بولنے، بات کرنے، اپنے احساسات ،جذبات و خیالات کو دوسروں
تک پہنچانے کے صوتی اور لفظی وسیلے کوزبان کہتے ہیں۔
زبان کی دو مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک اس کی ظاہری صورت ،دوسری اس کی
معنوی صورت۔ اگر آواز اپنی معنوی حیثیت کو الفاظ کے ذریعے پوری طرح ادا نہ
کر سکتی ہو تو زبان کا اصل مقصد یعنی ترسیل و ابلاغ کا عمل پورا نہیں
ہوسکتا۔الفاظ اور معنی میں تال میل اور مناسب ربط و تعلق ہی سے زبان کا
دائرہ وسیع ہوتا ہے۔
زبان ایک زندہ حقیقت ہے جس میں مسلسل تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ زمان و مکاں
کے اعتبار سے زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ ان میں کبھی اشتراک ہوتا
ہے یا اختلاف اور کبھی انسانیت۔جس کی وجہ سے زبانوں کے مختلف خاندان ہو گئے
ہیں یا انہیں مختلف خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
زبان کی تعریف
خدا نے انسان کو نطق کی صلاحیت دی ہے۔ نطق کی ترسیل کا وسیلہ لفظ ہوتا ہے،
جو آواز یا آوازوں پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں ہم حروف کہتے ہیں۔ الفاظ اپنی
آواز کی لہروں کی شکل میں اصوات کہلاتے ہیں جن کے مجموعے سے قابلِ سماعت
کلام بنتا ہے۔یہی کلام جب املا کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو تحریر کہلاتا
ہے۔کلام کے ذریعے انسان کی فکر، خیال ،احساسات جذبات اور وجدان کا اظہار
ہوتا ہے۔ اسی لئے انسان دیگر جانداروں( ذی حیات مخلوق) کے مقابلے میں حیوان
ناطق کہلاتا ہے۔
زبان ایک سماجی ضرورت ہے۔ زبان سماج ہی میں بنتی، سنورتی اور بگڑتی ہے۔زبان
سماج کو جوڑتی ہے۔ تہذیب و تمدن کی تعمیر و تشکیل میں اہم رول ادا کرتی ہے
اور مل جل کر رہنے سہنے کے قابل بناتی ہے۔ اگر زبان نہ ہوتی تو انسانی
معاشرت و تہذیب کی صورتحال یقیناً کچھ اور ہوتی۔
کوئی زبان موروثی نہیں ہوتی۔ زبان دراصل ماحول کی دین ہوتی ہے، وراثت کی
نہیں۔ ایک بچہ جس ماحول میں پرورش پاتا ہے وہی زبان سیکھ لیتا ہے۔ایسا بھی
ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے ماحول سے اگر ایک عرصے تک کٹ جائے تو وہ اپنی
مادری زبان کی مہارت بھی کھو بیٹھتا ہے۔نہ صرف زبان کی مہارت کھو دیتا ہے
بلکہ اپنی زبان کا کلچر اور تہذیب و تمدن بھی گنوا دیتا ہے اور اپنے موجودہ
ماحول کی حاوی زبان اور اس کی تہذیب کے نمایاں اثرات اس کی شخصیت میں غیر
محسوس طور پر شامل ہو جاتے ہیں۔
دنیا کی ہر زندہ زبان تغیر پذیر ہوتی ہے۔تغیر کی رفتار میں سستی و تیزی بھی
ہو سکتی ہے۔ کسی بھی زبان کے آغاز و ارتقاء پر غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت
سامنے آتی ہے کہ ایک زبان سے کئی زبانیں بنتی ہیں یا کئی زبانوں کا ایک خاص
زبان پر خاصا اثر پڑسکتا ہے۔پھر ان تغیرات، متروکات اور داخلات سے نئی
زبانیں بنتی ہیں۔زبانوں کا یہ تغیر کوئی دس سال، 20 سال کی بات نہیں بلکہ
صدیوں میں ایک زبان اس قدر بدل جاتی ہے کہ ہم اسے دوسری زبان کہنے لگتے ہیں
مثلاً دکنی زبان ہی کو لیجئے۔یہ اردو کی ایک ایسی ابتدائی شکل ہے جس میں
اعلیٰ پائے کا شعری و نثری سرمایہ موجود ہے مگر وقت کے تقاضوں اور انسانی
میل جول کی وجہ سے اس علمی و ادبی زبان میں اتنی اور ایسی تبدیلیاں آئیں کہ
آج وہ زبان اپنا علمی و ادبی وقار برقرار نہ رکھ سکی۔
زبان خواہ تحریری ہو کہ بولی جانے والی، اس میں ہر سطح پر تبدیلی آتی رہتی
ہے۔ یہی تغیر پذیری زبان کو زندہ رکھتی ہے۔ جس زبان کے بولنے والوں کا حلقہ
جتنا وسیع ہو گا وہ زبان اتنی ہی مضبوط ،مستحکم اور مہذب ہوگی اور اتنا ہی
اس میں تہذیبی تنوع نظر آئے گا۔
کسی قوم کی مجموعی زندگی میں ثقافت کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ قوم کے
منتشر افراد کو ایک مربوط اجتماعی نظام میں اکٹھا کرنا اور قوم کو ایک جہت
عطا کرنا ، یہ ثقافت ہی کا کام ہے۔ ثقافت کا تعلق ان افکار و اقدار سے ہے
جو مذہبی اور اخلاقی ضابطوں میں ، ادب میں ، سائنس اور فلسفہ میں اور آرٹ
اور موسیقی میں ملتے ہیں۔ زبان بھی ثقافت ہی کا ایک اہم ترین جزو ہے۔ کسی
کلچر کی تشکیل اور اس کی بقا میں اس ثقافتی گروہ کی زبان بھی اہم رول ادا
کرتی ہے چنانچہ ممتاز حسین لکھتے ہیں۔ ’’کوئی قوم مضبوط اس وقت بنتی ہے جب
اسے بھرپور طور سے معلوم ہو کہ اس کا کلچر کیا ہے اور وہ اپنے اس کلچر کا
اظہار اپنی ہی زبان میں کرتی ہو‘‘۔ہر زبان اپنا ایک مخصوص کلچر رکھتی ہے
یعنی زبان اپنے بولنے والوں کے ایک خاص کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔ خوش
قسمتی سے ہمیں شروع میں ہی ایک ایسی زبان میسر آئی جو کہ ہمارے مخصوص
اسلامی کلچر کی بھرپور نمائندہ ہے۔ اس زبان نے تحریک پاکستان کے دوران بھی
جو اہم کردار ادا کیا وہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس زبان نے اپنوں اور
بیگانوں کی بلاتفریق رنگ و نسل دل کھول کر خدمت کی۔ بوقت ضرورت سب نے اس کے
سائے میں پناہ لی۔ اردو زبان نے سب کو کشادہ دلی کے ساتھ اپنے سینے سے
لگایا اور کبھی بھی تنگ دامن نہ نکلی۔ مختصر یہ ہے کہ اردو زبان نے سب کے
ساتھ وفا کی مگر افسوس ’’سب ‘‘ اس کے لیے بے وفا ثابت ہوئے۔ جیسا کہ ہم سب
جانتے ہیں کہ عربی قبل از اسلام بھی رائج تھی مگر اردو عہد اسلام میں پھلی
پھولی۔ اس لیے اسے اسلامی ثقافت کی زبان کہنا ناروا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں
کہ اردو زبان کو یہ فخر حاصل ہے کہ جتنا اسلامی لٹریچر اس میں سمایا ہوا ہے
کسی اور زبان میں نہیں۔ اردو ہی ہمارے مخصوص اسلامی کلچر کی حامل ہے۔ خوش
قسمتی سے ہماری اسلامی روایات ثقافت اور آداب معاشرت کی نہ صرف وارث ہے
بلکہ ہماری قومی زبان ہونے کی بھی دعویدار ہے۔ زبان کا لقب اس زبان کو زیب
دیتا ہے جس کی وساطت سے تعلیم و تدریس کا نظام قائم ہو اور جو ایک ملک کے
نظم و نسق کے اداروں اور عدالتوں کی دفتری زبان ہو۔ یہ بات بھی بڑی واضح ہے
کہ اردو زبان میں اتنی زیادہ قوت جذب اور وسعت نظر ہے کہ حسب ضرورت اس میں
ہر زبان کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو قومی زبان سے کسی بھی
علاقائی زبان کی رقابت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر علاقائی زبان کا اپنے
اپنے ملک میں دائرہ عمل واضح طور پر متعین ہے اور یہ سب علاقائی زبانیں ایک
ہی ثقافتی نصب العین اور ایک ہی دستور حیات کی ترجمان ہیں اور ہماری قومی
زبان کے لیے بڑی قوت کا سرمایہ ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں ایک
مخصوص اور محدود مگر مؤثر گروہ ایک غیر ملکی زبان کے سحر میں گرفتار ہے
اور اس کی ترویج میں مسلسل کوشاں ہے۔ اصل میں حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب
کی اندھا دھند تقلید نے ہمیں دین سے بہت دور کر دیا ہے۔ آج ہم ’’ماڈرنزم‘‘
کی آڑ میں بے حیائی ، بدقماشی اور عریانی کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ اپنی
قومی زبان اردو کے برعکس انگریزی تہذیب اور زبان و کلچر کو فروغ دے رہے
ہیں۔نفسانفسی ، بے حسی اور خود غرضی کے اس د ور میں نہ کسی کو مذہب کی فکر
ہے اور نہ ثقافت عزیز ہے۔ افسوس کہ ہم دین کی بجائے انگریزی تہذیب و زبان
اور کلچر کو اپنانا باعثِ فخر گردانتے ہیں کیونکہ ہمیں اس کلچر میں بے راہ
روی اور عیاشیوں کے سامان وافر مقدار میں میسر ہیں۔ دوسری طرف غور سے جائزہ
لیں کہ تقوی‘، عفت و عصمت ، حمیت و غیرت ، شرم و حیا، ایمان ، علم ، اخوت
اور اس طرح ہزاروں الفاظ جو کہ ایک مسلمان کی زندگی کا حصہ اور اس کے لیے
مشعلِ راہ ہیں ان کو اپنا کر ہی ایک مسلمان حقیقی معنوں میں مردِ مومن کہلا
سکتا ہے۔ لیکن انگریزی زبان اپنے مخصوص کلچر کی بنا پر مسلمانوں کی ان
کیفیات اور احساسات کو ادا کرنے کے لیے اپنے دامن میں الفاظ ہی نہیں رکھتی
کیونکہ انگریزی زبان جس سیاسی ، معاشرتی ، مذہبی اور ثقافتی ماحول میں
پروان چڑھی ہے وہاں تقویٰ کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ذرا دل و دماغ سے
سوچئے کیا انگریزی زبان کے ماحول میں مسلمانوں کے بچے اسلامی نظام حیات کو
اپنانے میں قطعی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ انگریزی زبان کے الفاظ اردو کے مقابلے
میں قطعی تنگ اور کم مایہ ہیں۔ وہ مسلمانوں کے فکر و خیال کو گمراہی اور بے
راہ روی کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی تہذیب کے حامل افراد کی
قومی زندگی منتشر اور پراگندہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اسلامی اقدار اور روایات
کے اظہار کے لیے جس ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے انگریزی
زبان اس سے یکسر قاصر ہے۔
|