جمعہ نامہ:جان و مال کی آزمائش

کائناتِ ہستی میں انسانوں کو زندگی کی عظیم نعمت سے نوازنے اور اس کےبعد انہیں موت سےدوچارکردینے کامقصدآزمائش ہے۔ ارشادِربانی ہے :‘‘اس (اللہ تعالیٰ ) نے موت اورزندگی کی تخلیق فرمائی تاکہ تم لوگوں کو آزماکر دیکھے’’۔یہ امتحان نہایت پیچیدہ اور دلچسپ ہے۔کارسازِہستی ٰ اپنےمختلف بندوں کوالگ الگ قسم کے امتحانات سے گزارتا رہتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی بندہ مختلف اوقات میں متضادقسمکے امتحان سے دوچارہوجاتاہے ۔ دنیابھرمیں یہ سلسلہ ہرکس ناکس کے ساتھ جاری رہتا ہے ۔ ارشادِحق ہے:‘‘ اورہم ضرورتمہیں خوف وخطر، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلاکرکےتمہاری آزمائش کریں گے’’۔ حالیہ دھرم سنسدمیں دی جانے والی دھمکیاں دراصل خوف و خطرمیں مبتلاکرنے والی آزمائش ہے۔ اس کے کئی مقاصد ہیں مگر ان میں سے ایک اہل ایمان کوان کے فرض منصبی سے برگشتہ کرناہے۔

اس بابت اگلی آیت میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ:‘‘ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ:‘‘ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کرجاناہے’’۔ ان پران کےرب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت ان پرسایہ کرےگی اورایسے ہی لوگ راست رو ہیں’’۔اردو زبان میں صبرکومجبوری کامتبادل سمجھا جاتا ہےلیکن عربی میں یہ استقامت کامترادف ہے۔ یعنی مشکل ترین حالات میں اپنے دین پر ڈٹے رہنا اور دینی تقاضوں کوبحسن و خوبی اداکرنا ہی صبروثبات ہے۔ مندرجہ بالا آیت میں جان کے علاوہ مالی نقصانات کا بھی ذکرکیاگیاہے۔اس میں آمدنی کاخسارہ یہاں تک کہ فاقہ کشی بھی شامل ہے۔مال کامعاملہ دلچسپ ہےکیونکہ جہاں اس کاچھن جانا ایک ابتلاء ہے وہیں اس کاملنا بھی آزمائش سےکم نہیں ہے۔سورۂ توبہ کی آیت ۵۵ میں کافروں کی خوشحالی کو رشک کی نگاہ سے دیکھنے والے اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ: ‘‘ان کا مال ومنال اور اُن کی اولاد آپ کو حیرت میں نہ ڈالے ، یہ تو محض اِس لیے ہےکہ اللہ اس دُنیا کی زندگی میں اُنہیں عذاب میں مُبتلا کرے ’’۔

مال و دولت کی آزمائش کا شکار اہل ایمان بھی ہوتے ہیں ۔ یہ آزمائش دوقسم کی ہوتی ہے ۔ پہلی تو اپنے دھن دولت پر گھمنڈ میں مبتلا ہوجانا اوردوسرے غیروں سے مرعوب ہوکران کورشک کی نگاہ سے دیکھنا ۔ قرآن حکیم میں قارون کے بارے میں فرمایا گیا:‘‘ یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون موسیٰؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہو گیا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی’’۔ بنی اسرائیل نے قارون کے مال واسباب کو تو دیکھا مگر اس کی سرکشی پر غور نہیں کیا۔وہ بھول گئےکہ طاغوت وقت فرعون کی وفاداری کےعوض کمایا جانے والامال بالآخر اخروی تباہی کا سبب بنےگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قارون کورشک سے دیکھنے لگے ۔

قرآن حکیم میں اس کی منظرکشی یوں کی گئی ہے کہ:‘‘ پھر وہ اپنی قوم کے سامنے (پوری) زینت و آرائش (کی حالت) میں نکلا۔ (اس کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر) جو لوگ دنیوی زندگی کے خواہش مند تھے بول اٹھے :‘‘ کاش! ہمارے لئے (بھی) ایسا (مال و متاع) ہوتا جیسا قارون کو دیا گیا ہے، بیشک وہ بڑے نصیب والا ہے،’’۔ یہ کیفیت سبھی کی نہیں تھی بلکہ ان میں ایسے اہل دانش بھی تھے جنہوں نے قارون کو سرکشی کے باوجود سمجھا بجھا کر راہِ راست پر لانے کی سعی اس طرح کی کہ:‘‘ ایک دفعہ اس کی قوم کے لوگوں نے اُس سے کہا "پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دُنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتے’’ ۔ ان آیات میں اہل ایمان کوتاقیامت مفسدو سرکش سرمایہ داروں کی نصیحت کرنے کا طریقہ سکھایا گیا ہےاور اس پرہردورمیں عمل ہونا چاہیے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450460 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.