ابھی پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت
پاکستان تحریک انصاف کو پے در پے ملنے والی شکست کی گونج باقی تھی کہ خیبر
پختون خواہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے حکومت کی مقبولیت
اور تین سالہ کارکردگی کا پول کھول دیا ۔ خیبر پختون خواہ صوبہ جہاں گزشتہ
8 سال سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور مرکز میں بھی پی ٹی آئی کی
حکومت بے حکمران جماعت کو اس بات کا زعم تھا کہ اس نے خیبر پختون خواہ کی
تاریخ بدل دی ہے تحریک انصاف کے رہنماء اپنی کارکرگی کی مثالیں ہمیشہ کے پی
کے سے ہی دیا کرتے تھے ان کی ہر تان خیبر پختون خواہ پر آکر ٹوٹتی تھی مگر
گزشتہ روز خیبر پختون خواہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے
میں 17 اضلاع کی 64 تحصیلوں میں آنے والے نتائج کے مطابق جمیت علماء اسلام
ف 17 نشستوں کے ساتھ پہلے اور پاکستان تحریک انصاف 15 نشستوں کے ساتھ دوسرے
نمبر پر رہی تاہم اگر اپوزیشن جماعتوں کی حاصل کردہ مجموعی نشستوں کو سامنے
رکھا جائے تو تحریک انصاف محض 25 فیصد نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی
جبکہ میئر کی پانچ نشستوں میں سے 4 پشاور ، مردان ، بنوں اور کوہاٹ میں
ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف ایک سیٹ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
ضمنی انتخابات ہوں یا بلدیاتی انتخابات کسی بھی حکمران جماعت کا جیت جانا
کوئی بڑی بات نہیں ہوتی مگر حکمران جماعت کی شکست انتہائی غیر معمولی بات
ہوتی ہے کیونکہ حکمران جماعت کے پاس ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ تو ہوتا ہی ہے
مگر اس کے ساتھ ساتھ مستقبل کے منصوبے بھی ہوتے ہیں اور ترقیاتی فنڈز بھی
ہوتے ہیں اس کے علاوہ سرکاری مشینری ، اختیارات ، طاقت اثر و رسوخ اور بہت
کچھ ہوتا ہے تحریک انصاف کے پاس بھی یہ سب کچھ تھا اور پھر وزراء کی فوج
ظفر موج ایم پی ایز اور پوری صوبائی حکومت اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم
بھی چلاتی رہی یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کی پابندی کے باوجود وزیر اعظم نے
بھی کے پی کے کا دورہ کیا اور ہلیتھ کارڈ کا باقاعدہ آغاز کیا گیا مگر اس
کے باوجود تبدیلی منہ کے بل جاگری۔
سوال یہ ہے کہ ایک ایسا صوبہ جسے پاکستان تحریک انصاف اپنا گڑھ قرار دیتی
تھی آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ترقیاتی کاموں کے بڑے بڑے
دعووں کے باوجود خیبر پختون خواہ کے عوام نے اسے بری طرح مسترد کر دیا اور
پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی عوام نے حکمران جماعت کو بری
طرح شکست سے دوچار کر دیا۔ پاکستان تحریک انصاف 2018 میں ملک میں ایک بڑی
تبدیلی لانے کے دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی تحریک انصاف کے انتخابی
منشور سے انتخابی مہم تک اور عمران خان کے کنٹینر پر بڑے بڑے دعوؤں سے لیکر
پارلیمنٹ کی پہلی تقریر تک انھوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ وہ ملک سے کرپشن کا
خاتمہ کر دیں گے لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے چوروں لٹیروں کا کڑا احتساب
کر کے عبرت کا نشان بنائیں گے ملک سے بھوک غربت بےروزگاری کا خاتمہ کر دیں
گے معیشت کو مضبوط اور آئی ایم ایف سے نجات حاصل کریں گے مہنگائی کا خاتمہ
کریں گے پسماندہ علاقوں کا احساس محرومی کا خاتمہ کریں گے اقتدار اور
اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کریں گے بجلی کی قیمتیں کم اور ناجائز ٹیکسز
کا خاتمہ کریں گے اور ہم دو نہیں ایک پاکستان کے تحت امیر غریب کی تفریق
ختم کر ایک ایسا نیا پاکستان بنائیں گے جس میں قانون سب کے لیے برابر ہوگا۔
آج پاکستان تحریک انصاف اپنے اقتدار کے ساڑھے تین سال مکمل کر چکی ہے مگر
اس عرصے میں اپنے دعوؤں ، وعدوں اور اعلانات میں کس حد تک کامیاب ہوئی اس
کا اندازہ حکومت کی کارگزاریوں کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات اور حالیہ
بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں عوام نے کھل کر
اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف کو مسترد کردیا جس کا سب سے بڑا
پہلو منہ زور مہنگائی ہے عوام سب کچھ برداشت کر جاتے ہیں مگر جب مہنگائی کی
وجہ سے گھر کا چولہا جلانا مشکل ہوتا ہے تو بندہ بے بس ہوجاتا ہے اور یہ بے
بسی پچھلے تین سالوں سے مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔
ایسی صورتحال میں جب لوگوں کا بھوک غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے جینا
محال ہوچکا ہو کبھی آٹا نہ ملے کبھی چینی نہ ملے کبھی گھی خریدنے کی سکت نہ
ہو ، کسان ایک بوری کھاد کے گھنٹوں لائنوں میں ذلیل ہورہے ہوں گیس کی قلت
سے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہوں مہنگائی نے جینا حرام کر دیا ہو اور حکومتی وزیر
کہہ رہا ہو کہ تین روپے والی ٹیبلٹ اگر سات روپے کی ہوگئی ہے تو کون سی
قیامت آگئی ہے تو ایسے میں لوگ ملک میں تبدیلی آنے کا مزید کتنا انتظار کر
سکتے ہیں یہی تو وہ حالات ہوتے ہیں جب قیامت آئے یا نہ آئے حکمرانوں کی
شامت ضرور آجاتی ہے اور یہی کچھ آج خیبر پختون خواہ میں دیکھنے کو ملا کل
پورے ملک میں دیکھنے کو مل سکتا ہے حکمران جماعت لاکھ تاویلیں پیش کرے لاکھ
جواز گھڑے مگر تبدیلی آنے سے پہلے تبدیلی جانے کا نقارہ بج چکا ہے تبدیلی
آنے کا آغاز بھی کے پی کے سے ہوا تھا اور تبدیلی جانے کی شروعات بھی کے پی
کے سے ہی ہوتی نظر آرہی ہیں حالانکہ ابھی نیا پاکستان بننا باقی ہے ایک
کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بننا بھی باقی ہیں بیرون ملک سے نوکریوں کے
لیے لوگوں کا پاکستان آنا بھی باقی ہے کرپشن کی مد میں بچنے والے تین سو
ارب آئی ایم کے منہ پر مارنا بھی باقی ہے چوروں اور لٹیروں سے اربوں روپے
واپس لے کر نشان عبرت بنانا بھی باقی ہے مگر تبدیلی اس سے پہلے رسوا ہوتی
نظر آرہی ہے مگر اب بھی وقت ہے وینٹی لیٹر پر لیٹی ہوئی تبدیلی کو بچایا
جاسکتا ہے عوام کو تبدیلی کے دکھائے گئے خوابوں کو حقیقت میں بدلا جا سکتا
ہے حکمران اگر ملک میں تبدیلی لانے سے پہلے اپنے رویوں میں تبدیلی لے آئیں
اپنے قول اور فعل کے درمیان حائل خلیج کو ختم کر لیں ڈیڑھ سال باقی ہیں بہت
کچھ بدلا جا سکتا ہے اگر حکمران خود کو اور اپنی پالیسیوں کو بدل لیں اپنے
وعدوں دعووں اور اعلانات پر عمل درآمد کریں عوام کو منہ زور مہنگائی سے
نجات دلائیں ورنہ جو حکمران عوام کی امنگوں پر پورا نہیں اترے تو پھر عوام
کے دلوں سے اترنے میں بھی دیر نہیں لگتی۔
|