#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ سبا ، اٰیت 15 تا 21 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
لقد
کان لسبا
فی مسکنھم
اٰیة جنتٰن عن یمن
و شمال کلوا من رزق
ربکم واشکرواله بلدة طیبة
ورب غفور 15 فاعرضوا فارسلنا
علیھم سیل العرم و بدلنٰھم بجنتیھم
جنتین ذواتی اکل خمط واثل و شئی من سدر
قلیل 16 ذٰلک جزینٰھم بما کفروا وھل نجٰزی الاالکفور
17 وجعلنا بینھم و بین القری التی بٰرکنا فیھا قری ظاھرة و
قدرنا فیھا السیر سیروا فیھا لیالی وایامااٰمنین 18 فقالواربنا بٰعد
بین اسفارنا وظلمواانفسھم فجعلنٰھم احادیث ومزقنٰھم کل ممزق ان فی
ذٰلک لاٰیٰت لکل صبار شکور 19 ولقد صدق علیھم ابلیس ظنه فاتبعوه الا فریقا
من المؤمنین 20 وماکان له علیھم من سلطٰن الا لنعلم من یؤمن بالاٰخرة ممن
ھومنہا
فی شک وربک علٰی کل شئی حفیظ 21
قومِ سبا کی بستی کی دائیں اور بائیں جانب ھمارے لگاۓ ہوۓ دو باغات کی صورت
میں اُس کے لیۓ ھماری ایک نشانی موجُود تھی اور ھم نے اُس قوم کو اجازت دی
ہوئی تھی کہ تُم خوش دلی کے ساتھ اِن باغات کے پَھل کھاکر اللہ کا شکر
بجالاؤ اور اپنے شہر کو گندگی سے بچاؤ لیکن قومِ سبا ھمارے اِن اَحکام سے
مُتواتر سرکشی کرتی رہی یہاں تک کہ ھم نے اُس پر پانی کا بند توڑ کر سیلاب
بھیج دیا اور اِس بربادی کے بعد اُس کو زندہ رکھنے کے لیۓ اُس کو روزی کا
جو ذریعہ فراہم کیا اُس میں صرف اُجڑے پُجڑے وہ دو باغ تھے جن میں زیادہ تر
تو جھاڑ جھنکاڑ ہی اُگتا تھا اور اُن میں جو چند پھل دار درخت تھے تو اُن
پر بھی ایک بدذائقہ سا پَھل آتا تھا ، یہ اُس سرکش قوم کی اُس سرکشی کی سزا
تھی جو طویل عرصے سے اُس قوم نے اختیار کر رکھی تھی ، اِس سزا سے پہلے جب
ھم نے اُس قوم کی بستیوں کو برکت دی تھی تو اُس کی بڑی بستیوں کی درمیان
بھی چھوٹی چھوٹی بستیاں بسادی تھیں جن کے درمیان اُس قوم کے افراد دن رات
آسانی کے ساتھ آتے جاتے رہتے اور ایک دُوسرے سے ملتے ملاتے رہتے تھے لیکن
جب اُس قوم نے شکر کے بجاۓ ناشکری اختیار کرلی اور معاشرتی اُونچ نیچ پیدا
کرکے باہمی قُربت کے بجاۓ باہمی دُوری چاہی تو ھم نے اُس کے دلوں کی طرح
اُس کی بستیوں کو بھی دُور دُور کرکے اُن کی آمد و رفت کی مسافت کو بڑھا
دیا اور جب اِس کے بعد بھی وہ قوم طبقاتی تفریق سے باز نہیں آئی تو ھم نے
اُس کی جمعیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے تاریخ کی ایک بُھولی بسری ہوئی کہانی بنا
دیا ، اِس قوم کی اِس کہانی میں ھم نے اہلِ زمین کی صابر و شاکر اقوام کے
لیۓ زمین پر آباد رہنے کے سارے اَسباق اور زمین میں برباد ہونے کے سارے
اَسباب جمع کردیۓ ہیں تاکہ جس قوم نے ابلیس کا شکار ہونے سے بچنا ھے وہ
ضرور بچ جاۓ لیکن اَمرِ واقعہ یہی ھے کہ ابلیس نے اس قوم کو برباد کر کے
انسان کو گُم راہ کرنے کا اپنا اَزلی وعدہ سَچا کر دکھایا اور اُس قوم کے
چند ایمان دار اَفراد ہی ابلیس کی اُس تلبیس سے بچ سکے تھے حالانکہ ابلیس
کے پاس انسان کو گُم راہ کرنے کا ایک مُجرد ارادہ ہی تھا جس پر عمل کرانے
کا اُس کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا لیکن اُس کے ہاتھوں سے جو کُچھ ہوا ھے
اُس میں ھم نے دیکھ لیا ھے کہ اِس قوم کے کتنے لوگ یومِ حساب پر یقین رکھتے
ہیں اور کتنے لوگ شک میں مبتلا ہیں اور انسانی مزاج کے اِس مشاھدہِ عبرت کے
بعد خالقِ عالَم نے اہلِ عبرت کے لیۓ اُس قوم کے اُن سبق آموز اَحوال کو
اپنی اِن اٰیاتِ ھدایت میں محفوظ کردیا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں قومِ سبا کے اَحوال و ظروف کے بارے میں
اپنا جو الہامی بیانیہ جاری کیا ھے اُس الہامی بیانیۓ کو ھم نے اٰیاتِ بالا
کے مفہومِ بالا میں بیان کرنے کی پُوری کوشش کی ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ
قُرآنِ کریم اپنے مُجمل انداز میں تاریخ کے جو مُفصل اَحوال بیان کرتا ھے
انسانی زبان کی داماندگی و پسماندگی اُن اَحوال کو اُسی طرح اخذ و بیان
کرنے سے ہمیشہ ہی قاصر رہتی ھے جس طرح اُن اَحوال کو اخذ و بیان کرنا مطلوب
ہوتا ھے اِس لیۓ انسان کو قُرآن کے اکثر و بیشتر مقامات پر انسانی تاریخ کے
اُن روایتی و غیر روایتی اَحوال کی مدد لینی پڑتی ھے جو انسان کی معلوم
تاریخ کے حوالے سے معروف و مُعتبر ہوتے ہیں اور انسانی تاریخ کے اُن چند
معروف حوالوں کے مطابق سبا عرب کا ایک عرب شخص تھا جس کی نسل میں کِندہ و
حمیر ، ازد و انمار اور اشعریین کے وہ قبائل پیدا ہوۓ تھے جن کا 2500 قبل
مسیح کے کتبات کے علاوہ بابل و بائبل کے اُن مندرجات میں بھی ذکر ملتا ھے
جن کو خواہی و ناخواہی انسان آج تک نقل کرتا آرہا ھے ، اِن کتبات و کتب کے
مطابق قومِ سبا کا مسکن جنوب مغربی عرب کا وہ گوشہ تھا جو آج یمن کے نام سے
مشہور ھے ، اِس علاقے اور اِس علاقے کی اِس قوم کے عروج کا دور 1100 برس
قبل مسیح کا وہ دور تھا جو دور زمین پر داؤد و سلیمان علیہما السلام کا ایک
علمی و عملی دور تھا ، اہلِ تاریخ کے مطابق قومِ سبا ایک آفتاب پرست قوم
تھی اور اِس کی ایک خاتون حکمران ملکہِ سبا 965 و 926 قبل مسیح کے درمیانی
زمانے میں سلیمان علیہ السلام پر ایمان لانے کے بعد اپنی قوم اور اپنے وطن
سمیت سلیمان علیہ السلام کی قلمرو میں شامل ہوگئی تھی لیکن بعد کے کسی
نامعلوم زمانے میں اِس قوم میں شرک و بُت پرستی کی وہی وبا پھیل گئی تھی جو
پہلے بھی اِس میں موجُود رہی تھی لیکن اِس بار شرک و بُت پرستی کی اُس تازہ
وبا نے اُس قوم کو اُس بدترین اَنجام تک پُہنچا دیا تھا جس بدترین اَنجام
کا قُرآنِ کریم نے کُچھ ذکر سُورَةُالنمل میں کیا ھے اور کُچھ ذکر اٰیاتِ
بالا میں کیا ھے ، ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو قومِ سبا کے بارے میں تاریخ کے
جو کم و بیش تین ہزار کتبات دستیاب ہوۓ ہیں اُن کتبات اور تاریخ کے دیگر
مُیسر حوالہ جات سے اُن کو جو معلومات دستیاب ہوئی ہیں اُن معلومات کے
مطابق قومِ سبا کا پہلا دور 650 قبل مسیح کا وہ دور تھا جب اِس قوم کے
حکمران مُکرب کہلاتے تھے جو غالبا مُقرب کا ایک بگڑا ہوا تلفظ تھا اور یہ
حکمران انسان اور خدا کے درمیان خود کو ایک رُوحانی واسطہ قرار دے کر
انسانوں پر اپنا حقِ حکمرانی ثابت کیا کرتے تھے ، 650 قبل مسیح سے 115 قبل
مسیح میں قومِ سبا کے اِن حکمرانوں نے مُکرب کا لقب ترک کر کے اپنے لیۓ
بادشاہ کا لقب اختیار کر لیا تھا اور 115 قبل مسیح سے لے کر 300 عیسوی کے
تک کے زمانے میں قومِ سبا پر قبیلہِ حمیر غالب آگیا تھا جو قومِ سبا ہی کا
ایک طاقت ور قبیلہ تھا اور اِس کا دارالحکومت ریدان مقرر ہوا تھا جو حمیر
کا مرکز تھا لیکن پھر اِس قوم کا 300 عیسوی میں عروج کے بعد جو زوال شروع
ہوا تھا وہ دورِ اسلام کے ظہور تک جاری رہا تھا ، قومِ سبا کے زوال کے اِس
زمانے میں اِن کے درمیان حصولِ اقتدار کی جو طویل جنگیں اُن کے ریدانی و
حمیری اور ہمدانی قبائل کے درمیان برپا ہوتی رہی تھیں اُن قبائلی جنگوں کی
وجہ سے بیرونی قوموں نے بھی اُس کی حدودِ مملکت میں مداخلت شروع کردی تھی
جس مداخلت کی وجہ سے پہلے اُس قوم کی زراعت و تجارت ختم ہوئی تھی اور بعد
ازاں وسائلِ معاش سے محروم ہونے والی اُس قوم کی آزادی بھی ختم ہو گئی تھی
یہاں تک کہ 340 عیسوی سے لے کر 378 عیسوی کے زمانے میں یمن پر اُن وحشی
حبشیوں کا قبضہ ہو گیا تھا جن کے ایک سردار نے ولادتِ نبوی سے قبل کعبة
اللہ پر حملہ کیا تھا ، ہر چند کہ کُچھ عرصے بعد جب اُس قوم کو غلامی سے
آزادی نصیب ہوئی تھی تو 450 یا 451 عیسوی میں اِس قوم پر اُس قوم کا وہ
عظیم آبی بند ٹوٹ گیا تھا جس کا قُرآن نے اٰیاتِ بالا میں ذکر کیا ھے اور
اُس ذکر میں اُس قوم کی اُس قوم کی تباہی و بربادی کے وہ نادیدہ اَسباب
بیان کیۓ ہیں جن سے اہلِ تاریخ بیخبر ہیں اور قُرآن کے بیان کیۓ ہوۓ اِن
اَسباب سے معلوم ہوتا ھے کہ اَقوام عالَم کے عروج و زوال کے حقیقی اَسباب
وہ ظاہری اَسباب نہیں ہوتے جن ظاہری اَسباب کو اُن اَقوام کے سیاسی و مذہبی
رہنما ظاہری نظر سے اپنے سیاسی اَحوال میں دیکھتے ، اپنے سیاسی اَحوال سے
سمجھتے اور اپنے سیاسی اَحوال کے مطابق بیان کرتے ہیں بلکہ اُن اَقوام کی
تباہی کے حقیقی آبادی اور حقیقی بربادی کے اَسباب وہ ہوتے ہیں جو اُن اقوام
میں خُدا کے قانُون کی تابع داری و عدمِ تابع داری سے پیدا ہوتے یا پھر ختم
ہوتے ہیں ، جو اَقوام اللہ تعالٰی کی زمین پر اللہ تعالٰی کے اَحکام کے
مطابق زندہ رہتی ہیں وہ اقوام زمین میں بقا پاتی ہیں اور جو اَقوام اللہ
تعالٰی کے اَحکام سے اعراض و رُوگردانی کرتی ہیں وہ اقوام زمین پر فنا کے
گھاٹ اُتار دی جاتی ہیں ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں قومِ سبا کو دیۓ
گۓ جن دو باغات کا ذکر کیا ھے اُن باغات کو قُرآن نے بالکُل اُسی طرح اُس
قوم کی دو آزمائشی جنتیں کہا ھے جس طرح سُورَةُ الکہف کی اٰیت 33 میں ایک
خاص زمانے کے دو خاص اَفراد کے دو باغات کو اُن دو افراد کی دو آزمائشی
جنتیں کہا ھے ، اِن دونوں انفرادی اور اجتماعی تمثیلات سے ایک تو انسان کو
جنت کا ایک منظر دکھانا مقصود ھے اور دُوسرا انسان کو اِس بات کی تعلیم
دینا بھی مقصود ھے کہ انسان نے اپنی علمی اہلیت اور اپنی عملی صلاحیت سے
پہلے اپنی اِس زمینی دُنیا کو جنت بنانا ھے اور اُس کے بعد اُس جنت کی
اُمید رکھنی ھے جو انسان کو اِس عملی زندگی کے بعد ایک دُوسری عملی زندگی
میں اُس کے اعمالِ دُنیا کے بدلے میں ملنی ھے اور منطقی اعتبار سے اِس کا
مطلب یہ ھے کہ علمِ مطلوب اور عملِ مطلوب کے بغیر انسان کو اِس دُنیا میں
بھی کوئی جنت نہیں ملتی اور اُس دُنیا میں بھی کوئی جنت نہیں ملتی !!
|