کیاملک کا سیاسی موسم بدلنے والی ہواؤں نے رخ بدل
لیاہے؟یہ سوال خیبر پختون خواہ کے بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کے بعد سر
اٹھانے لگا ہے، سیاسی موسم دیکھ کریوں لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی بنجر
حکومت پر مسلسل بارش برسانے اور اسے اپوزیشن کی دھوپ کی تپش سے بچانے والے
بادل بھی اب تھک سے گئے ہیں اور انکی امیدیں ہارنے لگی ہیں ، انقلابی وزیر
اعظم کی یہ حالت ہے کہ’’ ہمیشہ دیر کردیتا ہوں ‘‘کے مصداق اب خیبر پختون
خواہ بلدیاتی الیکشن کے اگلے مرحلے کی خودنگرانی کرنے اور ایک بار پھر اپنے
فالوورز کو نئی امیدیں دلانے کی کوشش کر ر ہے ہیں انکے وزیروں مشیروں
اورترجمانوں کی بوکھلاہٹ بھی صاف عیاں ہے جن کی اکثریت ٹی وی ٹاک شوز میں
پوچھے جانے والے سوالات کا ڈھنگ سے جواب دینے تک کے بھی قابل نہیں رہے جبکہ
بدلتے سیاسی موسم کو دیکھ کر ملک میں زیر عتاب اپوزیشن کی قیادت کا اندازِ
گفتگو بھی تبدیل ہورہا ہے اور اپوزیشن راہنماؤں کے لہجے میں ایک اعتماد کی
جھلک دکھائی دینے لگی اور وہ جیسے نئے سرے سے تا زہ دم ہونے لگے ہیں لاہور
میں خواجہ رفیق مرحوم کی برسی کی تقریب میں مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز
شریف مدت بعد ایک بارپھر گرجتے ہوئے نظر آئے جہاں ر وہ دفاعی لب و لہجہ
اختیار کرنے کی بجائے حکمرانوں کے گریبان پکڑنے کی بات کر رہے تھے لاہور
میں ہی ایک بار انہوں نے آصف زداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی تھی جو
انہیں بعد میں مہنگی پڑی تھی البتہ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ جلد
بازی میں ایسی کئی باتیں کہہ جاتا ہوں انسان کا عتراف ہی اسکی اصلاح کی
بنیاد بنتا ہے خواجہ سعد رفیق جو جیل سے آنے کے بعد کافی عرصہ بُجھے بُجھے
سے رہے ہیں اور نجی محفلوں میں سیاسی کلچر اور سیاسی جماعتوں کی حالت زار
پر گفتگو کرتے ہوئے خاصے نالاں نظر آتے تھے ان میں بھی ایک دم کرنٹ سا دوڑ
گیا ہے اور انکا جوش خطابت واپس آرہا ہے یہ کرنٹ مسلم لیگ ن ہی تک محدود
نہیں بلکہ سابق صدر آصف زرداری بھی لاہور کو فتح کرنے نکل پڑے ہیں ، لاہور
کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹوں نے جیالو ں کی سیاست
میں امید کے نئے دیئے روشن کر دیئے ہیں، جے یو آئی ف خیبر پختون خواہ کی
فتح کا لطف لے رہی ہے ، مولانا فضل الرحمان نے صاف کہہ دیا کہ غیبی ہاتھ
اٹھتے ہی تحریک انصاف کا حشر عوام کے سامنے ہے، وہاں مولانا کا تمسخر اڑانے
والے تماشائی خود تماشا بن گئے ہیں ، سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان
نے اس حوالے سے ایک ٹویٹ میں مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہونے
والی مبینہ ڈیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کے ساتھ ایک بار پھر دھوکا
ہو گیا ہے اور یہ کہ ڈیل کے تحت آئندہ الیکشن سے قبل میاں نواز شریف وطن
واپس آجائیں گے سیاسی تبدیلی کی خبروں کے طوفان میں وزیر اعظم نے حامیوں کو
پنجاب کے بلدیاتی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف کرنے کی کوشش کی ہے اور اس
حوالے سے میٹنگزکا آغاز کر دیا ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ انکی گاڑی چھوٹ
چکی ہے انکے پاس آپشنز نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں، مینار پاکستان پر بڑے
جلسے کے بعد انکی سیاسی دوکان خوب چمکی تھی مگر حکومت میں آنے کے بعد انہوں
نے نفرت اور انتقام کی فصل بونے کے سوا کچھ نہیں کیا اس فصل سے امن محبت
اور برداشت کے شگوفے نہیں پھوٹ سکتے اب انکی سیاسی دوکان کانام کافی خراب
ہو چکا ہے جس دوکان کا نام خراب ہوجائے تو اسکابھٹہ بیٹھنے سے کوئی روک
نہیں سکتا حکومت کے سرپر تحریک عدم اعتماد کی تلوار لٹک رہی ہے اس سے بھی
پہلے اسے منی بجٹ کی منظوری کا مرحلہ درپیش ہوگا جو کہ کئی لحاظ سے ایک
ٹیسٹ کیس بن جائے گا اپوزیشن جماعتوں میں تحریک عدم اعتماد اس حوالے سے ہم
آہنگی بڑھ رہی ہے ، بات آگے تک گئی تو حکومت کے اتحادی جو اس وقت سوراخ
والی کشتی کے سوار ہیں کشتی سے چھلانگیں لگانے میں دیر نہیں لگائیں گے عین
ممکن ہے پنجاب کے بلدیاتی انتخابات سے پہلے ملک میں نئے عام انتخابات کا
اعلان ہو جائے سیاسی موسم کی تبدیلی کا عمل مکمل ہوگیا اور بادلوں نے کوئی
دھوکا نہ دیا تو اس تبدیلی کا کریڈٹ اتنا اپوزیشن کو نہیں ملے گا جتنا
حکومت کو جائے گاخود وزیر اعظم اور انکی ٹیم نے اسکے لئے راستہ ہموار کیا
ہے،حکمرانوں سے نجات کے لئے اپوزیشن جماعتوں کی جدو جہد کس قدر جاندار تھی
اور اس میں دم خم کتنا تھا اس بحث سے قطع نظر ایک بات واضح ہے کہ مسلم لیگ
ن کے قائد میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے مردوں کے شانہ بشانہ ہی
نہیں بلکہ انکی قیادت کرتے ہوئے ایک نڈر اور دلیر خاتون ہونے کا ثبوت دیا
ہے ناقدین کچھ بھی کہیں انکے سیاسی کردار کو نظر انداز کرنا اب ناممکن ہو
چکا ہے ، آنے والے دنوں میں اقتدار جس پارٹی کے پاس بھی گیا اسکے سامنے منہ
مہنگائی بے روزگاری تجارتی خسارے اور پچاس ہزار ارب کے قرضوں کا پہاڑ جیسا
چیلنج کھڑا ہو گا عمران خان سابق حکومتوں کے نوحے پڑھتے نہیں تھکتے دیکھنا
یہ ہے کہ وہ اپنے بعد میں آنے والوں کے لئے پھولوں کی کون سی سیج پبچھا کر
جاتے ہیں
|