قَدرِ داؤد و سلیمان اور اقتدارِ داؤد و سلیمان !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ سَبا ، اٰیت 10 تا 14 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولقد
اٰتینا داؤد منا
فضلا یٰجبال اوّبی معه
والطیر والناله الحدید 10 ان
اعمل سٰبغٰت وقدر فی السرد واعملوا
صالحا انی بما تعملون بصیر 11 ولسلیمٰن الریح
غدوھا شھر ورواحھا شھر واسلناله عین القطر ومن الجن
من یعمل بین یدیه باذن ربه ومن یزغ منھم عن امرنا نذقه من عذاب
السعیر 12 یعملون له مایشاء من محاریب وتماثیل وجفان کالجواب وقدور
رٰسیٰت اعملوااٰل داؤد شکرا وقلیل من عبادی الشکور 13 فلما قضینا علیه الموت ما
دلھم علٰی موته الّا دابة الارض تاکل منساته فلماخر تبینت الجن ان لو کانوایعلمون الغیب
مالبثوا فی العذاب المھین 14
ھم نے داؤد کو یہ قدر و منزلت دی تھی کہ ھم نے پہاڑوں اور طیاروں کو بھی اُس کے ساتھ ہَم آہنگ ہونے کا حُکم دیا ہوا تھا اور ھم نے لوہا نرم کرنا ، اُس سے زرہیں بنانا اور اُن زرہوں کے حلقے جوڑنا بھی اُس کے لیۓ آسان بنا دیا تھا اور اُس کی اولاد کو اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرنے حُکم دیا تھا اور اُن کے اعمالِ کار پر ھم نظر رکھتے تھے اور ھم نے جس طرح داؤد کو پہاڑوں اور طیاروں پر پُوری قُدرت دی تھی اسی طرح داؤد کے جانشین سلیمان کو بھی ہواؤں پر قُدرت دے دی تھی اور وہ اپنے اِن ہوائی طیاروں کے ذریعے صُبح سے لے کر شام تک ایک ماہ کی مسافت طے کرلیتا تھا اور ھم نے اُس کے لیۓ تانبے کو پگھلانے اور تانبے کے چشمے بہانے کے لیۓ اُس کو اپنا ایک نادیدہ لشکر بھی دیا ہوا تھا جو اُس کے حُکم پر یہ کام کیا کرتا تھا اور اگر ھمارے اُس نادیدہ لشکر کا کوئی اہل کار سلیمان کے حُکم سے سرتابی کرتا تھا تو ھم اُس کو اُسی آگ کا مزہ چکھاتے تھے جس آگ سے وہ تانبہ پگھلایا کرتے تھے اور سلیمان کے یہی نادیدہ اہل کار سلیمان کے حُکم پر اونچی اونچی عمارات ، بڑی بڑی تصاویر ، بڑے بڑے حوض اور وہ بڑی بڑی وہ دیگیں بناتے تھے جو ایک جگہ سے اُٹھا کر دُوسری جگہ پر نہیں لیجائی جاسکتی تھیں اور ھم نے آلِ داؤد کو شکر ادا کرنے کا حُکم دیا تھا جو کم کم لوگ کم کم ہی ادا کرتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے داؤد علیہ السلام کا جو تاریخی تذکرہ سُورَہِ سبا کی اِن اٰیات میں کیا ھے اِس سے قبل اُن کا یہی تاریخی تذکرہ سُورَةُ البقرة کی اٰیت 251 ، سُورَةُالنساء کی اٰیت 163 ، سُورَةُالمائدہ کی اٰیت 78 ، سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 84 ، سُورَةُالاَنبیاء کی اٰیت 78 ، 79 اور سُورَةُالنمل کی اٰیت 15 و 16 میں بھی کیا ھے اور اسی طرح آپ کے جانشین سلیمان علیہ السلام کا جو تاریخی تذکرہ سُورَہِ سبا کی اِن اٰیات میں کیا ھے اِس سے قبل وہی تذکرہ سُورَةُالبقرة کی اٰیت 102 ، سُورَةُالنساء 163 ، سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 84 ، سُورَةُالاَنبیاء کی اٰیت 78 ، 79 ، 81 اور سُورَةُالنمل کی اٰیت 10 ، 16 ، 17 ، 18 ، 30 ، 36 اور اٰیت 44 میں بھی کیا ھے تاھم داؤد علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام کے شاہی اَقدامات کی پہلی طویل تفصیلات سُورَةُالنمل میں اور دُوسری طویل تفصیلات سُورَہِ سبا کے اسی مقام پر ہیں تاہَم اِس مضمون کی مزید تفصلات میں جانے سے پہلے ھم برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض کردیں کہ سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 6 ، سُورَہِ مریم کی اٰیت 74 ، 98 ، سُورَہِ صٓ کی اٰیت 3 اور سُورَہِ قٓ کی اٰیت 36 میں قُرآنِ کریم نے چونکہ عربی کے لفظِ "قرن" کا معنٰی وقت اور زمانہ مُتعین کردیا ھے اِس لیۓ سُورَہِ کہف میں جہاں پر ذوالقرنین کا ذکر آیا ھے وہاں پر ھم نے پُوری دلیل اور تفصیل کے ساتھ اِس اَمر کو واضح کر دیا ھے کہ "قرنین" سے مُراد نہ تو دو سینگ ہیں اور نہ ہی اِس سے مُراد ایران کا دو سینگوں والا کوئی بادشاہ ھے بلکہ اِس سے مُراد سلیمان علیہ السلام کے وہ اَدوارِ حکومت ہیں جن میں سے اُن کا ایک زمانہِ حکومت وہ ھے جس میں وہ اپنے والد داؤد علیہ السلام کے ساتھ شریکِ حکومت تھے اور دُوسرا زمانہِ حکومت وہ ھے جس میں وہ اپنے والد کے بعد اُس حکومت کے بذاتِ خود حکمران تھے اور سُورَةُالَنبیاء کی اٰیت 77 تا 81 میں اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد بھی گزر چکا ھے کہ سلیمان کے عھدِ حکومت میں ھم نے اُن آسماں بوس پہاڑوں کو بھی سلیمان کے زیرِ فرمان کیا ہوا تھا جن پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیوں پر اُس کے تیار کیۓ ہوۓ طیارے پرواز کیا کرتے تھے اور ھم نے اُن پہاڑوں کی طرح اُن ہواؤں کو بھی سلیمان کے لیۓ ہموار کیا ہوا تھا جن ہواؤں میں اُس کے ماہر ہوا باز اُن طیاروں کو اُڑا کر وسائلِ حیات سے بَھری بُھری دُور دراز کی سونا اُگلتی زمینوں تک لے جاتے تھے اور وہاں سے وہ سامانِ حیات لاتے تھے جس کی سلیمان کی مملکت میں ضرورت ہوتی تھی ، سُورَةُ النمل کی اٰیت 16 تا 19 میں اللہ تعالٰی نے داؤد و سلیمان کا جو مُشترکہ ذکر کیا ھے اُس مُشترکہ ذکر میں اللہ تعالٰی نے یہ بتایا ھے کہ داؤد و سلیمان کو ھم نے جو علمِ جہاں بانی عطا کیا تھا اُن دونوں نے ھمارے اُس علمِ جہاں بانی کا پُورا پُورا حق ادا کیا تھا اور داؤد کے بعد جب ھم نے عنانِ حکومت سلیمان کے سپرد کی تھی تو اُس نے اپنے پہلے خطاب میں اپنے ارکانِ حکومت کے سامنے ھمارے اِس اِنعامِ حکمرانی پر اِس طرح اظہارِ تشکر کیا تھا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے ایمان دار بندوں میں سے ہمیں زیادہ علم و فضل دیا ھے اور اُس نے اپنے ارکانِ حکومت سے یہ بھی کہا تھا کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں طیارہ سازی کا جو عظیم علمِ صنعت دیا ھے اُس علمِ صنعت کے استعمال کے سارے طریقے بھی ہمیں سکھا دیۓ ہیں اور اللہ تعالٰی نے ھم پر جو عظیم فضل و کرم کیا ھے اُس فضل و کرم میں عظیم تر علم و فضل طیارہ سازی کا یہی علم ھے جو اُس نے ہمیں دیا ھے اور اَب سُورَہِ سبا کی اٰیاتِ بالا میں اُن سلیمانی طیاروں کی یہ رفتار بھی بتادی ھے کہ وہ طیارے ایک دن میں ایک ماہ کی مسافت طے کر لیا کرتے تھے ، اِس موضوع کی گزشتہ و موجُود اٰیات میں آنے والی اصطلاحِ "طیر" سے عام پرندے مُراد لینے کی کوئی قابلِ فہم وجہ موجُود نہیں ھے کہ اِس سے صرف پرندے ہی مُراد لیۓ جا سکیں سواۓ اِس ایک وجہ کے کہ طیر و طیور اور طیار کا مصدر ایک ھے اور اِس ایک مصدر سے صادر ہونے والے لفظ سے طیارے مُراد لینا اِس لیۓ قابلِ ترجیح ھے کہ قُرآن نے ایک دن میں اُن کے ایک ماہ کی مسافت کا ذکر کر کے خود ہی اِس اَمر کی تصریح کردی ھے کہ اِس مصدر سے صادر ہونے والے طیر و طیور سے پرندے مُراد لینا اِس لیۓ قابلِ ترجیح نہیں ھے کہ قُرآن نے اِس کی تشریح نہیں کی ھے اور قُرآنِ کریم نے سلیمان علیہ السلام کے جن زمینی و سمندری لشکروں کو { جنود الجن والانس } کہا ھے اُس سے ایک تو اُن کا وہ لشکر مُراد ھے جو عموما اہلِ زمین کو زمین پر چلتا پھرتا نظر آتا تھا اور دُوسرا وہ لشکر مُراد ھے جو پسِ پردہِ آب ہونے کی وجہ سے عام طور پر عام انسانوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا تھا کیونکہ یہ سلیمان علیہ السلام کا وہ نادیدہ لشکر تھا جو سلیمان علیہ السلام کے حُکم پر آبِ سمندر میں غوطے لگاتا تھا اور سمندر کی تہوں سے قیمتی جواہرات نکال کر لاتا تھا اِس لیۓ جن اہلِ روایت نے اِن اٰیات میں آنے والے لفظِ جن سے اِنس کے مقابلے میں اللہ تعالٰی کی پیدا کی ہوئی نادیدہ مخلوق جن مُراد لی ھے اُنہوں نے خطا کی ھے اور اِس اَمر کی دلیل اسی اٰیت کا یہ مضمون ھے کہ جنوں کے اُس لشکر کا جو لشکری سلیمان علیہ السلام کی نافرمانی کیا کرتا تھا اُس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب دیا جاتا تھا اور جن مخلوق جو خود آگ سے بنائی گئی ھے اُس آگ سے بنی مخلوق کو ایک دُوسری آگ میں ڈالنا تو کوئی سزا نہیں ہوتی لیکن ایک انسان کو اُس آگ کے قرہب کر کے اُس آگ کو بھڑکانے پر لگانا بہر حال ایک سزا ہوتی ھے جو ایک انسان ہی کو دی جاسکتی ھے کسی جن کو ہر گز نہیں دی جا سکتی ، اہلِ روایت کے نزدیک دُوسری قابلِ اعتراض بات سلیمان علیہ السلام کا اپنے اُس لشکر سے تماثیل وغیرہ بنوانا ھے اور اہلِ روایت کہتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام کے اُن تماثیل سے معروف روایتی تماثیل ہی مُراد لینا صرف اسی صورت میں درست ہو سکتا ھے جب کسی دلیل سے یہ اَمر ثابت کر دیا جاۓ کہ اُس زمانے میں اُن روایتی تماثیل کا بنانا شرعی طور پر جائز ہوا کرتا تھا لیکن اِن عقل دشمنوں کو عقلِ عام کی یہ سادہ سی بات معلوم نہیں ھے کہ سُورج کے موجُود ہونے پر سورج کا ہونا ہی دلیل ہوتا ھے اور شارع عام پر چلنے کے لیۓ اُس شارع عام کا رواں ہونا ہی اُس پر چلنے کی دلیل ہوتا ھے اور اُس شارع عام پر چلنے کے لیۓ الگ سے کوئی دلیل درکار نہیں ہوتی لیکن اُس شارع عام پر نہ چلنے کے لیۓ دلیل در کار ہوتی ھے اور سلیمان علیہ السلام کے جس عمل کا قُرآن نے ذکر کیا ھے اگر وہ عمل ایک عملِ ممنوع ہوتا تو اُس کی مُمانعت کی دلیل قُرآنِ کریم ہی میں موجُود ہوتی جو موجُود نہیں ھے لہٰذا جو بات قُرآن میں موجُود ھے وہ درست ھے اور جو بات آپ کے اَذہان میں موجُود ھے وہ غلط ھے اور تیسری بات سلیمان علیہ السلام کی لاٹھی کو گُہن لگنا اور اُن کا کر گر فوت ہوجانا ھے ، سوال یہ ھے کہ قُرآن میں یہ کہاں لکھا ہوا ھے کہ اُن کے وہاں پر کھڑے کھڑے ہی اُن کی لاٹھی کو یہ گُہن لگا تھا جس سے وہ گر گئی تھی اور جس کے گرنے سے آپ بھی گر پڑے تھے ، لکڑی کی لاٹھی کو گُہن ہمیشہ اندر سے لگتا ھے اور ایک وقت سے ایک وقت تک لگتے لگتے ہی لگتا ھے اور اِس لاٹھی کو بھی یہ گُہن اندر سے لگا تھا اور لگتے لگتے ہی لگا تھا اور ایک روز جب آپ اُس گُہن زدہ لاٹھی کے سہارے پر کھڑے ہوۓ تھے تو وہ لاٹھی گر پڑی تھی اور آپ بھی فوت ہونے کے باعث اُس کے ساتھ ہی گر پڑے تھے ، اگر آپ طویل مُدت سے وہاں پر فوت شدہ حالت میں کھڑے ہوتے تو اِس طویل عرصے میں کسی آتے جاتے انسان کو کیوں نہ نظر آتے اور اتنے طویل زمانے تک آپ کے اہلِ خانہ اور آپ کے اَرکانِ سلطنت آپ سے کس طرح بیخبر کے بیخبر رہتے اور آپ کی موت پر اگر وہ جن تبصرہ کرتے جن کے بارے میں آپ کا یہ گمان ھے کہ وہ انسان کے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں تو اُن جنوں کو آپ کے جسم تک رسائی کیوں نہیں ملی تھی اور اُنہوں نے اُن کے گرنے سے پہلے ہی یہ کیوں نہیں جان لیا تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں اور پھر وہ جن آپ کی موت پر تصبرہ کرتے ہوۓ آپ کی موت کو ذلت کی موت کیوں کہتے ، یہ تبصرہ تو کوئی ایسا انسان بد تمیز انسان ہی کر سکتا تھا جو آپ کے حُکم پر کام کرنے کا تو پابند تھا لیکن وہ آپ پر ایمان نہیں لایا تھا لیکن اُس کی یہ بات بالکُل درست تھی کہ سلیمان علیہ السلام عالم الغیب نہیں تھے ، عالم الغیب صرف اللہ تعالٰی ھے ، اُس کے سوا کوئی بھی عالم الغیب نہیں ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467340 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More