نبی ٔ آخرالزماں ﷺ کا وسیلہ اﷲ تبارک تعالیٰ کو
انتہائی محبوب ہے جس ہستی کی خاطر خالق ِ کون و مکاں نے اتنی بڑی کائنات
تخلیق فرمائی اس کا نام ِ نامی ہی دکھی دلوں کا مداوا اور ان کی ذات ِ
بابرکات مسیحا ہے ایک مرتبہ مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں
نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی دِگرگوں حالت کی) شکایت کی۔ آپ رضی اﷲ
عنہا نے فرمایا : حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس جاؤ اور
اس سے ایک روشندان آسمان کی طرف کھولو تاکہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان
کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی دیر تھی کہ اتنی زور
دار بارش ہوئی جس کی وجہ سے خوب سبزہ اْگ آیا اور اْونٹ موٹے ہوگئے۔ پس اْس
سال کا نام ہی ’’عامْ الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال)‘‘ رکھ دیا گیا۔‘‘
(سنن دارمی، 1 : 56، رقم : 92 الوفا باحوالِ دار المصطفیٰ:ابن جوزی : 817،
رقم : 1534 شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام : 128)
مشہور مدنی محدّث و مؤرخ امام علی بن احمد سمہودی’’وفاء الوفاء (2 : 560)‘‘
میں لکھتے ہیں زین المراغی نے کہا : جان لیجئے کہ مدینہ کے لوگوں کی آج کے
دن تک یہ سنت ہے کہ وہ قحط کے زمانہ میں روضہ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
کے گنبد کی تہہ میں قبلہ رْخ ایک کھڑکی کھولتے اگرچہ قبر مبارک اور آسمان
کے درمیان چھت حائل رہتی۔ (تاریخ وفاء الوفا باخبار دار المصطفیٰ : نور
الدین علی بن احمد السمھودی المتوفی911ھ ج۲ص ۰۶۵) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
یہ روشن دان اْم المؤمنین نے قحط کے زمانے میں حضورِ انور صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے وسیلے سے بارش لانے کے لئے بنوایا تھا۔ جب قحط سے لوگ اور جانور
بھوکے مررہے ہوتے ، بارش نہ ہونے سے زمین پر سبزہ ختم ہوجاتا اور سورج آگ
برسارہا ہوتا ایسے میں رحمۃ اللعالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور
کے اوپر سے اس کھڑکی کو کھول دیا جاتااور دیکھتے ہی دیکھتے رحمۃ اللعالمین
کے وسیلہ سے بارانِ رحمت چھماچھم برسنے لگتی۔ مدینہ شریف کے لوگوں کا ہمیشہ
سے یہ معمول رہا چنانچہ ترکوں کے دور کا احوال تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس جا کر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
توسّْل سے دعا کرنے کا معمول عثمانی ترکوں کے زمانے یعنی بیسویں صدی کے
اوائل دور تک رائج رہا، وہ یوں کہ کہ جب قحط ہوتا اور بارش نہ ہوتی تو اہلِ
مدینہ کسی کم عمر سید زادہ کو وضو کروا کر اوپر چڑھاتے اور وہ بچہ اس رسی
کو کھینچتا جوقبرِ انور کے اوپر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے فرمان کے
مطابق سوراخ کے ڈھکنے کو بند کرنے کے لئے لٹکائی ہوئی تھی۔ اس طرح جب قبرِ
انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ نہ رہتا تو بارانِ رحمت کا نزول ہوتا۔
آج دنیا کرونا وائرس کی زد میں ہے مساجدبندہیں حتی کہ خانہ کعبہ اور
مسجدنبوی ﷺ میں بھی عبادات کا سلسلہ وقفے وقفے سے موقوف کردیا جاتاہے کبھی
حرم پاک نمازیوں سے خالی کرانے کااعلان ہوتاہے قریباً گذشتہ ایک صدی کے
دوران پہلی مرتبہ خانہ کعبہ میں طواف بھی کئی ہفتہں کے لئے بند کردیاگیا
اسی ماہ ِ رمضان کے آغاز میں حرم پاک میں جہاں تل دھرنے کی جلہ نہیں ہوتی
تھی ویرانی کے سبب امام ِ کعبہ سورہ ٔ رحمن کی تلاوت کرتے کرتے دھاڑیں
مارمار کر روپڑے ان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی تو لاکھوں
عاشقان ِ رسول ﷺکی ہچکیاں بندھ گئیں اس لئے کرونا جیسی وباء سے نجات کے لئے
عالم ِ اسلام کے کروڑوں مسلمان خادمین حرمین شریفین سے اپیل کررہے ہیں کہ
"گنبد خضرا" پر بنی کھڑکی(طاق وسیلہ) کو کھول دیا جائے ان شااﷲ کرم ہوگا ہر
وباء دور ہوجائے گی دراصل گنبد شریف کے اوپر نظر آنے والی یہ چیز کوئی قبر
نہیں بلکہ ایک روشن دان ہے جو اْم المؤمنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی
اﷲ عنہا کے کہنے پر بنوایا گیا تھا۔اْس وقت باقاعدہ گنبد شریف نہیں تھا
جیسے موجودہ شکل میں ہے بلکہ چھت تھی جس سے روشن دان نکالا گیا پھر بعد میں
گنبد بنایا گیااور مختلف ادوار میں گنبد شریف میں تغیر وتبدل ہوتا رہا اور
اس پر مختلف رنگ بھی کئے جاتے رہے لیکن سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی قبر انور پر روشن دان بنانے کی روایت کو ہمیشہ برقرار رکھا گیا تاکہ بنی
آخرالزماں ﷺ کے وسیلہ جلیلہ سے حاجات کی قبولیت کا سلسلہ دراز رہے یقینا اﷲ
کے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ کو وسیلہ بناکر جوبھی دعا کی جائے وہ ردنہیں ہوتی
ضرورقبول ہوتی ہے یہ عقیدہ صحابہ ؓ کرام سے لے کر آج تک مقبول ہے۔ آپ گنبد
ِ خضریٰ کو بغور دیکھیں آپ کو ایک جانب ایک بند کھڑکی نما روشندان نظر آئے
گا جسے طاق ِ وسیلہ کہاجاتاہے دراصل گنبد شریف کے اوپر نظر آنے والی یہ
روشن دان اْم المؤمنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے کہنے پر
بنوایا گیا تھا۔اْس وقت باقاعدہ گنبد شریف نہیں تھا جیسے موجودہ شکل میں ہے
بلکہ چھت تھی جس سے روشن دان نکالا گیا پھر بعد میں گنبد بنایا گیااور
مختلف ادوار میں گنبد شریف میں تغیر وتبدل ہوتا رہا اور اس پر مختلف رنگ
بھی کئے جاتے رہے لیکن سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر
روشن دان بنانے کی روایت کو ہمیشہ برقرار رکھا گیا۔ یہ گنبد کیوں بنایا
گیا؟ اس کا جائزہ لینے کے لئے یہ روایت ملاحظہ کیجئے: ایک مرتبہ مدینہ کے
لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی
دِگرگوں حالت کی) شکایت کی۔ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس جاؤ اور اس سے ایک روشندان آسمان کی طرف
کھولو تاکہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی
کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی دیر تھی کہ اتنی زور دار بارش ہوئی جس کی وجہ سے
خوب سبزہ اْگ آیا اور اْونٹ موٹے ہوگئے۔ پس اْس سال کا نام ہی ’’عامْ الفتق
(سبزہ و کشادگی کا سال)‘‘ رکھ دیا گیا۔‘‘ (سنن دارمی، 1 : 56، رقم : 92
الوفا باحوالِ دار المصطفیٰ:ابن جوزی : 817، رقم : 1534 شفاء السقام فی
زیارۃ خیر الانام : 128) مشہور مدنی محدّث و مؤرخ امام علی بن احمد
سمہودی’’وفاء الوفاء (2 : 560)‘‘ میں لکھتے ہیں: زین المراغی نے کہا : جان
لیجئے کہ مدینہ کے لوگوں کی آج کے دن تک یہ سنت ہے کہ وہ قحط کے زمانہ میں
روضہ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے گنبد کی تہہ میں قبلہ رْخ ایک کھڑکی
کھولتے اگرچہ قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل رہتی۔ (تاریخ وفاء
الوفا باخبار دار المصطفیٰ : نور الدین علی بن احمد السمھودیا لمتوفی911ھ
ج۲ص ۰۶۵) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روشن دان اْم المؤمنین حضرتِ سیدتنا
عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے قحط کے زمانے میں حضورِ انور صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے وسیلے سے بارش لانے کے لئے بنوایا تھا۔ جب قحط سے لوگ اور جانور
بھوکے مررہے ہوتے ، بارش نہ ہونے سے زمین پر سبزہ ختم ہوجاتا اور سورج آگ
برسارہا ہوتا ایسے میں رحمۃ اللعالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور
کے اوپر سے اس کھڑکی کو کھول دیا جاتااور دیکھتے ہی دیکھتے رحمۃ اللعالمین
کے وسیلہ سے بارانِ رحمت چھماچھم برسنے لگتی۔
|