اپنے ہاں یہ روایت زور پکڑتی جارہی ہے،بلکہ یوں
کہیے اپنا رنگ جما چکی ہے کہ ہم کسی کو یاد کرنے کے لئے سالگرہوں، برسیوں
اور عالمی دنوں کی تقریبات پر ہی اکتفا کرنے لگے ہیں، ایسے میں کوئی زیادہ
نمایاں شخصیت کا ذکر چل نکلے تو ہفتہ بھی منا لیتے ہیں، اور کبھی کبھی
مہینہ بھی۔ نومبر کی بھی یہی کہانی ہے، آتا ہے، تو اقبالؒ کی یاد بھی چلی
آتی ہے، پھر معاملہ سکولوں ، کالجوں سے لے کر باذوق ادبی حلقوں تک پھیل
جاتا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شعبہ اقبالیات نے بھی نومبر میں
’’دو روزہ بین الاقوامی اقبالؒ کانفرنس‘‘ کا اہتمام کیا، عنوان تھا، ’’عصر
حاضر میں فکرِ اقبالؒکی ضرورت و افادیت‘‘۔ اس پر تو بعد میں بات کرتے ہیں،
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جامعہ اسلامیہ کے شعبہ اقبالیات نے یہ کانفرنس
تو روایتی طور پر نومبر میں ہی کی، یہ بھی الگ بات ہے کہ دو روز جاری رہنے
والی کانفرنس میں یقینا مہینوں کی منصوبہ بندی ، کاوشیں اور محنتیں شامل
ہوں گی،مگر اصل روایت شکن بات یہ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا شعبہ
اقبالیات پاکستان میں اقبالؒ پر پہلا تدریسی شعبہ ہے۔ یوں معاملہ تقریبات
اور روایات سے بہت آگے چلا گیا ہے، کلاسوں میں طلبہ و طالبات ہوں گے، استاد
پڑھائیں گے، اقبالؒ کو ہر روز یاد کیا جائے گا، یاد رکھا اور دہرایا جائے
گا، الگ سے کسی دن منانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اس دو روزہ کانفرنس کے بہت سے سیشن ہوئے، بیشتر مقررین نے اقبالؒ پر اپنی
سوچ کے مطابق تحقیقی و علمی مقالے پیش کئے۔ بہت سے اہلِ علم کے افکار قلم و
قرطاس کے محتاج نہ تھے، دل لگتی بات تو یہی ہے کہ ایسے اصحاب کی گفتگو ہی
دل کے نہاں خانوں میں جھانکتی اور درِ عقل پر دستک دیتی رہی، پُر اثر اور
مفید رہی۔ تحقیقی مقالے ہوں یا زبانی گفتگو، اگر شعبہ اقبالیات اپنے قیام
کے آغاز سے ہی اِن محترم اساتذہ کی تمام کاوشوں کو مدوّن ومرتّب کرلے تو اس
سے لکھنے والوں کو خراجِ تحسین کی صورت بھی بن جائے گی اور آنے والے وقتوں
کے لئے کارآمد ثابت ہوں گے۔ اس کانفرنس میں ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ڈائریکٹر
اقبال اکادمی ،ڈاکٹر تنظیم الفردوس، چیئرپرسن شعبہ اردو کراچی یونیورسٹی،
ڈاکٹر شفیق احمد، سابق سربراہ شعبہ اردو جامعہ اسلامیہ، ڈاکٹر سید قاسم
جلال، ممتاز مزاح نگار اور اقبالؒ شناس ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر قاضی
عابد اور بہت سے دوسرے محقق، دانشور اور مقالہ نگار وں نے اپنی نگارشات پیش
کرکے شرکاء کے علم میں اضافہ کیا اور انہیں عمل کی ترغیب دی۔
وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی انجینئر پروفیسر اطہر محبوب نے اقبالؒ شناسی
اور اقبالؒ فہمی کا عملی ثبوت کا بہترین مظاہرہ کیا، انہوں نے اپنی گفتگو
میں حسبِ ضرورت اور حسبِ حال اقبالؒ کے اشعار کو ایسے پرویا ، جیسے فانوس
میں موتی جَڑے ہوتے ہیں۔ انہوں نے اقبالؒ کی دو نظمیں مختصر تفہیم کے ساتھ
سنائیں اور طلبہ و طالبات کو اقبالؒ کے فرمودات پر عمل کرنے کا مشورہ دیا۔
شعبہ اقبالیات کا قیام بھی انہی کے ویژن کا نتیجہ ہے۔ ڈین آرٹس فیکلٹی
جاوید حسّان چانڈیو نے کانفرنس کے آغاز میں ابتدائی کلمات میں ماہرِ اقبالؒ
کی حیثیت سے دلکش گفتگو کر کے اقبالؒ دوست ماحول کو مزید ساز گار بنا دیا۔
چیئر مین شعبہ اقبالیات ڈاکٹر رفیق الاسلام اور ان کے رفقا کی محنتیں اور
کاوشیں رنگ لا رہی تھیں، وہ سب لوگ بھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ علامہ
اقبالؒ کی بہو ناصرہ اقبالؒ کی آن لائن گفتگو بھی سننے کو ملی، انہوں نے
بہت ہلکے پھلکے انداز میں اقبالؒ پر بات چیت کی، کچھ اشعار سنائے اور
تعلیمی نصاب میں اقبالؒ کے کردار پر بات کی،نوجوان نسل کو اقبالؒ شناسی کی
ترغیب بھی دی۔
جو فرد فہمِ اقبالؒ کی منزل کو پہنچ گیا، اُن کے اشعار کی گہرائی کا لطف
وہی اٹھا سکتا ہے۔ معانی و مطالب سے آگاہی رکھنے والے لوگوں پر اُن کے
اشعار سحر طاری کردیتے ہیں۔ اقبالؒ کا زیادہ اور موثر کلام فارسی زبان میں
ہے، جسے ہم نے انگریزی کی مختلف مجبوریوں وغیرہ کی وجہ سے دیس نکالا دے
دیا، فارسی کے چلے جانے سے اردو کی چاشنی بھی ماند پڑ گئی۔ فارسی کلام تو
دور کی بات ہے، اقبالؒ کا عام کلام بھی سمجھنا آسان نہیں، اس کے لئے صرف
باتوں سے کچھ بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا، بہت منصوبہ بندی کے ساتھ عملی اور
ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جس طرح جامعہ اسلامیہ میں شعبہ قائم کیا
گیا ہے، اسے ایک روایتی تدریسی شعبہ نہ بنا دیا جائے، بلکہ قوم کی رہنمائی
کا بیڑہ اٹھایا جائے، قوم کے لئے اقبالؒ کو آسان تر اور قابلِ عمل بناکے
پیش کیا جائے، تاکہ اقبالؒ کے اشعار صرف تقریروں وغیرہ کی زینت ہی نہ بنے
رہیں، بلکہ عمل کے ذریعے ہماری زندگیوں کا حصہ بن سکیں۔ اسے ایک مہم اور
مشن کے طور پر شروع کیا جائے ۔ اقبالؒ وہ واحد شاعر ہیں، جنہوں نے اپنی
شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
اب یہ مذکورہ بالاشعبہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مشکل اور اہم کام کو
سرانجام دیں۔ یونیورسٹی ایسی مادرِ علمی ہوتی ہے جو صرف مشعلِ راہ نہیں
بلکہ مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہاول پور شہر میں بھی بے شمار لوگ
اقبالؒ فہمی کے طالب ہوں گے، یونیورسٹی کایہ بھی فریضہ ہے کہ وہ اپنے ہاں
ہونے والے ایسے قابلِ تقلید پروگراموں میں ان لوگوں کو بھی مدعو کر لیا
کرے، تاکہ یونیورسٹی کی پھیلائی ہوئی اس روشنی سے طلبا وطالبات کے علاوہ
بھی لوگ اپنے دلوں کو منور کر سکیں، اور خاص طور پر اِس قسم کی تقریبات میں
اس شعبہ کے طلبا و طالبات کو لازمی طور پر پابند کیا جائے۔
|