پاکستانی قانون میں توہین رسالت کے جرم پر موت کی
سزا سب سے پہلے 1986میں جنرل محمد ضیاء الحق حکومت نے مقرر کی ، پاکستان کے
علاوہ یہ سز اسعودی اور ایرانی قوانین میں بھی موجود ہے لیکن عالمی برادری
میں ایک عام تاثر یہی ہے کہ دنیا کے 197ممالک میں توہین مذہب کے سخت ترین
قوانین والا واحد ملک پاکستان ہے لہٰذا اسلام مخالف قوتوں، این جی اوز ،
انسانی حقوق کے نام نہاد اداروں اور عالمی میڈیا کے تیروں کا رخ ہمیشہ
ہماری طرف رہتا ہے۔ مغربی دنیا کاپاکستان سے دیرینہ مطالبہ ہے کہ جنرل ضیاء
دور میں بننے والا یہ قانون معطل کر دیا جائے اور پاکستان میں اظہار رائے
کی آزادی رائج ہو لہٰذا ریاست پاکستان کی مقتدر اشرافیہ عموماً پریشر میں
رہتی ہے ۔اسے ملکی معیشت کو بحال رکھنے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور
ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ مل کر چلنا پڑتا ہے ، ان کے مطالبات کو اہمیت
دینا لازم ہے لیکن جونہی ناموس رسالت اور ختم نبوت قوانین میں ترمیم کی
کوئی تجویز زیر بحث آتی ہے اسلامیان پاکستان سر پر کفن باندھ کر شاہراہوں
پر آ موجود ہوتے ہیں اور حکمرانوں کو چار و ناچار ان کے روبرو سر تسلیم خم
کرنا پڑتا ہے ۔57اسلامی ممالک میں اہل پاکستان ہی کا خاصہ ہے کہ نبی اکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم کی حرمت و عزت پر قربان ہونے میں انہیں کوئی امر مانع
نہیں۔
آئے روز کی بیرونی گزارشات، بین الاقوامی سفارشات اوراقوام متحدہ کی ہدایات
کے باوجود کسی حکومت کو آئین پاکستان کی اسلامی دفعات تبدیل کرنے کی جرأت
نہیں ہوئی لیکن اب ہم خود اپنے افسوس ناک طرز عمل سے کفار و اغیار کے ناپاک
عزائم کو راستہ دکھا رہے ہیں، مقدسات اسلام کی توہین بلاشبہ بہت بڑا جرم ہے
لیکن گستاخی کی تہمت لگا کر وحشیانہ تشدد ، جلاؤ گھیراؤ بھی قومی اور بین
الاقوامی جرم ہے ۔ دینی جذبات کو لا دینیت کا لباس پہنا کر محض غلط فہمی
اور جلد بازی میں کسی بھی شخص پر توہین رسالت کا الزام لگانا اور جان سے
مار دینا بڑا ظلم ہے جس سے تحفظ ناموس رسالت مہم کو سخت نقصان کا احتمال ہے
۔ یہی طرز عمل رہا تو اصل مجرم اور گستاخ کو شک کا فائدہ ملنا بھی بعید از
امکان نہیں ۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے منکرین و حاسدین ہمارے ان
اقدامات سے بہت خوش ہیں کیونکہ وہ ہمارے اندھے جذبات کانتیجہ عالمی میڈیا
کو دکھا کر بھرپور فائدہ حاصل کرتے ہیں اور اس طرح انہیں ناموس رسالت اور
ختم نبوت قوانین کے خلاف زبان درازی کا موقع مل جاتا ہے۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس قسم کے واقعات اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
اپریل 2017میں مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں طالب علم مشال خان کو مشتعل
ہجوم نے قتل کر دیا ، جبکہ تحقیق کے بعد تمام متعلقہ اداروں نے مشال خان پر
توہین مذہب کاالزام مسترد کر دیا اور اسے بے گناہ قرار دیا گیا، نومبر
2020میں خوشاب کے بینک مینیجرمحمد عمران حنیف کو سیکورٹی گارڈ نے توہین
رسالت کاجھوٹا الزام لگا کر گولی مار دی ،ان دونوں واقعات میں مظلوم افراد
ہمارے ہی شہری تھے لیکن سیالکوٹ کے حالیہ واقعہ میں نشانہ بننے والا شخص
سری لنکن شہری تھا جو یقینا اردو یا عربی زبان پڑھنے سے قاصر تھا۔ مذہبی
اشتہار اتار پھینکنے پر چند افراد نے توہین مذہب کا شور مچا کر اسے بدترین
درندگی کا نشانہ بنا ڈالا ۔ مقتول سری لنکن شہری کی غم سے نڈھال والدہ ،
بیوی بچوں اور دیگر اہل خاندان کو کیسے یقین دلایا جائے کہ اسلام امن اور
محبت کا مذہب ہے جس میں کسی کو آگ میں جلانا جائز نہیں۔آخری رسومات کے
اجتماع میں شریک ہزاروں افراد یہ بات کیونکر سمجھ سکیں گے کہ اسلام کسی بھی
قسم کی افراط و تفریط سے پاک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں ہر ہر عمل ایک
متواتر سند کی اتباع میں انجام دیا جاتاہے اور نہ صرف انسان بلکہ جانور بھی
اسلامی ریاست میں باقی دنیا سے محفوظ تر ہوتے ہیں ۔
پراپیگنڈہ اور جذبات سے مغلوب ہجوم نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے اس عمل سے
ہمارے ملک و ملت کو کن کن مسائل سے گزرنا پڑے گا اور یہ کہ ان کی اس جہالت
سے اسلام کے خلاف مہم چلانے والے عالمی فتنہ پروروں کی بن آئے گی۔ حکومت
پاکستان کو دنیا بھر میں کتنی شرمندگی کا سامنا ہو گا۔ پاکستانی معیشت کو
گرے لسٹ کے بعد کون سے عذاب سے گزرنا پڑے گا جس کا نتیجہ بالآخر اہل
پاکستان ہی کو بھگتنا ہو گا۔
یہی ہوا کہ دنیا بھر کے خبر رساں اداروں نے ان تمام واقعات کو شہ سرخیوں کے
ساتھ نشر کیا۔ دشمن ممالک نے بڑھ چڑھ کر پاکستان کو مذہبی جنونی ملک قرار
دیااور وطن عزیز کی جگ ہنسائی کا تکلیف دہ منظر دنیا بھر میں مقیم
پاکستانیوں کو دیکھنا پڑا۔ ہمارے کسی بھی انتہاپسندانہ کام کا منفی اثر ملک
کی نیک نامی اور معیشت پر تو ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ بیرون ملک
پاکستانی کمیونٹی کو جس ذلت آمیز اور پریشان کن ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا
ہے اس مشکل کا اندازہ ہم یہاں رہنے والے شہری کبھی نہیں لگا سکتے۔
حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ علماء کرام کے ساتھ
مشاورت سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی کریں۔ متفقہ ضابطہ
اخلاق تحریر میں لا کر واضح کیا جائے کہ دراصل گستاخی کہتے کس کو ہیں
اورشرعی طور پر توہین رسالت کا جر م کن صورتوں میں لاگو ہوتا ہے ۔ اگرتمام
مسالک کے علماء و خطباء اس معاملے میں اپنے اپنے مقتدین کی تربیت کریں بلکہ
ہر درد مند سپیکر قومی فکر اور کوشش کی ساتھ سامعین کو اخلاقیات کا درس دے
تو عدم برداشت اور انتہاپسندی سے پاک معاشرہ بنانے میں مدد مل سکتی ہے
بصورت دیگر ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں بلکہ ہم از خود اپنے زوال
کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔
|