ضلع راولپنڈی میں لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی
میں ڈسٹرکٹ سیشن جج اور ان کی نامزد سول ججوں پر مشتمل20 ٹیموں نے گذشتہ
روز ضلع بھر کے400 سے زائد سکولوں کا دورہ کیا جہاں انہوں نے کلاس اوّل
تاپنجم، ناظرہ قرآن پاک پڑھا ئے جانے کے سلسلے میں انتظامات اور سہولیات کا
جائزہ لیا اس دوران انہوں نے ناظرہ قرآن پڑھانے کے لئے قاری کی موجودگی ،
پرائمری تک’’یکساں قومی نصاب ‘‘ کے مطابق ناظرہ قرآن پڑھائے جانے ،اس کا
ٹائم ٹیبل سمیت متعد د امور بارے معلومات حاصل کیں، چیف ایگزیکٹو آفیسر
برائے ضلعی ایجوکیشن اتھارٹی محمد اعظم کاشف نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ہر
نجی تعلیمی ادارے کو اپنے ادارے کی طرف سے ناظرہ قرآن پڑھانے کا سرٹیفکیٹ
دینا ہوگا، عدالتی احکامات کی حکم عدولی پر سکول کی رجسٹریشن بھی منسوخ کر
دی جائے گی اور40 لاکھ روپے تک ادارے کو جرمانہ بھی ادا کرناہو گا،ہائی
کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کے لئے راولپنڈی ضلع کی تمام تحصیلوں میں
معزز سول ججوں پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دی گئی ،جنہوں نے سکولوں کا دورہ کیا ۔
سکولوں میں ناظرہ قرآن پڑھانے کے سلسلے میں سہولیات کا جائزہ لینے کا یہ
عمل پورے صوبہ پنجاب میں جاری ہے ۔بلاشبہ دینی تعلیم کے حوالے سے حکومت کے
اقدامات لائق ستائش ہیں ۔اور بچوں کو دینی تعلیمات و قرآن پاک کی تعلیم
دینا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔لیکن یہ چونکہ دین کا معاملہ ہے تو اس میں بہت
سے امور توجہ طلب ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت اور محکمہ تعلیم کے
لوگ اس سارے پروگرام کی مانیٹرنگ کرتے ،لیکن غالباً اس پروگرام میں جان
بوجھ کر تساہل پسندی سے کام لیا گیا ۔ سکولوں میں ناظرہ قرآن بابت خاطر
خواہ اقدامات نہ کئے جانے پر ہائی کورٹ نے نوٹس لیا ہے ۔اور ججزحضرات کو
حکم دیا ہے کہ وہ ناظرہ قرآن کے سلسلے میں انتظامات چیک کریں ۔دیکھا گیا ہے
کہ بعض سکولوں میں چیکنگ کے دوران اساتذہ کرام کی عزت نفس مجروح ہوئی
۔استادکااپنا ایک مرتبہ ہے ،ان کی عزت و تکریم سبھی حضرات پر لازم ہے ۔بعض
سکولوں میں چیکنگ کرنے والے صاحبان خود اساتذہ کرام کی کرسیوں پر براجمان
دیکھے گئے جبکہ سکولوں کی پرنسپل کھڑے ہو کرٹیموں کو بریفنگ دیتی رہی
،جوسراسر زیادتی ہے ۔جو قومیں اپنے اساتذہ کرام کا احترام نہیں کرتیں ،وہ
کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔چیکنگ کرنا کوئی غلط بات نہیں اس کا مقصد اصلاح
احوال ہے ۔لیکن کیا ہی اچھا ہوتا ہے کہ یہ کام علمائے کرام کے سپرد کیا
جاتا یا کم ازکم چیکنگ سٹاف کے ساتھ کسی عالم دین کو بھی شامل کیا جاتا
۔جبکہ ایسا کچھ نہیں کیا گیا ۔خواتین اساتذہ کرام میں اس بارے سخت تشویش
پائی جاتی ہے ۔ہائی کورٹ کو اپنے اس حکم کی روشنی میں ان سبھی خدشات کا بھی
جائزہ لینا چاہئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اس طرف دھیان دینا
چاہئے ۔فاضل ججز صاحبان اس قسم کے کاموں میں الجھنے کی بجائے اگر لوگوں کو
حق و انصاف کی فراہمی پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں تو یہ ان کا ساری قوم پر
احسان ہو گا ۔تعلیمی اداروں کے معاملات چلانے کیلئے ایک پورا محکمہ تعلیم
کام کر رہا ہے ،جس پر کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ کئے جاتے ہیں ۔حکومت
کو چاہئے کہ وہ خود اپنی مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دے اور ایک ایسی ’’ٹاسک
فورس‘‘ قائم کرے جو تعلیمی اداروں میں دی جانیوالے دینی و دنیاوی تعلیم
سمیت تمام دیگر امور کی نگرانی کرے ۔اور یہ ’’ٹاسک فورس‘‘ براہ راست وزیر
اعلیٰ پنجاب کی نگرانی میں کام کرے۔گذشتہ دوسالوں میں کورونا کے سبب بچوں
کی تعلیم کا ویسے ہی بیڑا غرق ہو چکا ہے ۔کورونا کے دوران تعلیمی ادارے بند
ہونے اور لاک ڈاؤن کی صورت حال کی وجہ سے بچے تعلیم کی بجائے ’’سوشل میڈیا
‘‘کی نذر ہو گئے ۔’’آن لائن ‘‘تعلیم کا خواب بھی ادھورا ہی رہا ،کیونکہ
ہمارے ملک میں انٹر نیٹ کی سہولیات شہروں تک محدود ہیں ۔پسماندہ علاقوں میں
رہنے والے بچے تو کمپیوٹر یا آن لائن جیسی سہولیات سے کوسوں دور ہیں ۔ضرورت
اس امرکی ہے کہ بچوں کو ناظرہ قرآن کی تعلیم دلانے کیلئے حکومت کے اس مشن
کو آگے بڑھایا جائے ۔نفسا نفسی کے اس دور میں اساتذہ کرام بھی اپنی ذمہ
داریاں ادا کرنے میں تساہل پسندی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ماضی میں
اساتذہ کرام کی تمام تر توجہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تربیت پر
مرکوز رہتی ۔آج بھی ہم لوگ اپنے ان اساتذہ کرام کی علم دوستی اور نونہالوں
کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ ہمیں
ماضی کی ان روایات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہوگا ۔تاکہ ہماری آئندہ
نسلیں اعلیٰ دینی واخلاقی اقدار کے مطابق دین اسلام سے بھی آگاہی حاصل کریں
اور دنیاوی تعلیم سے بھی بہرہ مند ہوکر ملک و ملت کی خدمت کر سکیں ۔
|