|
|
کچھ عرصے قبل پاکستانی قوم کو ایک دکھ ملا، پاکستان کے
ایک معروف کوہ پیما علی سدپارہ پاکستان کی سب بلند چوٹی سر کرنے کی کوشش
میں جاں بحق ہو گئے- یہ کوہ پیمائی ایک خطرناک مشغلہ ہے ، اس میں جان کا
خطرہ ہر مہم میں رہتا ہے اس لیے صرف باہمت افراد اس جانب آتے ہیں- علی سد
پارہ نے مختلف اوقات میں پاکستان کا جھنڈا مختلف چوٹیوں پر گاڑا، جو ہمارے
لئے ایک فخر کی بات ہے، ایسا ہی ایک بڑا نام نذیر صابر کا بھی ہے ۔ |
|
1997ء پاکستان کی تاریخ کا گولڈن جوبلی سال تھا یعنی اس
سال قوم کو ملک حاصل کئے پورے پچاس سال بیت چکے تھے- ہر کھلاڑی، پینٹر،
شاعر، غرض ہر شخص جو اپنی جانب سے مادر وطن کے لیے جو کچھ کر سکتا تھا وہ
اس مشغلے میں مصروف تھا- بڑی قومیں بڑے دن ایسے ہی ولولے کے ساتھ مناتی ہیں-
1981 میں کے ٹو سر کرنے والے نذیر صابر کے عزائم بھی کچھ ایسے ہی تھے، نذیر
صابر 10 رکنی ٹیم کے ہمراہ دوبارہ ایورسٹ سر کرنے کی کوشش کا آغاز کیا- وہ
1996 بھی ایورسٹ سر کرنے گئے تھے مگر ایک حادثے کی وجہ سے وہ یہ مہم جاری
نہ رکھ سکے- |
|
خیر 1997 میں وہ بہت سی دوسری ذمہ داریوں سے آزاد ہو چکے
تھے جس میں ناردرن ایریا کونسل اور پانچ سال پورے ہونے کی وجہ سے وزارت کی
ذمہ داری شامل تھی-بحوالہ جنگ اخبار 16( جولائی 2000 ) وہ اس بار ذہنی طور
پر ایک مضبوط ارادے کے ساتھ آگے بڑھے، پچھلی بار یہی مہم انھوں نے تبت کی
جانب سے سر کرنے کی کوشش کی تھی- اس بار انہوں نے نیپال کا انتخاب کیا ، اس
ٹیم میں نذیر صابر کے ہمراہ ایک امریکی، چار کنیڈین، ایک آرمینین، ایک
آسٹریلین بھی شامل تھا- |
|
|
|
اس طرح یہ ایک بین الاقومی ٹیم تھی اور قائد کی ذمہ داری
پاکستانی نذیر صابر کر رہے تھے۔یہ مہم انھوں چار مختلف مقامات پر کیمپ لگا
کر مکمل کی- چوتھا کیمپ 7950 میٹر کی بلندی پر تھا، جو ساؤتھ کیمپ کہلاتا
ہے ، یہاں کا درجہ حرارت مائنس 35 سے مائنس 40 ڈگری عام طور پر ہوتا ہے-
یہاں سے پیش قدمی شروع کی 13 مئی کو کیمپ تھری پر پہنچے وہاں ایک مسئلہ
آگیا- ان کا ایک ساتھی بیمار پڑ گیا تھا ،رات گیارہ بجے چوتھے کیمپ سے چوٹی
کی جانب چڑھنا شروع کیا- |
|
اپنے اسی انٹرویو میں انھوں نے بتایا ’’ رات 11:40 پر جب
چوتھے کیمپ سے چوٹی کی جانب بڑھنا شروع کیا تو چاندنی آئی ہوئی- برف پوش
ایورسٹ نے ایک سحر طاری کردیا تھا‘‘ رسیوں کی مدد سے 8700 میٹر کی بلند تک
جاپہنچے ہوا انتہائی سرد تھی، اگے بڑھنے میں خاصی دشواری کا سامنا
تھا-دوبارہ چوتھے کیمپ آنا پڑا، 15 مئی کی رات کو دوبارہ پہلے سے زیادہ
مضبوط ارادے سے مہم پر روانہ ہوئے،16 مئی کو موسم تھوڑا بہتر لگ رہا تھا-
چاندنی نکلی ہوئی تھی، چاند کبھی کبھی بادلوں میں غائب ہو رہا تھا جس کی
وجہ سے روشنی کم زیادہ ہو رہی تھی- وہ وقت ایسا ہوتا ہے جب آپ کا ایک قدم
آپ کو کسی گہری کھائی میں گرا سکتا ہے ،( شاید ایسا ہی کچھ علی سد پارہ کے
ساتھ بعد میں کے ٹو پر ہوا ہو گا)- |
|
|
|
رات ڈھلنے کو تھی ایک وقفے کے بعد دوبارہ اپنے
ساتھی کے ساتھ ہمالیہ کو عبور کرنے آگے بڑھے، چاند غائب ہوا تھا مگر سورج
کی کرنیں بھی نظر آرہیں تھیں- چوٹی کے قریب تر پہنچتے پہنچتے حوصلے اور
بلند ہوتے جارہے تھے، دوپہر ایک بجکر 32 منٹ پر ایورسٹ نذیر صابر سر کر چکے
تھے- پیچھے رہ جانے والے بھی چوٹی کی طرف آرہے تھے، نظیر صابر نے صرف چوٹی
ہی سر نہیں کی تھی بلکہ انھوں چوٹی سے واپسی بھی ریکارڈ ٹائم میں مکمل کی-
نذیر صابر پہلے پاکستانی تھے، اب ایک کوہ پیما کی جانب سے وطن عزیز کو اس
سے بڑا تحفہ کیا دیا جاسکتا تھا۔ |