انسانیت اور رسُولِ انسانیت

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ فاطر ، اٰیت 15 تا 26 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الناس انتم
الفقراء الی اللہ و
اللہ ھوالغنی الحمید
15 ان یشایذھبکم ویات
بخلق جدید 16 وما ذٰلک علی
اللہ بعزیز 17 ولاتزروازة وزر اخرٰی
وان تدع مثقلة الٰی حملھا لایحمل منه
شئی ولو کان ذاقربٰی انما تنذر الذین یخشون
ربھم بالغیب واقامواالصلٰوة ومن تزکٰی فانما یتزکٰی
لنفسه والی اللہ المصیر 18 وما یسوی الاعمٰی والبصیر
19 ولاالظلمٰت ولاالنور 20 ولاالظل ولاالحرور 21 ومایسوی
الاحیاء ولاالاموات ان اللہ یسمع من یشاء وماانت بمسمع من فی
القبور 22 ان انت الّا نذیر 23 اناارسلنٰک بالحق بشیرا ونذیرا وان من
امةالّاخلافیھا نذیر 24 وان یکذبوک فقد کذب الذین من قبلھم جاءتھم
رسلھم بالبینٰت وبالزبر وبالکتٰب المنیر 25 ثم اخذت الذین کفروافکیف کان
نکیر 26
اے زمین کے سینے پر اور آسمان کے ساۓ تلے رہنے والے انسانو ! اللہ تُم سب کا عطا گر ھے اور تُم سب اُس کے گداگر ہو ، اگر تُم اُس کی اِن گونا گوں نوازشوں پر اُس کا شکرنے کے بجاۓ اُس سے کفر کرو گے تو اُس کے لیۓ یہ اَمر کُچھ بھی مُشکل نہیں ہو گا کہ وہ اپنی اِس زمین سے تمہیں ہٹا دے اور اِس زمین پر تُمہارے بجاۓ اپنی کسی دُوسری شکر گزار مخلوق کو لا کر بسا دے ، جب تُمہارے حسابِ عمل اور احتسابِ عمل کا دن آۓ گا تو اُس دن کوئی بھی انسان کسی بھی انسان کے عملِ نیک و بد کا بوجھ نہیں اُٹھا پاۓ گا اور اگر اُس دن کوئی بھاری بھرکم بوجھ تلے دبا ہوا انسان کسی دُوسرے انسان کو بلاۓ گا تو اُس دن اُس کا کوئی عزیز ترین رشتے دار بھی اُس کے پاس نہیں آۓ گا لیکن اے ھمارے رسُول ! آپ تو اپنی یہ بات صرف اُن لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو اِس عالَمِ غیب کے اُس عالِمِ غیب کی غائبانہ رضا جوئی کا خیال رکھتے ہوۓ اُس کے فرمان کی نافرمانی سے ڈرتے ہوۓ اُس کے اَحکامِ نازلہ کی اتباع کرتے ہیں اِس لیۓ اہلِ زمین میں سے جو انسان بھی زمین میں پاکیزہ نفسی اختیار کرے گا وہ اپنی ہی جان و رُوح کی بالیدگی کے لیۓ اختیار کرے گا اور اِس حقیقت کو جان کر یہ پاکیزہ نفسی اختیار کرے گا کہ جس طرح ایک بینا و نابینا انسان برابر نہیں ہوتا ، جس طرح اندھیرا و اُجالا ایک برابر نہیں ہوتا یا پھر جس طرح چڑھتے سُورج کی دُھوپ اور ڈھلتے سُورج کا سایہ برابر نہیں ہوتا اور یا جس طرح ایک زندہ و مُردہ انسان ایک برابر نہیں ہوتا اسی طرح ایک بالیدہ نفس انسان اور ایک آلودہ نفس انسان بھی ایک دُوسرے کے ساتھ برابر نہیں ہوتا لیکن مُردوں کو یہ باتیں تو صرف اللہ ہی سنا سکتا ھے ، آپ تو یہ باتیں صرف زندہ انسانوں کو ہی سنا سکتے ہیں ، مُردہ انسانوں کو ہر گز نہیں سنا سکتے کیونکہ زمین پر آپ کا کام زندہ انسانوں کو اُن کے بُرے اعمال کے بُرے نتائج سے ڈرانا ھے ، مُردہ انسانوں کو زندہ کرنا آپ کا کام نہیں ھے ، اگر یہ لوگ آپ کے پیغامِ توحید اور آپ کے اعلانِ رسالت کی تکذیب کریں گے تو درحقیقت یہ لوگ اپنے اُن بڑوں کی تقلید کریں گے اِن کے جو بڑے اِس سے پہلے بھی اللہ تعالٰی کے نُوری صحائف و نُورانی کتابوں کی اور اُن صحائف و کتب کے لانے والے برگزیدہ انبیاۓ کرام کی تکذیب کر چکے ہیں ، اِن کے اُن بڑوں کا اَحوال یہ ھے کی ھم نے جب اُن کو اپنے ایک سخت عذاب کی پکڑ میں جکڑ لیا تھا تو تب ہی اُن کو یہ معلوم ہوا تھا کہ انسان کی اَداۓ نافرمانی کیا ہوتی ھے اور اللہ کی سزاۓ نافرمانی کیا ہوتی ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم کی اِس سُورت کی پہلی 14 اٰیات میں سے پہلی 8 اٰیات میں پہلے اللہ تعالٰی کی ذات کے تعارف و اعتراف کو اُجاگر کیا تھا اور اُس کے بعد آنے والی 6 اٰیات میں اللہ تعالٰی کی توحید پر ایک عقلی و مَنطقی استدلال و استشہاد کا ایک سلسلہ مکمل کیا تھا اور موجُودہ 11 اٰیات میں انسان کے اُن اعمالِ توحید و نتائجِ اعمالِ توحید پر وہ قابلِ فہم عقلی و مَنطقی بحث کی گئی ھے جس کو ہر انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ھے اور ہر انسان سمجھنے کے بعد آسانی کے ساتھ رَد و قبول بھی کر سکتا ھے ، موجُودہ اٰیات میں جو عقلی و مَنطقی بحث کی گئی اُس بحث کا نقطہِ آغاز یہ ھے کہ اللہ تعالٰی تمام اہلِ زمین کے لیۓ ایک عطا گر ہستی ھے اور انسان اُس عطا گر ہستی کی وہ گداگر مخلوق ھے جو مخلوق اپنی زندگی کی ایک ایک سانس کی آمد و شُد اور اپنی روزی کے ایک ایک دانے کے لیۓ زندگی کے ایک ایک آتے جاتے لَمحے میں اُسی اللہ تعالٰی کی مُحتاج ہوتی ھے اور زندگی کی پہلی سانس سے زندگی کی آخری سانس تک اُسی اللہ تعالٰی کی مُحتاج رہتی ھے جس نے اِس عالَم کو تخلیق کیا ھے اور اِس عالَم میں اپنی اِس مخلوق کو تخلیق کیا ھے جس مخلوق کی اُس کو ھدایت و رہنمائی مطلوب ھے ، ظاہر ھے کہ زیرِ بحث اٰیات میں زیرِ بحث آنے والی اِس بحث کا مقصد اللہ تعالٰی کی امارت اور اُس کی زیرِ کفالت مخلوق کی غُربت کا موازنہ کرنا تو ہر گز نہیں ھے کیونکہ موازنے کا عمل ہمیشہ ہی دو متوازی طاقتوں کے دو متوازی وسائل کی کمی و بیشی کے بارے میں ہوا کرتا ھے اور یہ بھی ظاہر ھے کہ خالقِ عالَم کے جُملہ وسائلِ عالَم خالقِ عالَم کے اپنے قبضہِ قُدرت میں ہیں اور اُس کی مخلوقِ عالَم میں سے کسی بھی مخلوق کے پاس زندگی اور وسائلِ زندگی کا کوئی بھی وسیلہ نہیں ھے اِس لیۓ اِس خصوصی موضوع کی اِن خصوصی اٰیات کے اِس خصوصی مضمون کا مقصد انسان پر اِس اَمرِ واقعہ کو واضح کرنا ھے کہ اگر تُم لوگ اپنی عقلِ عام کی بنا پر یہ بات پُورے یقین کے ساتھ جانتے ہو کہ زندگی اور وسائلِ زندگی میں سے کوئی ایک چیز بھی تُمہاری دست رَس میں نہیں ھے تو پھر تُم یہ بات بھی پُورے یقین کے ساتھ جان لو کہ تُم اپنے جن خیالی جنوں ، خیالی فرشتوں ، خیالی پیروں ، خیالی پنڈتوں ، خیالی درویشوں اور خیالی خُداؤں کو اپنی حاجت روائی اور مُشکل کشائی کے لیۓ پکارتے ہو اُن کے پاس بھی زندگی اور وسائلِ زندگی میں سے کوئی چیز نہیں ھے اور وہ بھی اِس عالَم میں اُس خالقِ عالَم کے سامنے اتنے ہی بیکس اور بے بس ہیں جتنے تُم بیکس اور بے بس ہو اِس لیۓ اِس بیکراں عالَم میں تُم ہر چیز کے لیۓ اللہ تعالٰی کے مُحتاج ہو اور تُمہارا یہ احتیاج تمہیں یہ بات سنجھانے کے لیۓ کافی ھے کہ تُم کو زندگی اور زندگی کے لیۓ جو وسائلِ زندگی حاصل ہیں تُم اُن پر اپنے خالق کا شکر بجالاتے رہو لیکن اگر تُم نے ترکِ شکر اور اختیارِ کفر کی یہی مُشرکانہ روش برقرار رکھی تو بعید نہیں ھے کہ تُمہارا خالق تُم کو اِس زمین سے مٹا دے اور اِس زمین پر تُمہاری جگہ اپنی کسی شکر گزار مخلوق کو لاکر بٹھا دے ، بظاہر تو یہ بحث انسان کی ضرورت و عدمِ ضرورت اور مجبوری و عدمِ مجبوری کی وہ بحث نظر آتی ھے جس میں بحث میں انسان کو اُس کی ایک مُستقل ضرورت و مُستقل مجبوری سے آگاہ کیا گیا ھے لیکن در حقیقت اِس بحث میں اللہ تعالٰی نے انسان کو اپنی اُسی توحید سے آگاہ کیا ھے جو قُرآن کا ایک مقصدی موضوع ھے اور اِس مقصدی موضوع کا مقصد یہ ھے کہ اگر انسان کی عقل و مَنطق کی رُو سے یہ حقیقت ایک ثابت شدہ حقیقت ھے کہ عالَم کا خالق اللہ تعالٰی ھے ، سارے عالَم کے سارے وسائل کا مالک بھی اللہ تعالٰی ھے اور تُمہارے جسم و جان کا خالق و مالک بھی اللہ تعالٰی ہی ھے تو پھر تُمہاری اپنی عقل و مَنطق کا بھی یہی تقاضا ہونا چاہیۓ کہ تُم اللہ تعالٰی کی توحید پر ایمان لے آؤ اور شرک و کفر سے باز آجاؤ اور چونکہ خالق اور مخلوق کے درمیان تکلّم کا واحد کا ذریعہ نبی کی ذات ہوتی ھے اِس لیۓ اِس کلام کے خاتمہِ کلام پر اللہ تعالٰی نے نتیجہِ کلام کے طور پر انسانیت کے نبی سیدنا محمد علیہ السلام کے ذریعے عالَمِ انسانیت کو یہ بھی بتا دیا ھے کہ جو لوگ اللہ تعالٰی کے اِس کلام پر ایمان لائیں گے وہی لوگ نجات پائیں گے اور جو لوگ اِس کلام پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اللہ تعالٰی کی گرفت میں آئیں گے اور اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کو یہ بھی بتادیا ھے کہ زمین کے جو زندہ انسان زمین پر زندہ انسانوں کی طرح زندہ ہیں وہی زندہ انسان آپ کے مخاطب ہیں ، جہاں تک مُردہ دل و مُردہ ضمیر انسانوں کا تعلق ھے تو اُن مُردہ انسانوں کو زندہ کرنا آپ کے اختیار میں نہیں ھے بلکہ صرف اللہ تعالٰی کے اختیار میں ھے اور اِس بحث کے نتیجہِ کلام کے طور پر جو اصولی بات ھمارے سامنے آئی ھے وہ یہ ھے کہ جو لوگ عھدِ نبوی میں اِس علمی قُرآن کو نازل ہوتا دیکھ کر اور اُس عملی قُرآن کو اِس علمی قُرآن پر عمل کرتا دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاۓ تھے بلکہ اپنے آبائی بتوں کو پُوجا پاٹ میں لگے رھے تھے تو عھدِ نبوی کے بعد بھی وہ لوگ قُرآن کے بجاۓ اپنے اماموں کی اتباع کرتے رہیں گے تاہم جو لوگ اللہ تعالٰی کی اِس کتاب پر ایمان لا چکے ہیں وہ جب تک بقیدِ حیات ہیں تب تک خود بھی قُرآن سے وابستہ رہیں اور احباب کو بھی قُرآن کے ساتھ وابستہ رہنے کی ترغیب و تعلیم دیتے رہیں کیونکہ زمین پر انسان و انسانیت کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے اپنے آخری رسُول پر اپنی جو آخری کتاب نازل کی ھے اُس کتاب نے انسان و انسانیت کی اسی سعی و عمل سے قیامت تک جاری رہنا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558236 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More