے ضمن میں لائی گئی اپنی اِن احادیث میں سیدنا محمد علیہ السلام کو
اپنی عبدیت و رسالت کا اقرار و اظہار کرنے کے بجاۓ آپ جیسے ایک دُوسرے محمد
کی عبدیت و رسالت کا اقرار کرتے ہوۓ دکھایا ھے اور اہلِ روایت کا یہ عمل
اُن سے اَچانک ہی سرزد ہو جانے والا کوئی سہوِ کلام نہیں ھے بلکہ یہ اُن کی
نیت اور اُن کے ارادے کے ساتھ پیدا کیا گیا ایک ابہام ھے جو اِس غرض کے لیۓ
پیدا کیا گیا ھے کہ آنے والے زمانوں میں آنے والے جو انسان اِس تحیہ و تشھد
کو پڑھیں گے تو وہ اِس تحیہ و تشھد کو پڑھنے والے اِس محمد کو اللہ تعالٰی
کا نبی و رسول سمجھنے یا ماننےکے بجاۓ اُس محمد کو اللہ تعالٰی کا نبی و
رسول سمجھیں اور مانیں گے جس نادیدہ محمد کی عبدیت و رسالت کا اِس دیدہ
محمد نے اپنے تحیہ و تشھد میں اقرار کیا ھے ، عام مسلمان اگرچہ تحیہ و تشھد
کے اِس مجوسی مفہوم میں چُھپے ہوۓ اِس مجوسی فلسفے سے پہلے بھی بیخبر تھے
اور آج بھی بیخبر ہیں لیکن یہ امکان تو بہر حال ہمیشہ سے موجُود رہا ھے کہ
محمد علیہ السلام پر ایمان لانے والے اہلِ ایمان کبھی نہ کبھی تو تحیہ و
تشھد کے اِس مذموم مجوسی مفہوم کی گہرائی میں اُتر کر اِس مجوسی فلسفے تک
پُہنچ جائیں گے جس فلسفے کے ذریعے اُنہوں نے حقیقی محمد علیہ السلام کے
بجاۓ ایک خیالی محمد کا ایک غیر حقیقی خیال فراہم کیا ہوا ھے اِس لیۓ اہلِ
روایت نے اہلِ ایمان کے ادراک و نظر پر جہالت کا ایک سیاہ پردہ ڈالنے کے
لیۓ صدیوں سے اُن کو اِس لایعنی بحث میں اُلجھایا ہوا ھے کہ تحیہ و تشھد کے
دوران شہادت کی اُنگی اُٹھانی چاہیۓ یا نہیں اُٹھانی چاہیۓ ، اگر اُٹھانی
چاہیۓ تو پھر ہلانی بھی چاہیۓ یا نہیں ہلانی چاہیۓ اور اگر ہلانی بھی چاہیۓ
تو پھر سلام پھیرنے تک اُس کو ہلاتے رہنا چاہیۓ یا اِس سے پہلے ہی رُک جانا
چاہیۓ ، انسان کو اُنگلیوں پر نچانے کی اِس سے بہتر مثال شاید ہی کہیں اور
مل سکے ، ہر چند کہ اِس مقام پر اِن مجہول روایات پر نقد و جرح کرنا ھمارے
نزدیک ایک خارج از بحث عمل ھے لیکن برسبیلِ تذکرہ یہ عرض کردینا بھی کُچھ
غیر مناسب یا کُچھ غیر ضروری نہیں ہو گا کہ نماز کے اِس تحیہ و تشھد کے
بارے میں بخاری کی مُحوّلہ بالا احادیث میں سے پہلی ، دُوسری اور تیسری
حدیث میں اعمش نام کے جو راوی ہیں اُن کا پورا نام اعمش اسدی ھے جو کوفے کے
مشہور کذاب ہیں ، دُوسرے راوی کا پورا نام شفیق بن ابی سلمہ ھے جو اسی شہرِ
کوفہ کے ایک قبیلہ بنی اسد کا ایک کذاب راوی ھے اور اِن احادیث کے پانچویں
راوی عثمان بن ابی شیبہ کا نام بھی اِن کذاب راویانِ حدیث کی اسی فہرست میں
شامل ھے اور یہ عرض کرنا بھی شاید غیر ضروری نہیں ہو گا کہ اِن راویوں کو
اِس بات سے قطعا کوئی غرض نہیں ھے کون نماز پڑھتا ھے یا کون نماز نہیں
پڑھتا ھے ، اِن کو تو صرف اِس بات سے غرض ھے کہ وہ محمد علیہ السلام کی
نبوت و رسالت کو اور آپ پر نازل ہونے والے قُرآن کو اہلِ ایمان کی نظر میں
کتنا مشکوک بنا سکتے ہیں اور کس طرح اتنا مشکوک بنا سکتے ہیں کہ اہلِ ایمان
قُرآن کی برحق اٰیات کو چھوڑ کر اُن کی باطل روایات کی طرف آتے رہیں اور گم
راہ ہوتے رہیں ، اگر اِس تحیہِ نماز و تشھدِ نماز کا ایک بہت ہی مُختصر سا
علمی تجزیہ کیا جاۓ تو وہ یہ ہوگا کہ اہل روایت نے اِس تحیہِ نماز کے پہلے
حصے میں اللہ تعالٰی کی ہستی کو اکبر و اصغر کے اُن دو خانوں میں تقسیم کیا
ھے جن میں سے ایک خانہ وہ ھے جس میں ایک اصغر اللہ محمد علیہ السلام کے
ساتھ ملاقات بھی کرتا ھے اور ایک اکبر اللہ سے اپنے لیۓ اور محمد علیہ
السلام کے لیۓ رحمت و برکت کی دُعا بھی کرتا نظر آتا ھے اور اِس تحیہِ نماز
کے اِس دُوسرے حصے میں سیدنا محمد علیہ السلام کی ہستی کو بھی اُن دو دیدہ
و نادیدہ خانوں میں تقسیم کر دیا ھے جن میں سے ایک دیدہ خانے میں موجُود
رہنے والے ایک حقیقی محمد علیہ السلام کو ایک نادیدہ خانے میں رہنے والے
ایک غیر حقیقی اور ایک خیالی محمد علیہ السلام کی عبدیت و رسالت کی گواہی
دیتے ہوۓ دکھایا گیا ھے !!
|