#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ سبا ، اٰیت 22 تا 30
{{{{{{ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
ادعواالذین
زعمتم من دون
اللہ لایملکون مثقال
ذرة فی السمٰوٰت ولا فی
الارض ومالھم فیھما من شرک
ومالھم من ظھیر 22 ولاتنفع الشفاعة
عنده الا لمن اذن له حتٰی اذا فزع عن قلوبھم
قالوا ماذا قال ربکم قالواالحق وھوالعلی الکبیر 23
قل من یرزقکم من السمٰوٰت والارض قل اللہ و انا او ایاکم
لعلٰی ھدی او فی ضلٰل مبین 24 قل لاتسئلون عما اجرمنا ولا
نسئل عما تعملون 25 قل یجمع بیننا ربنا ثم یفتح بیننا بالحق وھو
الفتاح العلیم 26 قل ارونی الذین الحقتم به شرکاء کلا بل ھواللہ العزیز
الحکیم 27 وما ارسلنٰک الا کافة للناس بشیرا و نذیرا ولٰکن اکثرالناس
لایعلمون
28 ویقولون متٰی ھٰذاالوعد ان کنتم صٰدقین 29 قل لکم میعاد یوم لاتستاخرون
عنه
ساعة ولاتستقتدمون 30
اے ھمارے رسُول ! زمین و آسمان اور مخلوقِ زمین و آسمان کے سارے ارکان اپنے
خالق کے اختیار و اقتدار کی تابع داری کر رھے ہیں اِس لیۓ زمین کے جو انسان
اپنے خالق کے بجاۓ اپنے خیال کی خیالی ہستیوں کے اختیار کی تابع داری کر
رھے ہیں آپ اُن سب انسانوں سے کہہ دیں کہ تُم لوگ اپنے گمان سے اللہ کے سوا
اپنی جن خیالی ہستیوں کے اقتدار و اختیار کو تسلیم کرتے ہو تُم اُن ہستیوں
سے کہو کہ وہ زمین و آسمان اور اَشیاۓ زمین و آسمان کے کسی ایک ذرے پر بھی
اپنا اقتدار و اختیار ثابت کریں کیونکہ وہ اِس عالَم کے ایک ذرے پر ایک ذرے
کے برابر بھی اختیار نہیں رکھتے کُجا یہ کہ وہ اللہ کے اقتدار میں شامل ہوں
یا عالَم کا نظام چلانے میں اُس کے معاون و مدد گارہوں جیسا کہ تُم گمان
کرتے ہو ، اللہ کے اقتدارِ ذات و اختیارِ ذات کا تو یہ عالَم ھے کہ اُس کی
مخلوق کے کسی فرد کا اُس کی مخلوق کے کسی فرد کے لیۓ ایک کلمہِ سفارش کہنا
بھی مُمکن نہیں ھے سواۓ اِس کے کہ وہ خود ہی کسی کو کسی کے لیۓ لب کشائی کی
اجازت دے دے اور جن لوگوں کو تُم لوگ اللہ کے مقابلے میں اقتدار و ختیار کا
مالک سمجھتے ہو وہ بیچارے تو بذاتِ خود ایک ایسی گبراہٹ میں مبتلا ہیں کہ
وہ جب کبھی بھی اُس گبراہٹ سے باہر آتے ہیں تو ایک دُوسرے سے سوال کرتے ہیں
کہ اللہ نے اُن کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ھے اور پھر وہ خود سے خود ہی خود
کلامی کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ اللہ کی عالی مرتبت ذات نے جو کُچھ بھی کہا ھے
اور جو کُچھ بھی کیا ھے وہی حق اور وہی سچ ھے ، آپ اِن مُنکرینِ حق سے
پُوچھیں کہ زمین و آسمان کی مخلوق کو کون سامانِ حیات دے رہا ھے تو وہ یہ
بات سن کر ہی گُنگ ہو جائیں گے اور اِس حال میں آپ خود ہی اُن کو بتائیں کہ
وہ اللہ ھے جو ہر مقام پر اپنی ہر مخلوق کو روزی فراہم کرتا ھے اور آپ اُن
کو یہ بات بھی باور کرادیں کہ تُم میں سے کون اُس کی ھدایت پر قائم ھے اور
کون اپنی جہالت پر کھڑا ھے اِس کا فیصلہ بھی اُس نے تُمہارے نتائجِ اعمال
کے مطابق خود کرنا ھے اور اِس فیصلے کے لیۓ اُس نے ھمارے کسی جرم کے بارے
تُم سے کوئی سوال نہیں کرنا اور تُمہارے کسی جرم کے بارے ھم سے بھی کُچھ
نہیں پُوچھنا ، آپ یہ بات بھی اِن کو بتا دیں کہ اُس کے یہ حتمی فیصلے اُس
دن ہوں گے جس دن وہ ھم سب کو اپنی عدالت انصاف میں جمع کرے گا اور ھم میں
سے ہر ایک کا اُس کے عمل کے مطابق حساب و احتساب کرے گا ، آپ اِن مَن کے
مُنکروں سے یہ بھی کہیں کہ جن ہستیوں کو تُم نے اپنے حکمت کار اور عزت دار
اللہ کے مقابلے میں اپنا حاجت روا بنا رکھا ھے اِک ذرا مُجھ کو بھی تو اُن
کا چہرہ دکھاؤ تاکہ میں بھی تو دیکھوں کہ اُن میں کون کتنے پانی میں ھے
لیکن وہ آپ کو بَھلا کیا بتائیں گے اِس لیۓ آپ ہی اُن کو بتائیں کہ اِس
عالَم میں قُوت و قُدرت اور اقتدار و اختیار کا مالک صرف ایک اللہ ھے ، آپ
کو اِن سب لوگوں کے ساتھ یہ سب باتیں کرنے کا حُکم اِس لیۓ دیا گیا ھے کہ
ھم نے آپ کو تمام اہلِ زمین کے لیۓ اپنا وہ نمائندہ بنایا ھے جس نے ہر
انسان کو اُس کے مُثبت عمل پر مُثبت نتائج کی خوش خبری دینی ھے اور ہر
انسان کو اُس کے مَنفی عمل کے مَنفی نتائج سے بھی خبردار کرنا ھے اور جو
لوگ ثبوتِ حق کے لیۓ قیامت کے قائم ہونے کا وقت معلوم کرنا چاہتے ہیں تو آپ
اُن پر واضح کردیں قیامت نے اپنے مقررہ وقت سے ایک لَمحہ پہلے یا بعد میں
نہیں آنا ھے بلکہ اُس مقررہ وقت پر آنا ھے جو اللہ نے مقرر کیا ھے اور جس
کا اللہ ہی کو علم ھے اور اللہ کے سوا کسی کو بھی علم نہیں ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا میں بھی قُرآنِ کریم کے مقصدی موضوعِ سُخن کے طور پر توحید ہی
کا وہ مُستقل بالذات آموختہ دُہرایا گیا ھے جو مُستقل بالذات آموختہ قُرآن
کے مقصدِ نزول کے آموختے کے طور پر قُرآن میں اِس سے پہلے بھی بار بار
دُہرایا گیا ھے اور اِس کے بعد بھی بار بار دُہرایا جاۓ گا لیکن اٰیاتِ
بالا کے اِس مقام پر مِن جُملہ دیگر باتوں کے جو تین باتیں زیادہ توجہ طلب
ہیں اُن میں سے پہلی بات یہ ھے کہ 9 اٰیات کے اِس مُختصر مضمون میں سیدنا
محمد علیہ السلام کو توحید کی یہ تعلیم 6 اَحکامِ "قل" کے ساتھ 6 بار
دُہرانے کا جو حُکم دیا گیا ھے وہ اِس بات کی ایک قوی دلیل ھے کہ اللہ
تعالٰی کا کلامِ وحی صرف قُرآن ھے کیونکہ اگر سیدنا محمد علیہ السلام پر
قُرآن کی اِس نازل ہونے والی وحی کے ساتھ کوئی اور وحی بھی نازل ہو رہی
ہوتی تو قُرآنِ کریم کے اِس مُختصر مضمون میں توحید کے اِس مُختصر مضمون کو
قُل کے اِس تکرار کے بغیر بیان کر دیا جاتا اور جو مضمون ایک قُل کے بعد
ایک دُوسرے ، تیسرے ، چوتھے اور پانچویں یا چھٹے قُل کا متقاضی ہوتا تو اُس
مضمون کو اُس دُوسری وحی میں بیان کیا جاتا اور یہی بات اِس بات کی دُوسری
دلیل ھے کہ اللہ تعالٰی کی نازل کی گئی وحی صرف قُرآن ھے اور اِس اَمر کی
تیسری دلیل یہ ھے کہ جس طرح اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ { مثله معه } کے
کسی عنوان سے کوئی دُوسری ذات اُس کی شریکِ ذات نہیں ھے اسی طرح اُس کے
رسُول کے ساتھ بھی { مثله معه } کی صورت میں کوئی دُوسرا رسُول بھی شریکِ
رسالت نہیں ھے اور اسی طرح اُس کے کلامِ ذات قُرآن کے ساتھ { مثله معه } کے
طور پر کوئی دُوسرا کلامِ وحی بھی شریکِ وحی نہیں ھے ، اِس مضمون میں
دُوسری توجہ طلب بات ھے یہ ھے کہ جس خداۓ لاشریک نے اپنی جو کتابِ لاشریک
اپنے جس عمل کے ذریعے اپنے رسولِ لاشریک پر نازل کی ھے اُس خداۓ لا شریک کا
وہ عمل ذات بذاتِ خود اِس بات کا متقاضی ھے کہ ایمان لانے کے بعد ہر ایک
ایمان دار انسان پر لازم ہو جاتا ھے کہ وہ قُرآن کے اِس نظریہِ توحید کے
مطابق اللہ تعالٰی کی ذات کو وحدهٗ لا شریک مانے اور وحدهٗ لا شریک منواۓ
اور قُرآن کے اِس نظریہِ رسالت کے مطابق وہ سیدنا محمد علیہ السلام کو اُن
کی رسالت میں وحدهٗ لاشریک مانے اور وحدهٗ لا شریک منواۓ اور وہ قُرآن کے
اِس نظریہِ ھدایت و اطاعت کے مطابق سیدنا محمد علیہ السلام پر نازل ہونے
والی اِس کتاب کو بھی کتابِ وحدهٗ لاشریک تسلیم کرے اور کتابِ وحدهٗ لاشریک
تسلیم کراۓ اِس لیۓ کہ نزولِ قُرآن کے بعد کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ھے
کہ وہ اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ کسی لات و منات اور کسی غوث و قطب کی
ہستی کو شریکِ اقتدار و اختیار تسلیم کرے یا شریکِ اقتدار و اختیارتسلیم
کراۓ اور کسی انسان کو یہ حق بھی حاصل نہیں ھے کہ وہ سیدنا محمد علیہ
السلام کی رسالت میں اپنے کسی امام و مجتھد کو شریکِ رسالت تسلیم کرے یا
شریکِ رسالت تسلیم کراۓ اور کسی انسان کو یہ حق بھی حاصل نہیں ھے کہ وہ
اللہ تعالٰی کے اِس کلامِ وحی کے ساتھ اپنے کسی امام یا مُجتھد کے کلام کو
شریکِ کلام تسلیم کرے یا شریکِ کلام تسلیم کراۓ اور تیسری بات جو توحید کے
اِس مضمون سے مُتبادر ہوتی ھے وہ یہ ھے کہ جس طرح غروب آفتاب کی نشان دہی
کے بعد شب کا ذکر کرنے کی ضروت نہیں ہوتی بلکہ شب کا سامنا کرنے کی ہی
ضرورت ہوتی ھے اور طلوعِ صبح کی نشان دہی کے بعد دن کا ذکرنے کی بھی حاجت
نہیں ہوتی بلکہ عملی طور پر اُس دن کا سامنا کرنے کی ضرورت ہوتی اسی طرح
قُرآنِ کریم میں قیامت کی نشان دہی کرنے کے بعد اُس کا وقت مُتعین کرنے کی
بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ہر انسان کو اُس کے آنے پر اُس کا سامنا کرنے کی
ضرورت ہوتی ھے ، ھم دیکھتے ہیں کہ قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم میں القیامة
کا 70 اور الساعة کا 48 بار جو ذکر کیا ھے وہ ذکر اللہ تعالٰی کی اِس آخری
کتاب کے سوا کسی اور الہامی کتاب میں اِس طرح موجُود نہیں ھے جس طرح اِس
الہامی کتاب میں موجُود ھے اور اللہ تعالٰی کی اِس آخری کتاب میں اِس کا
اِس طرح موجُود ہونا بھی اِس بات کا قرینہ ھے کہ وقت جو گزر رہا ھے اِس
گزرتے وقت کی طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب کی نشان دہی کی طرح قیامت کی بھی
صرف اتنی نشان دہی کر دینی کافی ھے جتنی نشان دہی قُرآنِ کریم نے کردی ھے
جہاں تک اُس وقت کے اُس آخری لَمحے کے آنے کا تعلق ھے تو اُس لَمحے کی
حقیقی ساعتِ ورُود مُتعین کرنے کی ضرورت نہیں ھے بلکہ اُس کے آنے پر اُس کا
سامنا کرنے کی ضرورت ھے اور اللہ تعالٰی کی زمین پر جس طرح اَقوامِ عالَم
کے انہدام کے بعد اقوامِ عالَم کے قیام کے اوقات اپنی ترتیب سے آتے رہتے
ہیں اور اقوامِ عالَم اُن اوقات کا سامنا کرتی رہتی ہیں اسی طرح زمین پر
آنے والی وہ آخری قیامت بھی کسی اَچانک آنے والے اَچانک لَمحے میں اَچانک
ہی آجاۓ گی اور انسان کو اُس کا اسی طرح سامنا کرنا ہوگا جس طرح انسان آج
تک زمین پر آنے والی دیگر چھوٹی اور بڑی قیامتوں کا سامنا کرتا رہا ھے اور
کر رہا ھے !!
|