ذوالفقار کا گھر اپنے باپ کے گھر، باری صاحب کے گھر سے سو
گز کے فاصلے پر ہے۔ سات سالہ عمار نے اپنے دادا باری صاحب کو بتایا کہ وہ
اپنے والدین کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے دادا کے گھر میں رہنا چاہتا ہے۔ عملی
طور پر اس نے کتابوں کا اور کپڑوں کا بیگ بھی تیار کر لیا تھا۔
باری صاحب کے بیٹے ذولفقار کا نکاح میں نے ہی پڑہایا تھا۔اس وقت سات سالہ
عمار بہت ہی کیوٹ سا بچہ ہے۔ مودب اور ذہین، اور کیوں نہ ہو باپ بھی تعلیم
یافتہ ہے اور ماں بھی ٹیچر ہے۔
ٓآج سے بیس تیس پہلے گھر سے بھاگنے والے بچوں کہ عمر سولہ سال سے زیادہ ہوا
کرتی تھیں۔ انٹرنیٹ نے آ کر وقت کر تیز تر کر دیاہے۔ جو کام سولہ سال کی
عمر کا بچہ کرتا تھا۔اب وہ سات سال کا بچہ کررہا ہے۔
ذوالفقار کے گھر کا ماحول ایسا ہی ہے جیسا متوسط طبقے کے خاندانی لوگوں کا
ماحول ہوتا ہے۔ مودب رکھ رکھاو سے لیس میاں بیوی نے اپنے بچے کی ضروریات کا
کافی خیال رکھا ہوا ہے۔ بچے کو گھر کا کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت کے
علاوہ اس کو ٹیب بھی ملا ہوا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے بچے کو لاڈلا
رکھا ہوا ہے تو غلط نہ ہو۔
باری صاحب کا پوتا ہی نہیں بلکہ کئی گھرانوں کے بچے اپنے والدین سے شاکی
ہیں۔ باری صاحب جب بھی اپنے بیٹے کے گھر جاتے ہیں تو انکی توجہ کا مرکز ان
کا پوتا ہی ہوتا ہے۔ اور پوتا بھی جب اپنے دادا، دادی کے گھر آتا ہے تو بھی
اسے خوب توجہ ملتی ہے۔ بچے کے والد رات کو دیر سے گھر آتے ہیں۔ کھانا کھا
کر وہ کمپیوٹر کے سامنے کمپنی کے کھاتے لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ تو والدہ سکول
سے واپسی کے بعد گھر کے کام کاج میں مشغول ہو جاتی ہے۔ مہمانوں کا آنا جاتا
بھی رہتا ہے۔ ان حالات میں بچہ محسوس کرتا ہے کہ اس سے جو محبت اسکے دادا
اور دادی کرتے ہیں ویسی محبت اسکے والدین اس سے نہیں کرتے۔
آج کے دور کا بچہ، جوان اور بوڑھا ہر شخص دوسرے کی توجہ اور وقت کا طلب گار
ہے۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیاہے کہ بیوی اور خاوند، بہن اور بھائی اور
والدین سوشل میڈیا پر اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ ان حالات میں سات سالہ
بچہ اس داد ہی کے گھر جائے گا نا جو اسکو وقت دیتے ہیں۔
|