مومن کا توکل صرف الله عز و جل پر

اللہ تعالٰی کی صحیح معرفت ہی توکل کی بنیاد ہے۔ اسباب اختیار کرنا اور اپنے طور پر تمام لوازمات پر عمل کرنا نیز توحید میں راسخ ہونا توکل کی حقیقت ہے جبکہ توحید بغیر توکل ہو ہی نہیں سکتا۔۔ اللہ تعالٰی پر حسن ظن رکھنا بھی توکل کی بنیاد ہے۔ انسان کو اللہ تعالٰی پر حسن ظن ہونا چاہیے کہ اللہ تعالٰی کی تدبیر ہی میرے لیے بہتر ہے۔ اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو خالق کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں۔
" اور ان منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے گا جو اللہ تعالٰی کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں۔ (الفتح 6)"

اسی لیے توکل کو دل سے جوڑا گیا کہ یہ خالص دل کا معاملہ ہے جسے ناپا نہیں جا سکتا۔ حضرت جنید بغدادی کا فرمان ہے۔
" توحید دل کا قول ہے جبکہ توکل دل کا عمل ہے"

اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں واضح کیا ہے کا توکل صرف اللہ تعالٰی پر ہی ہونا چاہیے کیونکہ جس پر توکل کیا جائے اس کے اندر کچھ صفات ہونی چاہئیں۔ وہ صفات درج ذیل آیات میں ہیں۔
" وہ مشرق اور مغرب کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ لہٰذا اسی کو وکیل بنا لو " (المزمل 9)
" اے محمد (صل اللہ علیہ وسلم) اس معبود پر توکل کرو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں ہے" (الفرقان 58)
" اور اس زبردست اور رحیم پر توکل کرو جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہو" (الشعراء 217)

ان آیات سے معلوم ہوا کہ جس پر توکل کیا جائے وہ مشرق مغرب کا مالک ہو۔ وہ زندہ ہو۔ اسے کبھی موت نہ آتی ہو۔ وہ ہر وقت ہمیں دیکھ رہا ہو۔ ان صفات سے عاری کسی بھی ہستی پر توکل نہیں کیا جاسکتا۔

قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کا توکل دراصل ایمان کی علامت ہے۔
" اور اللہ پر توکل کرو ، اگر تم مومن ہو۔" (المائدہ 23)

ان تمام باتوں کے بعد جو چیز معلوم ہوئی وہ یہ کہ توکل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے بس میں جو کچھ ہے وہ کرے اور تمام اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ پر توکل کرے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ہمارے لیے توکل کے بہترین نمونے ہیں۔ آپ نے 15 سال کی محنت کی اور عمر بھر کی جمع پونجی میدان بدر میں پیش کردی اور پھر اللہ پر توکل کیا۔ اس توکل کا کیا نتیجہ تھا:
" یاد کرو جب تم مومنوں سے کہہ رہے تھے کہ کیا یہ تمہارے لیے کافی نہیں کہ اللہ 3 ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے، بے شک اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو جن ان دشمن تمہارے اوپر چڑھ آئیں گے اسی آن تمہارا رب 5 ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا" (آل عمران 124،125)

میدان بدر میں قریش کے لشکر کی تعداد ایک ہزار تھی ، ایک ہزار افراد کو ہلاک کرنے کے لیے ایک فرشتہ کافی تھا مگر اللہ تعالٰی پر توکل کا نتیجہ دیکھیے کہ اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کی مدد 5 ہزار فرشتوں سے کی۔

میدان احد میں جب مشرکین مدینہ پر چڑھ دوڑے تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
" حسبنا الله و نعم الوكيل"

سیدنا ابراہیم کو آگ میں چھونکا گیا تو جبریل امین علیہ السلام آئے اور فرمایا " اے ابراہیم، کیا تمہیں مدد کی ضرورت ہے؟

آپ نے جواب دیا " مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں، ہاں اللہ تعالٰی کی مدد کی بہر حال ضرورت ہے، اللہ میرے لیے کافی ہر اور وہی بہترین کارساز ہے"۔

اسی توکل کا نتیجہ تھا کا اللہ تعالٰی نے آگ کو حکم دیا
" اے آگ ٹھنڈی ہوجا، سلامتی کے ساتھ ابراہیم پر"

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ پر توکل کرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کا جو شخص " حسبنا الله لا اله الا هو عليه توكلت و هو رب العرش العظيم" 7 مرتبہ پڑھے گا تو اس دن اللہ تعالٰی اس کے تمام معاملات سدھار دے گا۔ اور جو شخص گھر سے نکلتے وقت یہ دعا " بسم الله توكلت علي الله لا حول ولا قوة الا بالله" پڑھے گا تو فرشتہ اس سے کہتا ہے تمہیں ہدایت دی گئ، تمہاری کفالت کی گئ، اور تمہین پناہ دی گئ۔ اس پر ایک شیطان دوسرے شیطان سے کہتا ہے اس شخص سے لو گے جسے ہدایت دی گئی، کفالت کی گئی اور وہ پناہ میں آگیا۔

( عبد الستار خان کے مضمون " اپنے بندوں کے معاملات کا نگہبان، الوکیل" شائع شدہ اردو نیوز 24 جون 2011 سے اقتباس)
Baber Tanweer
About the Author: Baber Tanweer Read More Articles by Baber Tanweer: 27 Articles with 91487 views A simple and religious man.. View More