آبِ حیات و تابِ حیات اور رَنگِ تابِ حیات !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَہِ فاطر ، اٰیت 27 تا 30اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الم
تر ان اللہ
انزل من السماء
ماء فاخرجنابهٖ ثمرٰت
مختلفاالوانھا و من الجبال
جددبیض وحمر مختلف الوانھا و
غرابیب سود 27 ومن الناس والدواب و
الانعام مختلف کذٰلک انما یخشی اللہ من عباده
العلمٰؤا ان اللہ عزیز غفور 28 ان الذین یتلون کتٰب
اللہ واقامواالصلٰوة وانفقوا مما رزقنٰھم سرا وعلانیة
یرجون تجارة لن تبور 29 لیوفیھم اجورھم ویزیدھم من
فضله انه غفور شکور 30
اے ھمارے رسُول ! آپ نے کب نہیں دیکھا اور کب نہیں غور کیا کہ اللہ کس طرح آسمان سے زمین پر پانی اُتارتا ھے اور پانی کس طرح اپنے قطرات میں چُھپی ہوئی حیات کو زمین کے رگ و ریشے سے گزارتا ھے اور پھر ھم کس طرح اپنی اِس حیات پرور زمین کے اُن حیات افروز درختوں سے حیات کو نکال کر باہر لاتے ہیں جن کی شاخوں پر ھم خوش رنگ پُھول کِھلاتے اور خوش ذائقہ پَھل بناتے ہیں ، حقیقت یہ ھے کہ جس طرح ھماری زمین کے اِن نباتات کی اَصل ایک اور رنگ مُختلف ہیں اسی طرح ھماری زمین کے اُن جمادات کی اَصل بھی ایک ھے جن جمادات کے رنگ کہیں پر سفید ہوتے ہیں ، کہیں پر گہرے سُرخ ہوتے ہیں اور کہیں پر گہرے سیاہ ہوتے ہیں اور جس طرح ھماری زمین کے اِن نباتات و جمادات کی اَصل ایک اور رنگ مُختلف ہوتے ہیں اسی طرح ھماری اِس زمین کے حیوانات میں تمام انسانوں ، تمام چوپائیوں اور تمام مواشی کے رنگ بھی مُختلف ہوتے ہیں ، خالقِ عالَم کی اپنے عالَم میں تخلیق کی گئی اِس حیات کے یہ وہ تخلیقی رنگ ہیں کہ جن پر جب اہلِ علم غور و فکر کرتے ہیں تو وہ خالق کی اِن قُوتوں اور قُدرتوں کی ہیبت سے کپکپا کررہ جاتے ہیں اور بلاشبہ اللہ بھی اپنے اِن اہلِ فکر و نظر بندوں کے ساتھ ہمیشہ خطاپوشی و خطابخشی کا سلوک کرتا رہتا ھے لیکن خالقِ عالَم کے اِس عالَم کے اِن حسین رنگوں میں حسین تر رنگ اُن لوگوں کا رنگ ھے جو ھماری کتابِ نازلہ کے اَحکامِ نازلہ کی اِس طرح اتباع کرتے ہیں کہ ھماری کتاب اُن کو جس رنگ میں ڈھالتی ھے وہ اُس رنگ میں ڈھل کر اللہ کے اَحکام کے مطابق دن کی روشنی اور شَب کی تاریکی میں ھمارے وہ وسائلِ حیات دُوسرے انسانوں تک پُہنچاتے رہتے ہیں جو وسائلِ حیات ھم اُن تک پُہنچاتے رہتے ہیں ، یہ لوگ جو ھمارے ساتھ ھمارا مال ھمارے بندوں تک پُہنچانے والی جو نفع بخش تجارت کرتے ہیں اِس تجارت میں اِن کو کبھی بھی خسارا نہیں ہوتا ھے کیونکہ ھم ہمیشہ ہی اِن کے زَرِ اَصل کو بچاتے اور زَرِ اَصل پر ملنے والے تجارتی نفعے کو بڑھاتے رہتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اہلِ زمین کے ذہین علماۓ زمین نے اَشیاۓ عالَم کے موجُودہ تنوع اور اَشیاۓ عالَم کی موجُودہ ترتیب سے ہمیشہ ہی اللہ تعالٰی کے خالقِ عالَم ہونے پر ایک علمی و فکری استدلال کیا ھے لیکن یہ اُن ابتدائی زمانوں کا استدلال ھے جب انسان کی فکری بصیرت زمین و آسمان ، کوہ و اَشجار اور ثوابت و سیار جیسے بڑے بڑے مظاہرِ عالَم تک جاتی اور لوٹ آتی تھی لیکن اہلِ زمین پر جب اُس کے اُس بچپن کے بعد ذہنی بلوغ اور فکری ابلاغ کا زمانہ آیا تو اہلِ زمین پر اہلِ زمین کے ذہنی بلوغ کے مطابق فکر و نظر کو جِلا دینے والی وہ کتاب نازل کی گئی جس کتاب میں اِہلِ زمین کو یہ بتایا گیا کہ عالَم کے جن بڑے بڑے مظاہرِ عالَم کو تُم اَب تک دیکھتے آۓ ہو وہ تُمہارے ذوقِ نظر کے ایک کم تر زمانے کے چند برتر آثار ہیں لیکن اَب تُم نے اپنے شوقِ نظر کے اُس برتر زمانے کی طرف بڑھنا ھے جس برتر زمانے میں انسانی عقل و شعور سے ذرے کے جگر نے چاک ہونا ھے اور رُوح و مادے کے تعلق نے انسانی خیال پر اپنے جلال و جمال کا وہ رنگ جمانا ھے جس رنگ کے تخلیقی رنگ تمہیں جمادات و نباتات اور حوانات کے جسموں اور جانوں میں نظر آتے ہیں اِس لیۓ اِس وقت تُمہارے فکری بلوغ اور نظری ابلاغ کے ارتقائی سفر کے لیۓ تمہیں جو ابتدائی تعلیم دی جا رہی ھے اُس تعلیم میں تُمہارے ابتدائی غور کے لیۓ جو پہلی قابلِ غور چیز ھے وہ خلا سے زمین پر بارش کا برسنا ھے اور اُس بارش کے پانی سے مُردہ زمین کا زندہ ہونا ھے اور خلا کے اُس زندہ پانی کے زمین میں اُترنے کے بعد مُردہ زمین سے مُردہ نباتات کا زندگی لے کر باہر آنا ، درختوں کی شاخوں پر اُس ایک رنگ کے پانی سے بیشمار رنگ کے پُھول کِھلنا اور اُن بیشمار رنگ کے پُھولوں سے بیشمار رنگوں اور بیشمار ذائقوں کے پَھلوں کا پیدا ہونا ھے لیکن قُدرت کے اِن رنگوں اور اِن موسموں کی یہ بہار محض زمین پر آنے والی ایک خوشگوار بہار ہی نہیں ھے بلکہ تُمہارے قلب و نظر کی بھی وہ بہارِ خوش گوار ھے جس پر تُم نے غور و فکر کرنا ھے اور اپنے اِس غور و فکر سے تُم نے اِس بہار کو اپنی زندگی کی وہ دائمی بہارِ خوش گوار بنانا ھے جو تمہارے لیۓ وہ دائمی بہار ہو جو تُم پر دائمی طور پر بار بار ثمر بار ہو اور تُم اللہ تعالٰی کی اِس زمین سے وہ سارے فائدے حاصل کرو جو تُمہاری علمی و فکری مُشقت کے ساتھ جُڑے ہوۓ ہیں اور جن کو تُم نے اپنی علمی و فکری محنت کے بعد حاصل کرنا ھے ، قُرآنِ کریم نے ایک رنگ کے ایک پانی سے ہزار رنگ کے یہ ہزار رنگ علمی و فکری جلوے دکھانے کے بعد انسان کوہ و دَمن پر بھی ایک نگاہِ فکر ڈالنے کی ترغیب دیتے ہوۓ بتایا ھے کہ اِن کوہ و دَمن کی بُنیاد بھی پانی کی طرح ایک ہی بُنیاد ھے جس کے مُختلف رنگ ہیں اور نباتات و جمادات کے بعد اگر تُم حیوانات کی بُنیاد پر غور کرو تو اُن کی بھی وہی ایک بُنیاد ھے جس ایک بنیاد سے ہزار رنگ پیدا ہوتے ہیں ، ہزار رنگ پروان چڑھتے ہیں اور زندگی کے ہزار رنگ دائروں میں دائرہ دَر دائرہ ہو کر آگے بڑھتے ہیں اور اِن رنگوں اور اِن بہاروں کا یہ سارا عمل اِس بات کی دلیل ھے کہ یہ عالَم کوئی بے خُدا عالَم نہیں ھے بلکہ ایک باخُدا عالَم ھے اور اُس باخُدا عالَم کے خُدا پر ایمان لانا اور اُس کے اَحکامِ نازلہ پر عمل کرنا ہی انسان کی وہ خود شناسی و خُدا شناسی ھے جس کا قُرآنی نام ایمان باللہ اور ایمان بالکتاب ھے ، اٰیاتِ بالا کے اِس مضمون میں خصوصیت کے ساتھ جن دو قابلِ ذکر باتوں کا ذکر کیا گیا ھے اُن میں پہلی بات یہ ھے کہ جب مکتبِ قُرآن کے عالِم اللہ تعالٰی کے اِس رنگ در رنگ نظام پر غور و فکر کرتے ہیں وہ اللہ تعالٰی کے جمال و کمال اور اُس کی ہیبت و جلال سے حیرت زدہ ہوجاتے ہیں اور اُن کے پاس اللہ تعالٰی کی ہستی کو تسلیم کیۓ بغیر کوئی بھی چارہِ کار نہیں ہوتا اور اللہ تعالٰی کے عالَم میں یہی وہ عالِم ہیں جن کے لیۓ اللہ تعالٰی کے پاس ایک حقیقی قدر و منزلت ھے اور دُوسری قابلِ ذکر بات جس کا اِن اٰیات میں ایک خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ھے وہ یہ ھے کہ جو لوگ اللہ تعالٰی کی اِس کتابِ نازلہ پر ایمان لاتے ہیں اور اِس کے اَحکام کے مطابق عمل کرتے ہیں وہ اِس کتاب کے اُس خُدائی رنگ میں رنگ جاتے ہیں جس رنگ میں رنگ جانا اللہ تعالٰی کو مطلوب ھے اِس لیۓ مشاھداتِ عالَم اور انسان کے علم و فکر کا لازمی تقاضا بھی یہی تقاضا ھے کہ انسان اللہ تعالٰی کی اِس کتاب پر ایمان لاۓ اور اِس کے اَحکام کے مطابق زمین پر زندہ رھے تاکہ اِس زندگی کے بعد بھی اِس کو وہ دائمی زندگی ملے جس کی اِس کو آرزُو ھے اور جس میں اِس کی آبرُو ھے ، بقول حضرت اقبال کہ ؏

تِری زندگی اسی میں تِری آبرُو اسی میں

جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رُوسیاہی
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462587 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More