علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے
روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان اللہ
عٰلم غیب السمٰوٰت
والارض انه علیم بذات
الصدور 38 ھوالذی جعلکم
خلٰئف فی الارض فمن کفر فعلیه
کفره ولایزید الکٰفرین کفرھم عند ربھم
الّا خسارا 39 قل ارءیتم شرکاءکم الذین تدعون
من دون اللہ ارونی ماذا خلقوا من الارض ام لھم شرک
فی السمٰوٰت ام اٰتینٰھم کتابا فھم علٰی بینت منه بل ان یعد
الظٰلمون بعضھم بعضا الّا غرورا 40 ان اللہ یمسک السمٰوٰت والارض
ان تزولا ولئن زالتا ان امسکھما من احد من بعدهٖ انه کان حلیما غفورا 41
اے ھمارے رسُول ! ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ھے کہ جو اللہ
آسمانوں اور زمینوں میں چُھپے ہوۓ راز جانتا ھے وہ اللہ انسانوں کے سینوں
میں چُھپے ہوۓ راز بھی جانتا ھے اور وہ وہی اللہ ھے جس نے تُم کو زمین میں
رہنے کے لیۓ جگہ دی ہوئی ھے اِس لیۓ جو انسان زمین میں اُس کے اَحکام کا
انکار کرے گا وہ نتائجِ انکار کا آپ ہی ذمہ دار ہو گا کیونکہ زمین میں جو
انسان اُس کے اَحکام کا جتنا انکار کرتا ھے وہ اتنا ہی اُس کی ناراضی میں
بھی اضافہ کرتا ھے اور اپنی سرکشی کے سرتوڑ نتائج میں بھی اضافہ کرتا ھے ،
آپ اپنے زمانے کے اِن مُشرکین سے کہیں کہ تُم ارض و سما کے حقیقی خُدا کو
چھوڑ کر جن خیالی خُداؤں کو پکارتے ہو کبھی مُجھے بھی تو دکھاؤ کہ اِن میں
سے کس نے زمین میں بذاتِ خود کُچھ کیا پیدا کیا ھے اور آسمان میں خُدا کے
ساتھ شراکت داری کر کے کس نے کیا کُچھ پیدا کیا ھے اور اُن میں سے کون ھے
جس کو ھم نے وہ وثیقہ لکھ کر دیا ہوا ھے کہ تُم جس کو اپنی دلیل بنا کر اُس
کو اپنا حاجت روا و مُشکل کشا مانتے ہو ، اہلِ ایمان کو یاد رکھنا چاہیۓ کہ
اِن مُشرکوں کی حقیقت اِس سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ھے کہ اَن میں سے کُچھ
دھوکہ دینے والے ہیں اور کُچھ دھوکہ کھانے والے ہیں اور اللہ کی حقیقت یہ
ھے کہ وہ زمین و آسمان پر مُشتمل اِس عظیم عالَم کو سنبھالے ہوۓ ھے جب کہ
یہ بیچارے تو اپنے آپ کو بھی سنبھالنے سے عاجز ہیں اور اَب تُم خود ہی سوچو
کہ یہ اللہ کی بردباری نہیں ھے تو اور کیا ھے کہ یہ سارے مُشرک اپنے اِن
سارے مُشرکانہ اعمال کے باوجُود بھی اللہ کی زمین پر چل پھر رھے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم میں ھمارے اِس عالَمِ شہُود کے مقابلے میں
ھمارے جس عالَمِ غیب کے لیۓ 59 مقامات پر غیب و غیوب ، غیبہ و غائبہ ،
غائبین و غیابہ کے جو الفاظ استعمال کیۓ ہیں اور اُن 59 مقامات میں سے 48
مقامات پر اللہ تعالٰی کے لیۓ عالمُ الغیب کا جو مُرکبِ توصیفی استعمال کیا
ھے اُن 48 مقامات میں سے اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں وارد ہونے والا
تیسرا لفظ اِس کا 31 واں مقام ھے اور قُرآنِ کریم میں عالمُ الغیب کے اِس
مُرکبِ توصیفی کا جہاں جہاں پر بھی استعمال ہوا ھے وہاں پر اِس کا اپنا وہ
خاص معنوی سیاق و سباق رہا ھے جس خاص سیاق و سباق کے تحت اُس مقام پر اِس
مُرکبِ توصیفی کا استعمال ہوا ھے لیکن اٰیت ہٰذا کا یہ مقام اِس اعتبار سے
ایک مُفرد و مُنفرد مقام ھے جہاں پر اللہ تعالٰی کے لیۓ آسمانوں اور زمینوں
میں چُھپے ہوۓ رازوں کے جاننے کا ذکر ہوا ھے تو وہاں پر اِس ذکر کے فورا
بعد انسانوں کے سینوں میں چُھپے ہوۓ رازوں کے جاننے کا بھی ذکر ہوا ھے جس
کی نفسیاتی وجہ یہ ھے کہ انسان جو اِس عالَمِ شہُود میں رہتا ھے وہ اِس
عالَمِ شہُود کے اِن زمین و آسمان کے درمیان جن دیدہ و نادیدہ خطرات میں
گھرا ہوا رہتا ھے اُن خطرات کی بنا پر وہ خود کو ہمیشہ ہی ایک تنہا اور ایک
بے یار و مدد گار ہستی کے طور پر ڈرا ہوا پاتا ھے اِس لیۓ جب عالَمِ شہُود
میں رہنے والے اِس ڈرے اور سہمے ہوۓ انسان کے سامنے عالَمِ غیب کا ذکر آتا
ھے تو اُس کا ذہن فورا ہی اُس عالَمِ غیب میں پُہنچ جاتا ھے جو اُس کے
عالَمِ شہُود سے ماورا ھے اور اُس کا ناقص ذہن فوری طور پر یہی سمجتا ھے کہ
اللہ تعالٰی جو اُس عالَمِ غیب کے رازوں کو جانتا ھے وہ شاید اُسی عالَمِ
غیب میں رہتا ھے جو انسان کی نگاہوں سے اوجھل ھے اسی لیۓ جب ایک مُضطرب
انسان عالَمِ اضطراب میں خُدا کو پکارتا ھے وہ بے ساختہ طور پر یہ خیال کر
کے آسمان کی وسعتوں میں دیکھنے لگتا ھے کہ خُدا فورا ہی اُس کے اِس اضطرابِ
دل کو دیکھ لے اور فورا ہی اُس کے اُس کے اضطرابِ جاں کو دُور بھی کردے ،
انسانی رُوح و نفس کا یہی وہ نفسیاتی اشتباہ ھے جس کو دُور کرنے کے لیۓ
اللہ تعالٰی کے آسمانوں میں چُھپے ہوۓ رازوں اور زمینوں میں چُھپے ہوۓ
رازوں کے فورا بعد انسانوں کے سینوں میں چُھپے ہوۓ رازوں کا بھی ذکر کیا ھے
تاکہ انسانوں کا یہ قلبی و ذہنی اشتباہ فورا ہی دُور ہو جاۓ کہ خُدا اُس سے
کہیں بہت دُور فلک کی وسعتوں میں رہتا ھے اور وہ خود بھی خُدا سے کہیں بہت
دُور زمین کی پستیوں میں بے یار و مدد گار پڑا ہوا ھے اِس لیۓ اٰیتِ بالا
میں انسان کو اِس اَمر کا یقین دلایا گیا ھے کہ خُدا تُم سے ہر گز دُور
نہیں ھے اور تُم بھی خُدا سے ہر گز دُور نہیں ہو بلکہ حقیقت یہ ھے کہ خُدا
جس طرح اپنے آسمانوں اور اپنی زمینوں کے ایک ایک ذرے پر ہمہ وقت اپنی نگاہِ
بصیرت میں رکھے ہوۓ ھے اسی طرح تُمہارے دل کی ایک ایک دھڑکن اور تُمہارے دل
میں آنے والے ایک ایک خیال و سوال کو بھی ہمہ وقت اپنی نگاہِ بصیرت رکھے
ہوۓ ھے یہاں تک کہ تُمہارے سینوں کے سفینوں میں خطرات کے جو اور جتنے طوفان
بھی اُٹھتے ہیں وہ اُن خطرات سے ہمہ وقت آگاہ ہوتا ھے اور تُمہارے اُن کا
خطرات کا ازالہ بھی کرتا رہتا ھے ، کیونکہ اگر عالَم و مخلوقِ عالَم کا وہ
خُدا ایک لَمحے کے ہزارویں حصے میں بھی اپنے عالَم و مخلوقِ عالَم کو نظر
انداز کر دے گا تو یہ عالَم و اہلِ عالَم اُس ایک لَمحے کے ہزارویں حصے میں
ہی نیست و نابُود ہو جائیں گے اِس لیۓ یقین رکھو کہ تُمہارا جو خالق و مالک
جس طرح زمین و آسمان کو تھامے ہوۓ ھے اسی طرح وہ تمہیں بھی تھامے ہوۓ ھے
اور ساتھ کے ساتھ انسان کو یہ بھی باور کرادیا گیا ھے کہ تُمہارا جو خالق
اہلِ کفر و اہلِ شرک کے کفر و شرک کے باجُود بھی اُن پر اپنے رحم و کرم کا
جو سایہ ڈالے ہوۓ ھے اسی طرح تُم پر بھی اپنی اُس رحمت کاسا یہ ڈالے ہوۓ ھے
لیکن یہ بات طے ھے کہ تُم نے اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ کبھی بھی کسی کو
شریکِ ذات نہیں بنانا ھے ، اگر تُم ایسا کرو گے تو دُنیا میں چند روزہ
زندگی تو کسی نہ کسی طرح گزار لو گے لیکن اِس دُنیا کی عارضی زندگی کے بعد
آنے والی دائمی زندگی میں اُس کی دائمی سزا سے کسی طور پر اور کسی طرح پر
بھی نہیں بچ سکو گے !!
|