ارشادِ ربانی ہے:’’ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا
ہے‘‘۔ گردشِ لیل و نہار چونکہ ہر کس و ناکس کے مشاہدے میں آنے والی شئے ہے
اس لیے ان نشانیوں سے سبق لینے کی خاطر کسی انسان کا بہت بڑامفکر یا دانشور
ہونا ضروری نہیں ہے ۔ اس سے پہلے والی آ یت میں فرمایا :’’ انسان شر اُس
طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا
ہے‘‘۔ یعنی خیر و شر بھی دن کی روشنی اور رات تاریکی کی طرح ایک دوسرے کے
متضاد ہیں ۔ اس کے باوجود اپنے دنیوی فائدے کے لیے اس فرق کو نظر انداز
کردینے والی جلد بازی انسان کے لیے تباہ کن ہے۔ آگے فرمایا گیا:’’ رات کی
نشانی کو ہم نے بے نور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے
رب کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو اِسی طرح ہم نے
ہر چیز کو الگ الگ ممیز کر کے رکھا ہے‘‘۔یہاں روز و شب کا امتیاز بیان کرکے
ان کے دوایسے فائدے بیان کیے گئے ہیں جو اظہر من الشمس ہیں۔
انسان کا معاملہ یہ بھی ہے جب کسی ناکامی سے دوچار ہوتا ہے تو دوسروں کو
مثلاً گردشِ افلاک کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرادیتا ہے ۔ اس لیے مندرجہ بالا
آیت کے فوراً بعد فرمایا : ’’ ہر انسان کا شگون ہم نے اُس کے اپنے گلے میں
لٹکا رکھا ہے‘‘۔ یعنی غیروں کو اپنے لیے نیک یا بدشگون ٹھہرانا نہ صرف
دنیابلکہ آخرت کے دن بھی بے سود ہوگاکیونکہ :’’ قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ
اُس کے لیے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا‘‘۔ اس کے بعد حکم
دیا جائے گا : ’’ پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود
ہی کافی ہے‘‘۔یہاں دنیا میں ماہ و سال کا احتساب کرنے اور آخرت میں حساب
دینے کا ذکرہے نیز اخروی رسوائی سے بچنے کا یہ نسخۂ کیمیا بتایاگیاہے کہ
:’’ جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید
ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے
والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا‘‘۔ اس طرح گویا ایک دائرہ مکمل ہوگیا۔
ارشادِ قرآنی ہے: ’’وہ دن کے اندر رات کو اور رات کے اندر دن کو پروتا ہوا
لے آتا ہے‘‘۔ یعنی دن اور رات کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ جیسے ہم بجلی کا
بٹن دباکر اچانک روشنی بکھیردیتے ہیں اور بجھا کر ایک دم اندھیر ااوڑھ لیتے
ہیں بلکہ یہ عمل بتدریج اس طرح ہوتا ہے کہ اجالے کے اندر سے اندھیرا نمودار
ہوکر چھا جاتا ہے اور تاریکی کے بطن سے روشنی نکل کر پھیل جاتی ہے۔ دنیا
میں خیر و شر کابھی یہی معاملہ ہے کہ ایک کے اندر سے دوسرا نکل کر اس کو
مغلوب کردیتا ہے۔ گردشِ لیل و نہار کی خاطر رب کائنات نے :’’ چاند اور سورج
کو مسخر کر رکھا ہے یہ سب کچھ ایک وقت مقرر تک چلے جا رہا ہے‘‘۔ یعنی ان کا
آنا جانا الل ٹپ نہیں بلکہ خالق کائنات کے مقرر کردہ نظام الاوقات کے
مطابق ہوتا ہے اور دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی اس کومتاثر نہیں کرسکتیں
۔ اسی طرح حق پر باطل کا غلبہ اور باطل کی حق سے شکست بھی اذنِ خداوندی کی
پابند ہےاور اس پر کوئی پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔
انسان کے لیے کبھی دن کی گرمی پریشان کن اور کبھی رات کی سردی جان لیوا
ثابت ہوتی ہے لیکن درمیان میں خوشگوار شب و وروز بھی آتے ہیں ۔ حالات
زمانہ بھی تغیر پذیررہتے ہیں ۔ اس لیےجس حالت میں بھی اللہ رکھے اسی میں
انسان کو اپنا فرض منصبی ادا کرتے رہنا چاہیے۔ مثلاً اگر سورج جلد طلوع
ہوتا ہو تو وہ کافی پہلے اٹھ کر نماز فجر ادا کی جائے اور تاخیر سے آتا ہو
تو دیر تک آرام کیا جائے ۔ قانونِ فطرت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لینے
میں بھلائی ہے ورنہ اپنے خسران کے لیے وہ خود ذمہ دار ہے ۔ شب و روز کی
گردش میں انسانوں کے لیے غیر مشروط اطاعتِ خداوندی کی دعوت اور تابناک
مستقبل کی بشارت ہے۔ دن اور رات کی کیفیت کے علاوہ طوالت بھی تبدیل ہوتی
رہتی ہیں مثلاً کبھی دن خاصہ طویل اور کبھی نہایت مختصر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح
کامیابی کے لیے کبھی تو بہت انتظار کرنا پڑتا ہے اور کبھی جلد ہاتھ آجاتی
ہے لیکن یہ تغیر لازمی ہے رات کے بعد دن کا نکلنا ایک فطری عمل ہے جو ہمیشہ
جاری و ساری رہتا ہے۔ کسان تحریک سے سی اے اے جدوجہد کا موازنہ کرنے والوں
کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے ۔
|