تَمسک بالقُرآن اور نجات مع القُرآن !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ سبا ، اٰیت 46 تا 54 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیت !!
قل
انما اعظکم
بواحدة ان تقوموا
للہ مثنٰی و فرادٰی ثم
تتفکروا مابصاحبکم من
جنة ان ھو الا نذیر لکم بین
یدی عذاب شدید 46 قل ماسا
لتکم من اجر فھولکم ان اجری علی
اللہ وھو علٰی کل شئی شھید 47 قل ان
ربی یقذف بالحق علام الغیوب 48 قل جاء
الحق وما یبدئی الباطل وما یعید 49 قل ان ضللت
فان اضل علٰی نفسی وان اھتدیت فبما یوحی الیّ ربی
انه سمیع قریب 50 ولو ترٰی اذ فزعوافلافوت واخذوا من
مکان قریب 51 وقالوااٰمنا بهٖ وانٰی لھم التناوش من مکان
بعید 52 وقد کفروابهٖ من قبل ویقذفون بالغیب من مکان بعید
53 وحیل بینھم وبین مایشتھون کما فعل باشیاعھم من قبل انہم
کانوا فی شک مریب 54
اے ھمارے رسُول ! مُنکرینِ قُرآن آپ پر دیوانگی کا جو بُہتان لگاتے ہیں تو آپ اُن سے کہیں کہ میں تُم سے سو باتوں کی یہی ایک بات کہتا ہوں کہ اگر تُم حق کو جاننا چاہتے ہو تو پھر اللہ کے لیۓ تُم باہم مل کر یا فردا فردا بھی میری میری تعلیم پر غور و فکر کرو گے تو تُمہارا دل گواہی دے گا کہ تُمہارے ساتھ رہنے والے تُمہارے اِس ساتھی پر کوئی دیوانگی نہیں ھے بلکہ اِس پر صرف اِس بات کی دُہن ھے کہ وہ تمہیں تُمہارے مَنفی اعمال کے اُن مَنفی نتائج سے قبل از وقت خبر دار کردے جو ہر مَنفی عمل کے ایک رَدِ عمل کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں اور تُمہارا یہ ساتھی یہ چاہتا ھے کہ تُم اُس کی بات سن کر آنے والی اُس تباہی سے پہلے ہی حق کے انکار جیسا مَنفی عمل ترک کر کے اُس تباہی سے بچ جاؤ جس نے آنا ہی آنا ھے اور آپ اِن لوگوں کو یہ بھی بتادیں کہ میں تُمہاری نجات کے لیۓ دعوتِ حق کا جو کام کر رہا ہوں تو اِس کام کے کسی صلے کا بھی تُم سے اُمید وار نہیں ہوں کیونکہ میرا رَب جو میرے ہر کام کو دیکھتا ھے وہ میرے ہر کام کا مُجھے بے طلب صلہ بھی دیتا ھے ، اگر تُم قُرآن پر ایمان لاؤ گے اور میرے اِس کام میں میرا ہاتھ بٹاؤ گے تو تمہیں بھی اِس کام کا وہی بے طلب صلہ ملے گا جو مُجھے ملتا ھے ، یہی وہ اَزلی و اَبدی سچ ھے جو اللہ میری لوحِ دل پر ثبت کرتا ھے اور میں اپنی زبان سے تمہیں سناتا ہوں ، اَب جب یہ اَزلی و اَبدی سچ تُمہارے پاس آگیا ھے تو اِس کے بعد تُمہارے پاس جُھوٹ کی جڑ کاٹ دینے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ھے ، اگر تُم یہ سمجھتے ہو کہ میں اِس سچ بیانی کے بعد تُمہارے معاشرے میں تنہا ہو گیا ہوں تو سچ کی اِس تنہائی کا میری رُوح پر کوئی بوجھ نہیں ھے کیونکہ وہ میرا رب ہر وقت میرے قریب ہوتا ھے اور میری ہر بات کو قریب سے سنتا ھے اور اے ھمارے رسُول ! آپ اِس وقت مُنکرینِ قُرآن کی اُس ذلت کو دیکھ تو نہیں سکتے لیکن وہ وقت کُچھ زیادہ دُور بھی نہیں ھے کہ جب توحید کو ترک اور شرک کو اختیار کرنے والے یہ مُشرک عرصہَ حیات سے نکل کر عرصہِ محشر میں خوف سے مارے مارے پھر رھے ہوں گے لیکن اللہ کی پکڑ سے یہ کہیں پر بھی نہیں بچ سکیں گے اور جب یہ اُس جگہ پُہنچ جائیں گے تو اُس وقت کہیں گے ھم اللہ کی توحید اور رسُول کی رسالت کی صداقت پر ایمان لاتے ہیں لیکن اُس وقت وہ دُنیا کے حلقے سے نکل کر یومِ حساب کے حلق میں جا چکے ہوں گے اور دُنیا اُن کے ہاتھ سے نکل چکی ہو گی اور ہاتھ سے نکلی ہوئی دُنیا تو کبھی بھی کسی کے ہاتھ آتی حالانکہ اِس سے پہلے دُنیا میں یہی سرکش لوگ اپنے کفر کے حق میں بڑی بڑی دلیلیں اور بڑی بڑی تاویلیں لایا کرتے تھے لیکن اُس وقت وہ اُس ایمان و یقین کی آرزو کریں گے جس ایمان و یقین سے دُنیا میں اسی طرح محروم ہو چکے ہوں گے جس طرح اُن سے پہلے لوگ دُنیا میں محروم ہو چکے تھے کیوں کہ یقین کی اِس قید سے پہلے یہ سارے گُم راہ لوگ ایک بڑے شک کی بڑی قید کے بڑے قیدی تھے !

مطالبِ اٰیات و مطالبِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کے ابتداۓ کلام میں خالقِ عالَم کے عملی تعارف و اعتراف کے لیۓ خالقِ عالَم کے اِس عالَمِ ہست و بُود کو اور اِس عالَمِ ہست و بُود میں جاری رہنے والے اُس کے اُس علمِ موجُود و عملِ موجُود کو پیش کیا تھا جس علمِ موجُود و عملِ موجُود سے خالق کا یہ عالَم اور خالق کا یہ نظامِ عالَم چل ر ہا ھے جس میں اُس کی جماداتی و نباتاتی اور حیواناتی مخلوقات رہتی ہیں اور انسان بھی ایک ذی شعور مخلوق کے طور پر اُس کے اِس عالَم میں رہنے والی اِن مخلوقات میں رہتے ہوۓ اپنے آپ کو اور اپنے خالق کی اِن مخلوقات کو بھی دیکھتا رہتا ھے ، قُرآنِ کریم نے اپنے ابتداۓ سُورت کے اُس ابتداۓ کلام کے بعد اِس سُورت کے اِس انتہاۓ کلام میں خالقِ عالَم کے علمی تعارف و اعتراف کے لیۓ اپنے اُس رسُول کا ذکر کیا ھے جس پر اُس نے قُرآنِ کریم نازل کیا ھے اور اِس کے ساتھ ساتھ اُس معاشرتی کشمکش کا ذکر بھی کیا ھے جو نزولِ قُرآن کے زمانے میں اُس صاحبِ قُرآن اور اُن مُنکرینِ قُرآن کے درمیان ہوتی رہتی تھی جو آپ کی قُرآنی لگن کو دیوانگی کا نام دیتے تھے ، اِس سُورت کے اِس مضمون کے اِس آغازِ کلام کے بعد اِس سُورت کے اِس مضمون کی جو دیگر تفصیلات وارد ہوئی ہیں اُن کا مقصد انسان کو اِس اَمر کی تعلیم دینا ھے کہ خالقِ عالَم کے عملی تعارف و اعتراف کا ایک مظہر تو یہی عالَمِ موجُود ھے جو اَنبیاۓ کرام کے اِس عالَم میں آنے سے پہلے بھی موجُود تھا اور اُن کے جانے کے بعد میں بھی موجُود رھے گا اور خالقِ عالَم کے علمی تعارف و اعتراف کا دُوسرا مظہرِ اَتم انبیاۓ کرام کا وہ علمِ وحی ھے جس کی حتمی شکل قُرآنِ عظیم ھے جس نے خالقِ عالَم کے تعارف و اعتراف کے لیۓ اُس وقت تک عالَم کے ساتھ عالَم میں موجُود رہنا ھے جب تک اِس عالَم نے موجُود رہنا ھے اور اِس عالَم نے اُس وقت تک موجُود رہنا ھے جب تک اُس کو خالقِ عالَم نے موجُود رکھنا ھے ، اِس سُورت کے اِس آخری مضمون کی اِس مُجمل وضاحت کے بعد اگرچہ مزید کسی بھی وضاحت کی ضرورت نہیں ھے لیکن اِس سُورت کی اُس اٰیت 50 پر تھوڑی سے گفتگو لازم ھے جس اٰیت کی اہلِ روایت کے بڑے ترجمان مولانا مودودی مرحوم نے پہلے تو یہ ترجمانی کی ھے کہ { کہو اگر میں گم راہ ہو گیا ہوں تو میری گم راہی کا وبال مجھ پر ھے اور اگر میں ھدایت پر ہوں تو اس وحی کی بنا پر ہوں جو میرا رب میرے اوپر نازل کرتا ھے } اور پھر اُنہوں نے اِس ترجمانی پر یہ وضاحتی حاشیہ بھی تحریر کیا ھے کہ { اس زمانے کے بعض لوگوں نے اِس اٰیت سے یہ استدلال کیا ھے کہ اس کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گمراہ ہو سکتے تھے بلکہ ہوجایا کرتے تھے ، اسی لیۓ اللہ تعالٰی نے خود حضور ہی کی زبان سے کہلوادیا کہ اگر میں گم راہ ہوتا ہوں تو اپنی گمراہی کا خود ذمہ دار ہوتا ہوں اور راہِ راست پر میں بس اس وقت ہوتا ہوں جب میرا رب مجھ پر وحی ( یعنی آیات قرآنی) نازل کرتا ھے ، اس غلط تاویل سے یہ ظالم لوگ گویا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضور کی زندگی معاذاللہ ہدایت و ضلالت کا مجموعہ تھی اور اللہ تعالٰی نے کفار کے سامنے حضور سے یہ اعتراف اس لیئے کروایا تھا کہ کہیں کوئی شخص آپ کو بالکل ہی راہ راست پر سمجھ کر آپ کی مکمل پیروی نہ اختیار کر بیٹھے حالانکہ جو شخص بھی سلسلہ کلام پر غور کرے گا وہ جان لے گا کہ یہاں "اگر میں گم راہ ہوگیا ہوں" کے الفاظ اس معنی میں نہیں کہے گۓ ہیں کہ معاذاللہ حضور فی الواقع گم راہ ہو جاتے تھے بلکہ پوری بات اس معنی میں کہی گئی ھے کہ "اگر میں گم راہ ہو گیا ہوں جیساکہ تم مجھ پر الزام لگا رھے ہو ، اور میرا یہ نبوت کا دعوٰی اور میری یہ دعوت توحید اسی گم راہی کا نتیجہ ھے جیسا کہ تم گمان کر رھے ہو تو میری گم راہی کا وبال مجھ پر ہی پڑے گا ، اس کی ذمہ داری میں تم نہ پکڑے جاؤگے } اِس آیت کا یہ ترجمہ و تعبیر کرنے میں مولانا مودودی اکیلے ہی نہیں ہیں بلکہ اہلِ تفسیر کے سارے ہی ترجمہ کار و تفسیر کار شامل ہیں لیکن اِس سلسلہِ کلام کی پہلی حقیقت یہ ھے کہ اگر اِس ضلّ کا معنٰی واقعی مُجرد گم راہی ھے تو اِس کو کسی فلسفہ و کلام کے زور سے گم راہی کے سوا کُچھ اور ثابت نہیں کیا جا سکتا اور دُوسری حقیقت یہ ھے کہ کلام عرب میں "ضلّ" کا معنٰی مُطلقا گم راہی ہر گز نہیں ھے بلکہ اِس کے اور بھی مُتعدد معنی ہیں جن میں سے ایک معنٰی گم راہی بھی ھے جو گم راہ لوگوں نے اپنی فکری اور فطری گم راہی کے باعث اختیار کیا ھے حالانکہ عربی لغت میں صحرا کے سینے میں گڑے اُس تنہا درخت کو بھی "ضالہ" کہا جاتا ھے جو ریگستان کی بے نَم زمین سے نَم اور اُس کی آتش گیر فضا سے کاربن حاصل کر کے اپنی کوشش سے پروان چڑھتا ھے اور مسافرانِ راہ کے لیۓ اپنے اسی تفرد و تنہائی کی وجہ سے کشش کا باعث ہوتا ھے کہ وہ اِس بے سمت صحرا کے سینے میں اِس کو دیکھ کر اپنے سفر کی سمت کو درست کرتے ہیں اِس لیۓ اِس کی یہ تنہائی گمراہی نہیں ہوتی بلکہ گم راہوں کے لیۓ ایک رہنمائی ہوتی ھے کیونکہ صحرا کے مسافر اِس کو دیکھ کر راستہ تلاش کرتے ہیں ، قُرآن کریم نے سُورہِ نجم میں سدرةُ المنتہٰی کے جس درخت کا ذکر کیا ھے علماۓ لغت کے نزدیک وہ بیری کا ایک درخت ھے جو اپنے تفرد اور اپنی بلندی کی بنا پر "ضالہ" کے نام سے موسوم کیا گیا ھے اور ھمارے نزدیک اِس مقام پر ضالہ کا معنی تنہا و منفرد ہونا ہی ایک درست معنٰی ھے اور نبی علیہ السلام بھی ھدایت و رہنمائی کے لیۓ عالَم میں عالَم کی وہ مُفرد و مُنفرد ہستی تھے جن کا اِس اٰیت میں ھدایت کے اُس مُفرد و مُنفرد فرد کے طور پر ذکر کیا گیا ھے جس کی تنہائی ہی اُس کی وہ سب سے بڑی ھدایت و رہنمائی ہوتی ھے جس کو دیکھ کر لوگ آپ کے قریب آتے ہیں اور آپ حق سے اُن بہٹکے ہوۓ لوگوں کو تمسک بالقرآن کی تعلیم اور نجات مع القرآن کی بشارت دیتے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457434 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More