#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ فاطر ، اٰیت 9 تا 14
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
واللہ
الذی ارسل
الریٰح فتثیر
سحابا فسقنٰه الٰی
بلد میت فاحیینابه الارض
بعد موتھا کذٰلک النشور 9 من کان
یریدالعزة فان اللہ عزة للہ جمیعا الیه یصعد
الکم الطیب والعمل الصالح یرفعه والذین یمکرون
السیات لھم عذاب شدید ومکر اولٰئک ھو یبور 10 واللہ
خلقکم من تراب ثم من نطفة ثم جعلکم ازواجا وما تحمل من انثٰی
ولا تضع الّا بعلمه ومایعمر من معمر ولاینقص الّا فی کتٰب ان ذٰلک علی اللہ
یسیر 11 وما یستوی البحرٰن ھٰذا عذب فرات وھٰذا ملح اجاج ومن کل تاکلون
لحما
طریا وتستخرجون حلیة تلبسونہا وتری الفلک فیه مواخر لتبتغوا من فضله ولعلکم
تشکرون
12 یولج الیل فی النہار ویولج النہار فی الیل وسخرالشمس والقمر کل یجری
لاجل مسمی ذٰلکم اللہ
ربکم له المک والذین تدعون من دونه مایملکون من قطمیر 13 ان تدعوھم
لایسمعوادعاءکم ولو سمعوا
مااستجابوالکم یوم القیٰمة یکفرون بشرککم ولا ینبئک مثل خبیر 14
تُمہارا حاجت روا و مُشکل کشا وہی ایک اللہ ھے جو خلا میں ہوائیں چلاتا ھے
اور ھم اُس کی سلطنت کے وہ اہل کار ہیں جو خلا میں اُس کے بناۓ اور پھیلاۓ
ہوۓ بادلوں کو خُشک زمینوں تک لے جاتے ہیں اور وہ بادل اُن مُردہ زمینوں پر
اپنا پانی بر ساکر اُن کو زندہ کر دیتے ہیں اور زمین پر انسانوں کا مر کر
زندہ ہونا بھی اِن مُردہ زمنیوں کی طرح کا ایک عمل ھے ، تُم میں سے جو
انسان عزتِ حیات چاہتا ھے اُس کو جان لینا چاہیۓ کہ عزت کا مرکز اللہ کی
ذات ھے ، جو انسان اپنے پاکیزہ جذبے کے ساتھ اپنی عزت خواہی کے لیۓ اللہ کو
پکارتا ھے تو اُس کا پاکیزہ قول و عمل عزت کے ساتھ اللہ کی طرف جاتا ھے اور
عزت کے ساتھ عزت کا صلہ لے کر آتا ھے اور جو لوگ اپنے مکر و ریا کے لیۓ
معزز بننا چاہتے ہیں تو اُن کو اُن کے مکر و ریا کی ایسی سخت سزا دی جاتی
ھے کہ وہ اپنی ہیکڑی بھول جاتے ہیں ، اگر تُم اپنی حقیقت کو جاننا چاہتے ہو
تو یہ جان لو کہ ھم نے تُمہاری ابتدائی تخلیق خاک سے کی ھے اور تُمہاری
انتہائی تخلیق کے لیۓ ھم نے مرد وزن کے وہ جوڑے بناۓ ہیں جن کے مُشترکہ
نُطفے سے تُمہاری پیدائش ہو رہی ھے ، تُمہاری عورتوں کا حاملہ ہونا اور
تُمہاری اولادوں کا پیدا ہونا مرد و زن کے اسی جذبِ باہم کا نتیجہ ھے ، اِن
مرد و زن سے پیدا ہونے والے جن اَفراد کی ھم عُمریں بڑھاتے یا گھٹاتے ہیں
تو اُس کا یہ نظام ھے کہ انسان کی جان پر جو موت آتی ھے وہ اپنے مقررہ وقت
سے ایک لَمحہ پہلے بھی موت نہیں آتی اور بعد میں بھی نہیں آتی کیونکہ موت
کا یہ عمل ایک محفوظ کتاب میں لکھے ہوۓ محفوظ طریقے سے عمل میں آتا ھے ،
اسی طرح خوش ذائقہ و بدذائقہ پانی کے جو دو الگ الگ دریا ھم نے تخلیق کیۓ
ہیں وہ بھی اپنی تاثیر و عمل کے اعتبار سے یَکساں نہیں ہیں ، اِن میں جو
خوش ذائقہ دریا ھے اُس سے تُم اپنی تشنگی مٹاتے ہو اور جو بدذائقہ دریا ھے
اُس سے بھی تُم خوش ذائقہ دریا کے خوش ذائقہ پانی کی طرح ایک خوش ذائقہ
خوراک حاصل کرتے ہو اور تُم خوش رنگ و خوش نظر موتی و جواہرات بھی اِنہی دو
دریاؤں سے حاصل کرتے ہو ، تُمہارے سفینے اللہ کے حُکم سے ہی اِن قطرہ بہ
قطرہ باہم جڑے ہوۓ دریاؤں کے سینے چیر کر ایک مقام سے دُوسرے مقام تک آتے
جاتے ہیں تاکہ تُم گھوم پھر کر اِن سے اللہ کی رحمت کے خزانے تلاش کرو ، یہ
تُمہارا وہی خود مُختار و با اختیار اللہ ھے جو رات کی تاریکی میں دن کی
روشنی ڈال کر اُس کو روشن کر دیتا ھے اور دن کی روشنی میں شَب کی تاریکی
ڈال کر اُس کو تاریک بنا دیتا ھے ، یہ تُمہارا وہی اِلٰہ ھے جس نے آفتاب و
ماہتاب کو ایک متعین سمت کے ایک متعین راستے پر اِس طرح چلایا ہوا ھے کہ وہ
اَزل سے اَبد تک اِسی متعین دائرے میں رہتے ہوۓ اپنی اپنی مقررہ منزل کی
طرف چلتے چلے جا رھے ہیں ، تُمہارا یہی ایک اللہ ھے تُم جس کی سلطنت میں رہ
رھے ہو لیکن تُم میں سے جو لوگ اِس سلطنت کے اِس مالک کو چھوڑ کر اپنے جن
خیالی خداؤں کو پکاتے ہیں وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ اُن کے یہ خیالی خُدا
ایک کھجُور کی ایک گُٹھلی پر موجُود ایک چھلکے کے مالک بھی نہیں ہیں کُجا
یہ کہ وہ کسی کی حاجت روائی اور مُشکل کشائی کر سکیں اور حقیقت یہ ھے کہ جب
تُم اپنے اُن بے اختیار اور بے اعتبار خداؤں کو پکارتے ہو تو وہ تُم سے
کُچھ سنتے ہی نہیں ہیں اور اگر فرض کرو کہ تُمہارے گمان کے مطابق کُچھ سن
بھی لیں تو وہ تُمہاری فریاد رسی اور داد رسی کے قابل تو ہرگز بھی نہیں ہیں
یہاں تک کہ قیامت کے روز جب تُم اُن کو اپنی موجُودہ چیخ و پکار کا کوئی
حوالہ دینا چاہو گے تو وہ تُمہاری اِس چیخ و پکار کی سماعت سے صاف صاف
انکار کردیں گے اِس لیۓ کہ تُم سے خبردار رہنے والی ذات صرف اور صرف اللہ
کی ذات ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں اللہ تعالٰی کی توحید کے حق
میں جو پہلا استدلال کیا ھے اُس استدلال میں انسان کو یہ صائب مشورہ دیا
گیا ھے کہ وہ اپنی فکر و نظر اور اپنے احساس و حواس کی مدد سے اپنی ذات سے
کُچھ اوپر اُٹھ کر عالَمِ خلق کے اُن عظیم مظاہر پر نگاہ ڈال کر خُدا کے
اِس عمل کو دیکھے کہ جس عمل سے خلا میں وہ جو بادل بناتا ھے اور پھر اُن
بادلوں کو اُس کے حُکم پر جو ہوائیں خُشک زمینوں تک لے کر جاتی ہیں اور وہ
بادل اُس کے حُکم پر جس طرح اُن خُشک اور مُردہ زمینوں پر پانی برسا کر اُن
کو زندہ کردیتے ہیں مرنے کے بعد تُمہارے جینے کا عمل بھی ایسا ہی ایک
خُدائی عمل ھے جس عمل سے گزرنے کے بعد تُم خُدا کے دربار میں پُہنچ کر اپنے
کیۓ ہوۓ اُس ایک ایک مُثبت و مَنفی عمل کا جواب دو گے جس مُثبت و مَنفی عمل
پر تُمہاری نجات اور تُمہاری عدمِ نجات کا دار و مدار ہو گا اِس لیۓ لازم
ھے کہ تُم جزا و سزا کے اُس مرحلے تک پُہنچنے سے پہلے ہی اپنی سمت درست کر
لو تاکہ تُم دُنیا اور عُقبٰی میں دونوں میں ہی سرخ رُو ہو جاؤ ، قُرآنِ
کریم نے اللہ تعالٰی کی توحید پر دُوسرا استدلال انسان کی اِس خواہش سے کیا
ھے کہ زمین کا ہر ایک انسان زمین پر جس عزت کے ساتھ جینا اور رہنا چاہتا ھے
اُس عزت کا مرکز اللہ تعالٰی کی ذات ھے اور جو انسان اللہ تعالٰی کی توحید
کے پاکیزہ اعتقاد اور اپنے پاکیزہ قول و عمل کے ذریعے اللہ تعالٰی سے عزت و
منزلت کی استدعا کرتا ھے تو اُس کی وہ پاکیزہ استدعا قبول کی جاتی ھے اور
زمین میں اُس کو قدر و منزلت بھی دے دی جاتی ھے لیکن جو مُشرک و متشکک
انسان اللہ تعالٰی کی واحد ذات کو چھوڑ کر اپنے کسی خیالی خُدا سے عزت و
منزلت کی درخواست کرتا ھے تو اُس کی وہ درخواست اللہ تعالٰی کے پاس اِس لیۓ
نہیں پُہنچ پاتی کہ اُس نے وہ درخواست اللہ تعالٰی سے کی ہی نہیں ہوتی اور
جس خیالی خُدا سے اُس نے وہ درخواست کی ہوتی ھے وہ اُس درخواست کو سننے اور
اُس پر اَحکام جاری کرنے کا اہل ہی نہیں ہوتا اِس لیۓ وہ دُنیا میں ہی اللہ
تعالٰی کی اُس سزا کا مُستحق ہو جاتا ھے کہ جب اُس کو ایک ناگہانی عذاب کی
صورت میں وہ سزا دی جاتی ھے تو وہ اپنی ہیکڑی اور چوکڑی ہی بھول جاتا ھے ،
قُرآنِ کریم نے اللہ تعالٰی کی توحید پر تیسرا قوی استدلال انسان کی تخلیق
سے کیا ھے اور اِس استدلال کے ذریعے انسان کو یہ بتایا گیا ھے کہ وہ اپنی
موجُودہ ذات اور اپنے موجُودہ جسم و جان کے حوالے سے کُچھ بھی نہیں تھا
لیکن اللہ تعالٰی نے اِس کو اُس عدم سے اِس وجُود میں لانے کے لیۓ اِس کا
پہلا خمیر پیروں میں رُلنے والی اُس مُشتِ خاک سے اُٹھایا ھے جس میں تکبر
نہیں ھے بلکہ عاجزی ہی عاجزی ھے ، پھر خاک کے اِس پہلے وجُود کو زمینی
خوراک سے بننے والے قطرہِ آب کی صورت دے کر اُس کے باپ کی پُشت تک لایا ھے
اور پھر باپ کی پُشت سے گزار کر رحمِ مادر تک پُہچایا ھے اور پھر رحمِ مادر
سے نکال کر زمین پر لے آیا ھے ، انسان کی تخلیق کا یہ تخلیقی عمل بذاتِ خود
اِس اَمر کا متقاضی ھے کہ وہ اپنے خالق پر ایمان لاۓ اور اُس کے اَحکام پر
عمل کرے ، قُرآنِ کریم نے اللہ تعالٰی کی توحید پر چوتھا استدلال خوش ذائقہ
و بد ذائقہ دریاؤں کے آبِ دل نواز اور آبِ دل خراب سے کرتے ہوۓ انسان کو یہ
بتایا ھے کہ تُم اِس بات پر بھی کبھی غور کرلو کہ اللہ تعالٰی کے سوا آخر
کون ھے جس نے تُمہارے استعمال کے لیۓ خوش ذائقہ و بد ذائقہ پانی کے دو الگ
الگ ذخیرے بناۓ ہیں اور اِن سے دو الگ الگ دریا بہاۓ ہیں ، خوش ذائقہ پانی
سے وہ تُمہاری پیاس بجھانے کا اہتمام کرتا ھے تو بدذائقہ پانی سے بھی وہ
تُم کو ایک خوش ذائقہ خوراک فراہم کرتا ھے اور اُن دونوں دریاؤں کو اُس نے
اُن جواہرات سے بھی بھر دیا ھے جو جواہرات تُم کو اتنے خوش نُما لگتے ہیں
کہ تُم اُن سے اپنے جسموں کو بھی سجاتے ہو اور اُن کی خرید و فروخت سے اپنے
لیۓ زر و مال بھی بناتے ہو اور اُن دریاؤں کے اُن پانیوں پر اُس نے تمہیں
وہ قُدرت بھی دے دی ھے کہ تُم اُن کے بیکراں سینے پر اپنے نازک سفینے چلا
کر ایک جگہ سے دُوسری جگہ پر آرام سے آتے جاتے ہو ، قُرآنِ کریم نے اللہ
تعالٰی کی توحید پر پانچواں استدلال آفتاب و ماہتاب کی اُس مقررہ حرکت و
عمل سے کیا ھے جو ازل کی پہلی ساعت سے اَبد کی آخری ساعت تک جاری ھے اور
آفتاب و ماہتاب دونوں ہی اللہ تعالٰی کے حُکم کے مطابق اپنی اپنی حدود میں
رہ کر اپنے اپنے مقررہ راستے پر اپنی اپنی مقررہ رفتار سے اپنی مقررہ منزل
کی طرف رواں دواں ہیں اور اِن پانچ عام فہم و قوی دلائل کے بعد اللہ تعالٰی
نے اپنے اختیار اور غیر اللہ کی بے اختیاری کا موازنہ کر کے انسان کو
اختیار دیا ھے کہ وہ اللہ تعالٰی کے راستے اور غیر اللہ کے راستے میں سے جس
راستے پر بھی جانا چاھے اُس راستے پر جاۓ لیکن اِس خیال کے ساتھ جاۓ کہ
اللہ تعالٰی کے رستے کی آخری منزل حسین و خوش گوار نتائج پر مُنتج ہوتی ھے
اور غیر اللہ کے راستے کی آخری منزل سنگین و ناگوار نتائج پر مُنتج ہوتی ھے
!!
|