اس حمام میں سب ننگے -----
(Munir Bin Bashir, Karachi)
|
پہلی جنگ عظیم کی بات ہے - ترکی کی مسلمان سلطنت عثمانیہ ڈگمگانے لگی تھی اور اس کے زوال کے آثار نظر آ رہے تھے- ان حالات کا سب سے زیادہ اضطراب اس وقت کے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمان محسوس کر رہے تھے - اس کی وجوہات سیاسی بھی تھیں اور مذہبی بھی - وہ اپنے ترک بھائیوں کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے - بہت سے مسلمان نوجوان جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر ترکی کی مدد کے ئے بذریعہ افغانستان روانہ ہوئے - ان میں ظفر حسین ایبک بھی شامل تھے - وہ مولانا سندھی کے معتمد ساتھی تھے اور تحریک ِ آزادی کے سرگرم رکن تھے - سال 1915 کو ہندوستان سے روانہ ہوئے - راستے میں جن مصائب کا شکار ہوئے وہ انہوں نے اپنی خودنوشت 'خاطرات ' میں قلم بند کی ہیں - روس کا حال بیان کرتے ہوئے صفحہ 23 پر تحریر کرتے ہیں کہ رفع حاجت طبعی کے لئے ایسا انتظام تھا کہ پردہ -دروازہ- دیوار وغیرہ غرض کچھ بھی نہیں تھی - سب ایک دوسرے کے سامنے یہ کام سر انجام دیتے تھے - -اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ظفر ایبک صاحب نیچے ایک ویران بیت الخلاء جانے لگے -اگر چہ پردہ وہاں بھی نہیں تھا لیکن وہاں کوئی آتا جاتا نہیں تھا - ظفر حسین ایبک تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دراصل بات یہ ہے کہ روسی بیت الخلاء کے معاملات میں اپنے لئے پردے وغیرہ کے نظام سے تقریباً لا تعلق ہی رہے ہیں - ظفر ایبک صاحب نے نہانے کے انتظام کی بھی ایسی ہی شکایت کی کہ لوگ مادر زاد ننگے نہا یا کرتے تھے - پاکستان اسٹیل مل کے سینکڑوں ملازمیں روس کے کارخانون میں 1975 کے زمانے میں تربیت حاصل کرنے گئے تھے -وہ بھی یہی داستان سناتے ہیں کہ وہاں بھی یہی عالم تھا - بیت الخلاؤں یعنی باتھ روم کھلے ڈلے بغیر کسی پردہ سسٹم کے ہوتے تھے - وہاں کام کر نے والے روسی کارکن اپنے کپڑے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سب کے سامنے اتار دیا کرتے تھے - تربیت حاصل کر نے واے پاکستانی ملازمین سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سارے مناظر کریہہ اور واہیات محسوس ہوتے تھے اور انکے ساتھ ہم آہنگ کرنا انتہائی دشوار تھا ، ہم گھر جا کر ہی فارغ ہوتے تھے -
روسیوں نے کراچی میں اسٹیل مل لگائی تو اس میں بھی سارے باتھ روم یعنی بیت الخلاء بالکل کھلے تھے -ان میں کوئی دروازہ نہیں تھا ( تصویر ملاحظہ فرمائیں) - بعد میں پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ نے اپنے طور پر دروازے لگائے-
شفیع حیدر دانش -- پاکستان اسٹیل مل میں ڈپٹی چیف انجینئر کے عہدے سے فارغ ہوئے تھے - وہ 1976 میں روس گئے تھے اور واپس آکر روس کی بابت سفر نامہ لکھا تھا - اس میں صفحہ 47 پر روس کی اسٹیل مل کے حماموں کی بابت کچھ ایسا ہی لکھتے ہیں -وہ کہتے ہیں کہ روسی کارکن کام کاج سے فارغ ہو کر حماموں کی طرف بھاگتے ہیں تاکہ نہانے کے بعد بس میں سوار ہو جائیں - یہاں کے حمام بھی عجیب ہیں - عورتوں اور مردوں کے لئے بڑے بڑے وسیع و عریض حمام علٰیحدہ علٰیحدہ ہیں - ایک حمام میں سب ننگے والی مثال یہاں صادق آتی ہے - دور دور تک سینکڑون مرد ایک ساتھ شاور تلے نہانے کا لطف اٹھاتے ہیں - یہ برہنہ لوگ شاید لباس پہن کر اتنے بے تکلف اور بے شرم نہیں ہوتے جتنے حمام میں نظر آتے ہیں - خواتین کے اشنان کا عالم بھی ایسا ہی ہے - یہ بات میں نے ان کے حمام کے باہر بیٹھی بزرگ خاتون سے دریافت کی تھی -اس نے بتایا کہ سوائے کسی مست یا شرابی مرد کے -- لوگ خود بھی برہنہ عورتوں کے جم غفیر میں جانا پسند نہیں کرتے لیکن جگہ جگہ شیشے کی کھڑکیوں سے کھرچے ہوئے رنگ اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ مرد ، عورتوں کے اندرونی اور نجی معاملات میں دخل انداز ہونے کے مرتکب ہوتے تھے ------------------------------------------------- شفیع حیدر دانش کا قیام روس کے ایک قصبے لپٹسک میں تھا - یہاں پاکستان کی اسٹیل مل سے آٹھ گنا بڑی اسٹیل مل تھی - وہ ایک مرتبہ پکنک کے لئے وہاں کے دریا پر گئے - لکھتے ہیں کہ بیشتر خواتین نے تیراکی کا لباس پہنا ہوا تھا جو ستر کے قلیل حصے کو ڈھانپنے کے لئے بھی ناکافی تھا - ساحل کے ساتھ ساتھ درختوں کا ایک گھنا جنگل تھا جو میلوں تک پھیلا ہوا تھا - بہت سے لوگ خصوصاً نوجوان جوڑے خلوت کی تلاش میں وہاں کا رخ کر رہے تھے -کچھ جگہوں پر رومانی جوڑے دنیا و مافیہا سے بے خبر جنسی سرگرمیں میں مصروف تھے وہ کہتے ہیں یہ بات ہمارے ئے ندامت اور شرمندگی کا باعث بن رہی تھی لیکن مقامی لوگوں کے لئے نہیں ------------------------------------------ شفیع حیدر صاحب نے جو نظارہ لپٹسک میں دیکھا تھا ، ایسا ہی نظارہ میں نے مصر میں یورپی ممالک کے سیاحوں کو لے جانے والی بس میں دیکھا تھا لیکن میں ندامت اور شرمندگی کی بجائے حیرت زدہ رہ گیا تھا - |