شانِ محمدﷺ

نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰﷺکی شان میں نعوذ باللہ جب کوئی گستاخی کرتا ہے تونبی کے اُمتی جہاں غم وغصے کا اظہارکرتے ہیں وہیں مسلمانوں کے مذہبی پیشوا،علماء اور خطیب حضرات ولولہ خیز تقریروں کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔نبی کریمﷺکے قصورواروں پر لعنتیں بھیجنے لگتے ہیں اور عظمتِ رسولﷺپر اس قدر تقریرکرتے ہیں مانوکہ اب آسمان پھٹ پڑیگا۔لیکن عظمتِ رسولﷺکے محافظ عملی میدان میں پیچھے رہے گئے ہیں جس کا سیدھا اثر قصورواروں کے حوصلے بلند کرنے پرپڑرہاہے ۔کئی خطیب ومبلغین کو یہ کہتے ہوئے سُناہے کہ نبیﷺکی شان میں گستاخی کرنے والوں کا سرقلم کردیاجائیگا،لیکن پچھلے75 سالوں میں اندازاًسو سے زائد ایسے معاملات بھارت میں پیش آئے جس میںتوہین رسالت کے قصورسرزد ہوئے ہیں،لیکن ان75 سالوں میں ایک بھی گستاخ رسول کے قانونی کارروائی نہیں ہوئی ہے اور اگر قانونی کارروائی ہوئی بھی ہو تو سزانہیں ملی ہے۔قصوروار کو جب تک سزا نہیں ملتی اُس وقت تک مظلومین کو انصاف نہیں ملتااور یہاں مظلوم تو میرے نبی کی شان ہے جس کیلئے اللہ نے نبیﷺکوساری کائنات کیلئے رحمت بنا کر بھیجاہے۔بارباریہی سوال اٹھارہے ہیں کہ مسلمانوں نے تحفظِ شانِ رسالت،شانِ مصطفیٰﷺکیلئے جلسے وجلوس تو انجام دئیے،نبیﷺکے نام پر تنظیمیں تو بنائیں اور اسی نبی کے نام پر مدرسے وخانقاہیں بھی بنائے۔مدرسوں کو دین کے قلعے کہاجاتاہے لیکن سوال یہ ہے کہ دین کے قلعے کے سپاہی اپنے سردار،اپنے بادشاہ،اپنے رہنماء اور شافی محشر حضرت محمد مصطفیٰﷺکی شان میں ہونے والی گستاخیوں کے خلاف کارروائیوں کیلئے کیوں نہیں بیڑااٹھایا؟۔بھارت کی تاریخ کاجائزہ لیاجائیگا تو بھارت کے پارلیمان میں مولاناابولکلام آزاد،ڈاکٹر ذاکرحسین،غلام نبی آزاد،احمد پٹیل،ای احمد،شفیع الرحمان برق،اسدالدین اویسی،افضل انصاری،دانش علی ،فضل الرحمان،محمد فیضل،امتیازجلیل،ناصرحسین ،رحمان خان،حسنین مسعودی،محمد اکبرلون،نوازکُنی،ڈاکٹر ایس ٹی حسن،آفرین علی،ابوطاہر،مولانابدرالدین اجمل جیسے قدآور لیڈران پارلیمان کی آواز رہے ہیں۔لیکن ان تمام اراکینِ پارلیمان نے کبھی بھی توہین رسالت کےخلاف قانون بنانے کیلئے مطالبہ کیااورنہ ہی اس تعلق سے کوئی بل پیش کرنے کی کوشش کی ۔آخر ایوانِ اقتدارمیں ان مدعوں پر کون بات کریگا یہ سب سے بڑا سوال ہے؟۔اس سے بڑاسوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کیلئے اس سے بڑا کوئی مدعہ بھی ہے؟اگراس سے بڑا کوئی مدعہ نہیں ہے تو مسلمان اپنے نبیﷺکی خاطر قانون بنانے کیلئے کیوں نہیں حکومتوں پر دبائو ڈال رہے ہیں۔بیل وگائے کاگوشت ممنوع قرار دئیے جانے پر الگ الگ طریقوں سےسپریم کورٹ تک رٹ پٹیشن ڈال رہے ہیں،کبھی کسانوں کا سہارالیاجارہاہے تو کبھی چمہاروں کا تو کبھی ایکپسورٹ کمپنیوں کا سہارالیکر گائوکشی کیلئے قانون بنانے کی اپیل کی جارہے۔کوئی معمولی سی جگہ لے لیتاہے تو اس کیلئے مسلمان لاکھوں روپئے دیکر بھی سپریم کورٹ جانے سے نہیں رُک رہے ہیں۔وقف بورڈکا صدربننے،ممبر بننے،مسجدکی کمیٹیاں بنوانے کیلئے لائروں کی اچھی فیس اداکرتے ہوئے اپنے حق کا مطالبہ کررہے ہیں ،تو کیانبیﷺکی شان کیلئےاور نبیﷺکیلئے علاقائی عدالتوں سے لیکر سپریم کورٹ تک کا دروازہ کھٹکھٹایانہیں جاسکتا؟۔دراصل مسلمانوں کا اس وقت جو عشقِ رسول اور تحفظ شانِ رسولﷺ کا جو دعویٰ ہے وہ کھوکھلاہے،اگر اس میں ذرا بھی دم ہوتاتو لوگ اپنے اپنے گھروں کو کیوں نہ ہو بیج کر تحفظِ عزت رسولﷺکیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔مسلمانوں سوچو ذرا،روزِ محشرمیں کیا جواب دوگے،جب خدا پوچھے گا کہ میرے نبیﷺکی شان میں گستاخیاں ہورہی تھیں تو اُس وقت تم کیا کررہے تھے؟کیا یہی کہوگے کہ فیس بک پر لعنتیں بھیج کر ،ٹیوٹر پر ٹرینڈ چلارہے تھےیایہ کہہ کراللہ کو راضی کرینگے کہ "اے اللہ ہم تیرے نبی کیلئے جنگ کا میدان تو نہ بناسکے لیکن قانونی جنگ کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردئیے"۔بھارت جیسے ملک میں جہاں حق کیلئے آوازاٹھانے کیلئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے اُس مقام پر جب مسلمان اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے سے گریزکرتے رہیں گے توکیا فائدہ ہوگا اور کس طرح سےوہ اپنے آپ کو اس آزاد ملک کے شہری ہونے کا فائدہ اٹھا پائینگے۔
--

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 200106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.