ارشاد ربانی ہے :’’ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ
ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔ اس آیت میں ان
لوگوں کی صفات بیان کی گئی ہیں جو نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہیں ۔ امت محمدیہ ﷺ
میں بہت کم لوگوں کو آپؐ کی صحبت کا شرف حاصل ہوا لیکن کون ایسا امتی ہے
جو نبی مکرمؐ کے ساتھ نہیں ہے۔حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ والا صفات پر اپنی جان
چھڑکنے والوں کی بابت ارشادِ رسولؐ ہے۔”میری امت میں بہت چاہنے والے میرے
وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد پیدا ہوں گے۔ ان میں سے کوئی یہ خواہش رکھے گا
کاش! اپنے گھر والوں اور مال سب کو صدقہ کرے اور مجھ کو دیکھ لے۔“ یہ سعادت
ہم جیسے بعد والوں کا مقدر بن سکتی ہے بشرطیکہ ہم اس کی سعی کریں ۔ ایک
مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے قبرستان کے اندر فرمایا: ”سلام ہے تم پر گھر ہے
مسلمانوں کا اوراگراللہ چاہے توہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ میری آرزو ہے
کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں۔“ صحابہ ؓ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہم آپ
کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم تو میرے اصحاب ہو اور بھائی ہمارے
وہ لوگ ہیں جو ابھی دنیا میں نہیں آئے۔“اس رشتۂ اخوت کا تقاضہ ہے کہ ہم
بھی اپنے اندروہ صفات پیدا کریں جس کا ذکر اول الذکر آیت میں ہے بقول
اقبال؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
مومن کی ان مطلوبہ صفات کے برعکس مسلم حکمرانوں کا عجب حال ہے کہ کوئی سب
سے بڑے عالمی دہشت گرد اسرائیل کے سربراہ کا سرخ قالین بچھا کر استقبال
کرتا ہے اور کوئی تبلیغی جماعت جیسی اللہ والی تنظیم پر دہشت گردی کا الزام
لگاتا ہے۔ سرزمینِ حجاز پر جہاں ایک طرف دنیا بھر کے ناچنے گانے والوں کو
بلا کر رقص و سرودکی محفلوں کا اہتمام کیا جانے لگا ہے تو دوسری جانب خطبہ
ٔ جمعہ کے اندر تبلیغی جماعت کے خلاف دشنام طرازی کا طوفان اٹھایا جارہا ہے۔
عرب حکمرانوں کی یہ حرکات قرآن مجید کےمذکورہ آیت کی کھلی خلاف ورزی ہے
اور غضب خداوندی کو دعوت دینے والی ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ پابندی ابھی لگی
ہے بلکہ خلیجی ممالک میں تو ہمیشہ سے دینی تنظیموں پر پابندی رہی ہے لیکن
فحاشی اور عریانیت پر بھی کسی قدر قدغن تھی ۔ اب یہ ہورہا ہے کہ اباحیت کے
دروازے تو کھولے جارہے ہیں اور تبلیغ و اصلاح معاشرہ کو دہشت گردی کا
دروازہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ اخوان المسلمون سے شروع ہوا اور اب
تبلیغی جماعت تک پھیل گیا۔ اس بہتان طرازی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
دنیا بھر کے مسلمان تبلیغی جماعت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو اس لیے بھی
محسوس کرتے ہیں کیونکہ فرمانِ رسول ﷺہے:’’مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے
سے محبت کرنے ایک دوسرے کے ساتھ رحم کھانے میں ایک دوسرے کے ساتھ شفقت کرنے
میں ایک جسم کے مانند ہے جب اس کا ایک عضو بیمار ہوجاتا ہے تو سارا جسم اس
کے لیے بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔‘‘ یہی ہمدردی و غمخواری
دراصل حیاتِ ملی کی علامت ہے وگرنہ یہ جسدِ مردہ کہلائے۔ تبلیغی جماعت کے
بارے میں دو باتیں بار بار کہی جاتی ہیں اول تو یہ کہ وہ ایک غیر سیاسی
تحریک ہے۔ یہ بات درست تو ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سیاسی تنظیموں
پر پابندی لگاناجائز ہے اور ان کو دہشت گرد ٹھہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
محض فکری یا عملی اختلاف کی بنیاد پر کسی بھی پرامن تحریک کوحقیر ، باطل یا
دہشت گرد قرار دے دینا نہ صرف عدم رواداری بلکہ ایک طرح کی دہشت گردی ہے۔
ویسے تبلیغی جماعت کوئی کمزوراجتماعیت نہیں ہے۔ سعودی کی کل آبادی سے زیادہ
اس کے احباب ہیں۔ ہندوستان کے اندر اس کے خلاف کورونا جہاد کے نام سے چلائی
جانے والی مذموم کوشش کو وہ شکست دے چکی ہے۔ مختلف عدالتوں نے اس کے
مخالفین کو پھٹکار سنائی ہے اور اس پروپگنڈے کاتبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر
کوئی خاص منفی اثر نہیں پڑا۔ اس لیے سعودی حکومت کی دشنام طرازی سے تبلیغی
جماعت کا نہیں بلکہ اس کا اپنا نقصان ہوگا۔ دنیا میں اس کی ساکھ کمزور ہوگی
۔ عصرِ حاضر میں ایسی حماقت اپنے پیروں پر کلہاڑی چلانے کےمترادف ہے۔
|