قُرآن و انسان اور زمین و آسمان !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 69 تا 73 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الذین اٰمنوا
لاتکونواکاالذین
اٰذوا موسٰی فبرہ اللہ
مما قالوا وکان عنداللہ
وجیھا 69 یٰایھاالذین اٰمنوا
اتقوااللہ وقولواقولا شدیدا 70
یصلح لکم اعمالکم ویغفرلکم ذنوبکم
و من یطع اللہ ورسوله فقد فازا فوزا عظیما
71 اناعرضناالامانة علی السمٰوٰت والارض والجبال
فابین ان یحملنہا واشفقن منہا وحملھاالانسان انه کان
ظلوما جھولا 72 لیعذب اللہ المنٰفقین والمنٰفقٰت والمشرکین
والمشرکٰت ویتوب اللہ علی المؑمنین والمؤمنات و کان اللہ غفورا
رحیما 73
اے قُرآن پر ایمان لانے والے انسانو ! کہیں تُم بھی قومِ مُوسٰی کی طرح اپنے نبی کو وہی تکلیف دہ بات کہہ کر اپنی منزلِ مُراد سے دُور نہ ہوجانا جو بات قومِ مُوسٰی نے مُوسٰی سے کہی تھی اور جس بات کے بعد مُوسٰی کو تو اللہ نے اُس کے مَنفی رَدِ عمل سے بچا لیا تھا لیکن قومِ مُوسٰی اپنی منزلِ مُراد سے دُور ہوگئی تھی اور اے قُرآن پر ایمان لانے والے انسانو ! تُم اللہ کے اَحکام کے مطابق ہمیشہ ہی اللہ کے دائرہِ حفاظت میں رہنا اور ہمیشہ ہی اللہ کے اَحکام کے مطابو مُثبت و مُستحکم بات کرتے رہنا اور تُم اپنے اِس عمل کی تکمیل کے لیۓ اللہ و رسُول اَحکام کی تعمیل کرتے رہنا تاکہ تُم کامیابی کے ساتھ اپنے اعمالِ حیات کو بہتر بنا سکو ، تُمہارے موجُودہ حال سے پہلے قُرآن کی یہی امانت جب اللہ نے زمین کے جُھکاؤ ، پہاڑوں کے جماؤ اور آسمانوں کے پھیلاؤ کے سامنے پیش کی تھی تو وہ سہم گۓ تھے لیکن یہ تُم انسان ہی تھے کہ جنہوں نے اپنی کم علمی کی بنا پر اپنے مقام سے آگے بڑھ کر اِس امانت کو اُٹھالیا تھا جس کی وجہ سے تُم عالَم کی ہر بے اختیار مخلوق کے مقابلے میں ایک بااختیار اور اختیار کے استعمال کے باعث ایک جواب دہ مخلوق بن چکے ہو لیکن تُمہاری نسل کے دوغلے مرد و زن جو زبانی طور پر تو تُمہارے عملِ خیر میں تُمہارے ساتھ موجُود رہتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ اہلِ شر کے ساتھ ایک فتنہ و شر بن کر کھڑے رہتے ہیں اِس لیۓ اِن دوغلے مرد و زن میں سے جو مرد و زن شر کو چھوڑ کر خیر کی طرف آئیں گے تو اُن کو جزاۓ خیر کے لیۓ قبول کیا جاۓ گا اور جو مرد و زن شر کے ساتھ شر بن کر کھڑے رہیں گے تو اُن کو سزاۓ شر کے لیۓ مقامِ سزا میں جمع کیا جاۓ گا اورتُمہاری ہر اَچھی اور ہر بُری جماعت کا اللہ کی خواہشِ خطاپوشی و رحم پروری کے مطابق فیصلہ کیا جاۓ گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کے اختتامِ کلام پر اِس سُورت میں آنے والے کلام کے نتیجہِ کلام کے طور جن دو باتوں کو انسانی حافظے میں محفوظ کرنا مقصود ھے اُن میں سے پہلی بات انسان کی وہ انسانی اندھی تقلید ھے جو انسان کو علمِ تازہ قبول کرنے کے بجاۓ تقلید کی اُس کُہنہ جہالت پر قائم رکھتی ھے جو کُہنہ جہالت انسان کو کبھی بھی آسمانی وحی کے علمِ تازہ کی طرف نہیں آنے دیتی ، قُرآنِ کریم نے انسانی تاریخ کی اِس تاریخی دلیل کو اِس اٰیات سے پہلی اٰیات میں بیان کیا ھے اور قُرآنِ کریم نے انسانی حافظے میں محفوظ رکھنے کے لیۓ اپنی موجُودہ اٰیات میں انسانی تاریخ سے جو دُوسری تاریخی تمثیل پیش کی اُس تمثیل کا وہ پہلا حصہ عھدِ مُوسٰی سے تعلق رکھتا ھے جس میں اِس تمثیل کے حوالے سے اہلِ ایمان کو یہ ھدایت کی گئی ھے تُم بھی جنگِ اَحزاب کے اِس مُشکل مرحلے میں قومِ مُوسٰی کی طرح اپنے نبی سے کہیں یہ نہ کہہ دینا کہ تُم اور تُمہارا خُدا دُشمن کے ساتھ جا کر جنگ لڑو اور فتح ملنے کے بعد اپنی فتح کے بارے ہمیں بھی بتادو تاکہ ھم بھی تُمہارے جشنِ فتح میں شریک ہو جائیں ، قومِ مُوسٰی کی اِس بات سے مُوسٰی علیہ السلام کا تو کوئی بھی نقصان نہیں ہوا تھا لیکن قومِ مُوسٰی کی منزلِ مُراد قومِ مُوسٰی سے بہت دُور ہوگئی تھی کیونکہ جو قوم اپنی صُلح و جنگ کے فیصلے وقت پر نہیں کرتی تو وقت اور فائدہِ وقت اُس کے ہاتھ سے نکل جاتا ھے ، ہر انسان جانتا ھے کہ اندھیرے کا ذکر کیا جاۓ تو اُس شب کا خیال آتا ھے جو تاریکی کی ایک نمائندہ شب ہوتی ھے ، اُجالے ذکر کیا جاۓ تو اُس دن کا خیال آتا ھے جو روشنی کا ایک نمائدہ دن ہوتا ھے اور اگر انسان کی انسان کے ساتھ ہونے والی مار دھاڑ کا ذکر کیا جاۓ تو اُس مار دھاڑ سے بھی قُدرتی طور پر اُس انسانی جنگ کا خیال آتا ھے جو انسانی مار دھاڑ کی نمائندگی کرتی ھے اور اگر جنگِ احزاب کے اِس مضمون کے درمیان اہلِ ایمان کو نبی علیہ السلام کے ساتھ قومِ مُوسٰی کا حوالہ دے کر جس پر بات نہ کرنے کی ھدایت کی گئی ھے تو اِس سے بھی وہی جنگ مُراد ہو سکتی ھے جس سے اہلِ ایمان کو اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بجاۓ یکسوئی اور یکجہتی کے ساتھ گزرنا ھے لیکن اہلِ روایت نے اِس اٰیت کی جو شانِ نزول بیان کی اُس میں کہا گیا ھے کہ مُوسٰی علیہ السلام اکثر و بیشتر ایک چادر اوڑھے رہتے تھے جس سے قومِ مُوسٰی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو گیا تھا کہ مُوسٰی علیہ السلام کسی جسمانی عیب کا شکار ہیں اِس لیۓ ایک بار جب وہ نہا رھے تھے تو اللہ کے حُکم سے ایک پتھر اُن کے کپڑے لے کر بھاگ گیا تھا اور مُوسٰی علیہ السلام بھی اُس پتھر کے ساتھ بھاگتے ہوۓ قومِ مُوسٰی کی ایک مجلس میں جا پہنچے تھے اور اُن کو بے لباس دیکھ کر قومِ مُوسٰی کا وہ شبہ دُور ہو گیا تھا کہ وہ کسی جسمانی عیب کا شکار ہیں ، اگر اہلِ روایت کی اِس احمقانہ روایت کو درست مان لیا جاۓ تو پھر یہ بھی ماننا لازم ہو جاۓ گا کہ منافقینِ مدینہ کے دل میں بھی نبی علیہ السلام کے جسم میں کسی ایسے ہی عیب کے موجُود ہونے کا شبہ تھا اِس لیۓ اہلِ ایمان کو اسی طرح کی بات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا جس طرح کی بات قومِ مُوسٰی نے کی تھی اور اُس کا شبہ دُور کرنے کے لیۓ ایک پتھر کو اُن کا لباس لے کر بھاگتے ہوۓ قومِ مُوسٰی کی مجلس میں جانے کا حُکم دیا گیا تھا { نعوذ باللہ من ذٰلک } اور اِن دُوسری اٰیات میں بیان ہونے والی دُوسری تاریخی تمثیل جو قُرآن نے انسان کے حاملِ قُرآن ہونے کے تعلق سے بیان کی ھے اُس میں بھی اہلِ روایت نے ایسی ہی بہت سی لایعنی اور بے معنی کہانیاں بیان کی ہوئی ہیں لیکن اَصل بات یہ ھے کہ اٰیت ہٰذا میں بیان کی گئی زمین سے مُراد پیروں میں بچھی ہوئی زمین ، آسمان سے مُراد سروں پر چھاۓ ہوۓ آسمان اور پہاڑوں سے مُراد سینہِ زمین پر کھڑے پہاڑ مُراد نہیں ہیں بلکہ زمین سے زمین کی ہموار سطح پر رہنے والی مخلوق ، پہاڑوں سے پہاڑوں کی بلندیوں پر بسنے والی مخلوق اور آسمانوں سے آسمانوں کی وسعتوں میں مُمکنہ طور پر موجُود ہونے والی وہ مخلوق مُراد ھے جو مخلوق شاید انسان کی طرح اختیار و ارادے کی مالک نہیں ھے اور اگر کوئی مخلوق اختیار و اردہ رکھتی بھی ھے تو اُس کا اختیار و ارادہ انسان کے اختیار و ارادے کی طرح کوئی ایسا پُختہ اختیار و ارادہ نہیں ھے جس اختیار و ارادے کے تحت وہ مخلوق کوئی عقلی و عملی فیصلہ کر سکے اور دُوسری بات جو اِس بات سے مُتبادر ہوتی ھے وہ یہ ھے کہ زمین و آسمان اور کوہ و جبال میں خود کو بدلنے کی صلاحیت نہیں ھے بلکہ خالق کی اِس مخلوق کی اِس ساری جمعیت میں انسان ہی وہ واحد مخلوق ھے جو ہر ایک زمان و مکان کے ہر ایک اَحوال و ظروف میں خود کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ھے اور اِس کی اِسی عقلی و عملی اہلیت و صلاحیت کے باعث اِس مخلوق کے درمیان اللہ تعالٰی کے انبیاء و رُسل آتے رھے ہیں تاکہ یہ مخلوق اللہ تعالٰی کے اَحکام سے اُن بدلے ہوۓ انسانوں کو دیکھ کر خود کو بدلتی رھے اور اسی لیۓ اِس مخلوق کو قُرآن کا حامل بنایا گیا ھے تاکہ یہ مخلوق اپنے خالق کے اَحکامِ نازلہ کے مطابق خود کو بدلے اور خود کو بدلتی رھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 567362 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More