اور بھی ہیں مسجدیں نشانے پر !!!

6 دسمبرآتے ہی بھارت کے ہر مسلمان کی آنکھوں کے سامنےبابری مسجد کی بوسیدہ اور قدیم عمارت دکھائی دیتی ہے،بھلے ہی 550 سال پرانی اس عمارت میں آخری وقت پر کوئی نماز نہیں پڑھتاتھا،نہ ہی اس عبادت گاہ کو استعمال میں لایاگیاتھا،باوجود یہ مسجد مسلمانوں کیلئے اللہ کا گھرتھااور اس مسجدکیلئے پوری ایک صدی تک ہزاروں مسلمانوں نے قربانیاں دی تھیں۔آخر میں مسجدکی شہادت ہوئی،اس کے بعدشرپسندوں کے نفرت انگیز ارادے کمزورنہیں ہوئے بلکہ وہ مزید باحوصلہ ہوکرملک کے مختلف علاقوں میں شر انگیزی کیلئے تیاریاں کرنے لگے۔بابری مسجدکے بعد ان کے سامنے متھوراکی مسجد،بنارس کی مسجد،تاج محل،دہلی کی جامع مسجد سمیت درجنوں مساجدکی فہرست تیار ہوئی اور ہر مسجد کو کسی نہ کسی مندرکے ساتھ جوڑکر اسے شہیدکرنے کا اعلان کیا۔1992 میں بابری مسجدکی شہادت سارے مسلمانوں کیلئے جہاں افسوس کی بات تھی وہیں اس کی شہادت بھارت کے مسلمانوں کیلئے ایک سبق دے گئی کہ جب تاریخی مسجد جس کے دستاویزات سے لیکر شواہد تک پختاہیں وہی ان سنگھیوں کے ہاتھوں نہیں بچ سکی تو بھارت میں نئے سرے سے تعمیرکئے گئے مساجدومدارس کی بقاء کیسے ممکن ہے؟۔یقیناً بابری مسجد کادرد ہر مسلمان کے دل میں ہے کیونکہ اس مسجد سے ہمارے جذبات بھی جڑے ہوئے تھے اور ہمارے وجود کی نشاندہی بھی ہورہی تھی،لیکن جس بھارت میں شواہد ،ثبوتوں اور دستاویزات کو ماننےسے عدالت نے انکارکیا،وہاں پر بھلا کیسے چھوٹی چھوٹی مسجدیں اور مدرسوں کوبچایاجاسکتاہے،اس وقت بھارت کے حالات نہایت سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ہر بار کسی نہ کسی مدعے کو لیکر مسلمانوں کو نشانہ بنایاجارہاہے،مسلمان مسلسل پریشانیوں کے دور سے گذررہے ہیں،لیکن وہ حالات سے نمٹنے کے بجائے زیادہ جذباتی ہوچکے ہیں۔ہمارے اپنے گلی محلوں وشہروں کاجائزہ لیں ،ہمارے درمیان جو مساجداس وقت موجودہیں،اُن کے دستاویزات کس حد تک درست ہیں؟کتنی مسجدوں کی پہانی،کھاتہ،لائسنس،سیلس ڈیڈ،پرچیس ڈیڈیاپھر مسجدکی بنیاد کہاں سے ہوئی اس کے دستاویزات کا جائزہ لیں۔لگ بھگ70 مسجدوں کے پاس یہ دستاویزات نہیں ہیں،کئی مسجدوں کی انتظامیہ کمیٹیاں سوسائٹی ایکٹ یا ٹرسٹ ایکٹ میں بنائی گئی ہیں،لیکن سالانہ آڈیٹ کیاجارہاہے،ایسی کمیٹیاں نہ کہ برابرہیں۔کئی مسجدتو آج بھی کچھ وقف کردہ افرادکے نام سے موجوددستاویزات پر ہیں۔جب تک مسلمان اپنی عبادت گاہوں کے دستاویزات درست نہیں کرواتے اُس وقت تک ان عبادت گاہوں پر خطرے منڈلاتے رہیں گے۔جب تک مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کیلئے حصاربندی نہیں کی جاتی اُس وقت تک ظالموں کے قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔جس ملک کی مسجدوں میں مسلکوں کی بنیادپر بیک وقت پر دودو جماعتیں بن رہی ہوں وہاں اپنوںسے بھی خطرہ یقینی ہے۔جو قوم مسلکوں کی بنیاد پر راتوں رات مسجدیں بنارہے ہیں،اُس قوم کے لوگ ایک دوسرےکی مسجدکی مینار کو اونچا سے اونچا بنانے کامقابلہ کررہی ہیں اور دوسری مسجدکو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں وہاں غیر کیوں چپ بیٹھیں گے؟۔ان تمام نکات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی مسجدوں ،مدرسوں،قبرستانوں اور خانقاہوں کے دستاویزات درست کریں۔وہ ایم ایل اے آئیگافنڈدیگا،یہ ایم پی آئیگافنڈ دیگا،تب دیوار بنائینگے،کمپائونڈ بنائینگے،اس کا انتظارکرنے کے بجائے اپنے طو رپر پہل کریں۔جس طرح سے اپنے گھروں کے دستاویزات کو درست کروانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زورلگاتے ہیں اُسی طرح سے مسجدوں کے دستاویزات بنانے کیلئے بھی پہل کی جائے ۔ جس طرح سے ہیلتھ کیمپ،راشن کیمپ کاانعقادکیاجاتاہے ،اُسی طرح سے وقف بورڈکے ذمہ داران مسجدوں کے دستاویزات بنانے کیلئے پیش رفت کریں۔یقیناً اس سے آج نہیں تو کل فائدہ ہوگا۔مسجدیں اور مدرسے یقیناً مسلمانوں کی جائیدادیں نہیں بلکہ یہ اللہ کیلئے وقف کردہ مال ہے،اس پر کسی کی گرفت نہیں ہوسکتی،نہ ہی ان کے عہدے دائم وقائم رہتے ہیں،اس لحاظ سے عہدوں کی پرواہ کئے بغیر اللہ کیلئے کام کیاجانا چاہیے۔ورنہ بھارت میں آنے والے دنوں میں ہر مسجد پر بابری مسجدکی طرح خطرہ منڈلائیگا۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 176256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.