ارشادِ ربانی ہے : ’’تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے
منظرعام پر لایا گیا ہے‘‘۔ بفضلِ تعالیٰ یہ آیت آج کل اس قدر معروف ہوگئی
ہے کہ عربی متن کے بعد ترجمہ کی حاجت باقی نہیں ر ہتی۔ اپنے خیر امت ہونے
پر ہرکوئی بجا طور پر فخر کرتا ہے مگر آگے عوام الناس کے لیے برپا کیے
جانے کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے تقاضوں کی
جانب بھی توجہ نہیں جاتی ۔ عصر حاضرمیں تیزی کے ساتھ بگڑتے ہوئے حالات میں
ظلم و جبر کے خلاف دوسروں کا ساتھ لینے کی بات بہ آسانی سمجھ میں آجاتی
ہے لیکن غیروں کا ساتھ دینے میں مشکل پیش آتی ہے حالانکہ ہمیں حکم دیا گیا
ہے کہ :’’ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو
گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو‘‘۔ اس موضوع پر
تقریر کرنا یا مضمون لکھنا ہو تو ہماری زبان و قلم بہت تیز دوڑتے ہیں لیکن
جب عمل کا وقت آتا ہے تو دل تنگ ہوجاتا ہے۔ شیطان مختلف قسم کے وسوسے ڈال
کرہمیں دوسروں کی مددکرنےسے روکنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔اس طرح تعاون لینے
کا دروازہ ازخود بند ہوجاتا ہے۔
عصرِ حاضر میں عام طور پر غیرمسلم تحریکات دینی تنظیموں سے دور رہتی ہیں۔
امت کو بجا طور پر اس کا قلق اور شکایت بھی ہوتی ہے کہ ہمیں حاشیے پر ڈال
دیا گیا ہے یا کوئی پوچھ کر نہیں دیتا۔ یہ شئے چونکہ اختیاری نہیں ہے اس
لیے صبر کرلیا جاتا ہے لیکن جب لوگ ہم سے تعاون کے لیےرجوع کرتے ہیں تو
مسئلہ سنگین ہوجاتا ہے ۔ اس وقت ہمیں ان کا یا ان جیسے دیگر لوگوں کا ماضی
یاد آنے لگتا ہے کہ کس طرح ہم سے مدد لینے کے بعد انہوں نے منہ پھیر لیا
تھا اور قدر دانی نہیں کی تھی ۔ ہمارےبرے وقت میں آگے نہیں آنےوالے ہمیں
احسان فراموش ، نمک حرام ، ابن الوقت اور موقع پرست نظر آنے لگتے ہیں اور
شیطان حیلہ بہانہ سنجھاتا ہے حالانکہ ماضی سے زیادہ اہمیت حال اور مستقبل
کی ہے ۔ ان کے ساتھ ہمارا تعاون اگر بے لوث تھا تو ہمیں ان سے بیجا توقعات
وابستہ نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ہم نے اگر کسی کی مدد اللہ کے حکم پر اس کی
خوشنودی کے لیے کی تھی تو اس کے رویہ سے ہمارے اجرو ثواب میں کوئی کمی واقع
نہیں ہوتی بلکہ اگر کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا جائے تو خیر و
برکت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
ایسے مواقع پر ہمیں امت کو درپیش بے شمار مسائل بھی ایک ایک کرکے یاد آنے
لگتے ہیں اور دوسروں پر اپنی توانائی اور وسائل کوصرف کرنا گویا ضائع
کرنےکی مصداق لگتا ہے حالانکہ ’تعاونوا علی البر‘ کے خدائی حکم کی بجاآوری
کرتے وقت یہ خیال نہیں آنا چاہیے کیونکہ:’’ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی
وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘ ۔ دینے والے کا ہاتھ لینے والے سے اونچا ہوتا ہے اس
کا تجربہ ابھی حال میں کسانوں کی مہاپنچایت کے موقع پر ہوا۔ ممبئی
کےاشتراکی منتظمین نے سکھوں اور مسلمانوں کے مذہبی رہنماوں کے سامنے دامن
پھیلایا تو سکھوں نے یقین دلایا کہ اگر ایک لاکھ شرکاء بھی اجلاس میں شرکت
کریں تو وہ انہیں کھانا کھلائیں گے۔ یہ بہت بڑی پیشکش تھی جس نے ان کی قدرو
قیمت میں بے شمار اضافہ کردیا۔ اس کے ساتھ ملت کی جانب سے بھی چائے پلانے
پر آمادگی قابلِ قدر تھی مگر دونوں کے درمیان وہی فرق تھا جو چائے اور
کھانے کے درمیان ہوتا ہے۔
امت نے لاک ڈاون کے دوران بے یارو مددگار مزدوروں کی غیر معمولی خدمت کی
مگر مسئلہ لیڈر شپ کا ہے۔ مرکزی سطح پر کام کرنے کا طریقۂ کار بھی مسائل
پیدا کرتا ہے ۔ سارے وسائل کا ایک جگہ جمع ہوکر خرچ ہونا مشکل کھڑی کرتا ہے۔
اس کام کو اگر مختلف بڑی مساجد میں بانٹ دیا جائے تو ملت سکھوں یا عیسائیوں
سے بہت زیادہ کام کرسکتی ہے۔ امت مسلمہ تعداد کے اعتبار سے بڑی ہے اور اس
کے پاس وسائل اورجذبہ انفاق بھی بہت زیادہ ہے ۔ زعمائے ملت اگر وسعت النظری
کے ساتھ دوسروں کا درد محسوس کریں اور کام کوتقسیم کرکے فی سبیل اللہ اپنی
ذمہ داری اداکریں تو افرادی و مالی مشکلات ازخود دور ہوجائیں گے۔ یہ کام
چونکہ خالص رضائے الٰہی کے لیے کیا جائے گا اس لیےاللہ تبارک و تعالیٰ کی
مدد و نصرت بھی شامل حال رہے گی جو کامیابی ضمانت ہے۔ ارشادِ حق ہے:’’ یہ
بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل اس
سے مطمئن ہو جائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے‘‘۔
|