تحریر: سید مزمل حسین
برطانوی حکومت سےجو کامیاب ادارے 1947ء میں پاکستان کے حصے میں آئے ، ان
میں محکمہ ڈاک ( جسے بعد میں پاکستان پوسٹ کا نام دیا گیا تھا)، بھی شامل
تھا۔ ریلوے اور دیگر ادارے بھی قابل ذکر ہیں ۔ مگر محکمہ ڈاک، ہمارے آج کے
اس کالم کا موضوع ہے اس لیے کہ پاکستان پوسٹ کے نام سے کام کرنے والا یہ
ادارہ کبھی پاکستان کا بہترین ادارہ کہلاتا تھا۔ لوگ محکمہ ڈاک کے لوگوں کی
محنت اور کام سے لگن کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ پاکستان پوسٹ نے مختلف اوقات
میں مختلف اسکیمیں روشناس کروائیں جن میں منی آرڈر اور سیونگ اکاؤنٹ قابلِ
ذکر ہیںمؤخر الذکر یعنی سیونگ اکاؤنٹ کا اجراء فروری 1990 میں حکومت
پاکستان کی منظوری اور ضمانت سے ہوا تھا ۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے
ڈاکخانوں میں لوگوں سے رقوم جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ پہلے لوگوں
نے بنکوں کو چھوڑ کر ڈاکخانوں میں رقوم جمع کروائیں ۔ ہر کھاتہ دار کو ایک
پاس بک جاری کی جاتی تھی جس پر رقم جمع اور نکلوائی جاتی تھی۔ ابتدائی
معاہدے کے مطابق ہر کھاتہ دار سے رقم تین سالہ میعاد کے لیے لیے جاتی تھی
اور ہر 06 (چھ) ماہ بعد کھاتہ دار کو منافع (اگرچہ وہ سود ہوا کرتا تھا)
دیا جاتا تھا۔
لیکن پھر پاکستان پوسٹ کسی کی نظر بد کا شکار ہو گیا۔ سال ڈیڑھ سال سے
ڈاکخانوں نے لوگوں کی جمع شدہ رقوم واپس کرنے میں پہلے تو ٹال مٹول سے کام
لینا شروع کیا اور اب رقوم واپس کرنے سے مکمل طور پر انکار شروع کر دیاہے ۔
اس سے پاکستان پوسٹ کی ساکھ بری طرح مجروح ہو رہی ہے ۔
لوگ اپنی ہی جمع شدہ رقوم واپس لینے کے لیے در بدر ہو رہے ہیں ۔ میری
ملاقات حال ہی میں ایک ایسے ہی کھاتہ دارسے ہوئی جن کا تعلق آزاد کشمیر کے
ضلع باغ سے ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد ملک سے باہر ہیں انہوں نے
اپنی محنت شاقہ سے بچت کر کے ایک ڈاکخانہ میں اسی لاکھ روپے جمع کروائے تھے
۔ گزشتہ ایک سال سے وہ اپنے والد کی جمع شدہ رقم کی واپسی کے لیے کوشا ں
ہیں ۔ مقامی ڈاکخانہ میں جہاں ان کا حساب ہے اور جس نے پاس بک جاری کی ہے
اور جس میں تمام جمعدشدہ رقم کا اندراج ہے ، انہیں مسلسل دھوکہ دینے کا
سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ مقامی ڈاکخانہ والے انہیں ڈویژنل آفس میں، ڈویژنل
آفس والے ریجنل آفس میں، اور ریجنل آفس والے ہیڈ آفس ، اسلام آباد میں
بھجنےق اور ذلیل و خوار کرنے کا عمل مسلسل ایک سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
ان صاحب نے مزید بتایا کہ ان کی والدہ شدید بیمار ہیں اور ان کے علاج کے
لیے رقم کی اشد ضرورت ہے لیکن پاکستان پوسٹ والے ان کی اپنی رقم ادا کرنے
کا نام تک نہیں لے رہے ۔ یہ ایک مثال نہیں ہے ۔ پورا ملک یہی فریاد کر رہا
ہے ۔
اس تحریر کے مخاطب محکمہ ڈاک کے بدبخت حکام نہیں ہیں۔ انہوں نے جو بے
ایمانی کرنا تھی کر لی، اس تحریر کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان، پوست آفس
کے کے انچارج وزیر مراد سعید اور ان سے بھی آگے بڑھ کر چیف جسٹس آف پاکستان
سے سوال ہے کہ اگر نسلہ ٹاور گرایا جا سکتا ہے تو پاکستان پوسٹ نے لوگوں پر
جو ظلم شروع کر رکھا ہے آخر اسے کب روکا جائے گا؟
یہ تحریر کسی دل جلے حکومت مخالف کی نہیں ہے ، یہ تحریر اس حکومت کو کامیاب
دیکھنے والے ایک درد مند کی ہے آخر اس حکومت کو بدنام کرنے کے لیے پاکستان
پوسٹ کی ساکھ کو تباہ کرنے کا گھناؤنا کھیل کون کھیل رہا ہے ؟ قومی ذرائع
ابلاغ اس مسئلہ کو زیر بحث لائیں اور حل تجویز کریں ۔
|