نہ کم نہ زیادہ

اس وقت بھارت میں نفسی نفسی کا عالم ہے،یوں محسوس ہورہاہے کہ بھارت کے وجودکی جو سیڑھیاں ہیں وہ لڑکھڑا نے لگی ہیں،ہندو اور مسلم کی تعصب کی بنیادیں اس قدر مضبوط ہوتی جارہی ہیں کہ اس ملک میں اس وقت مسلمانوں کا جینا محال ہواہے۔تازہ خبر یہ ہے کہ دہلی میں ایک شخص کو بس سے صرف اس لئے اتاراگیاکہ وہ شخص اپنے ساتھ نان ویج ٹفن لے جارہاتھا،اس بس سے مسلمان مسافر کو اتارنے والاکوئی نہیں بلکہ بس کی کنڈکٹر تھی۔قانون کے مطابق پکوان کو بس میں لے جانا غیر قانونی نہیں ہے مگر اس خاتون کنڈکٹر نے اپنے ذہن میں پنپ رہے زہرکو اُگل کر اپنی متصبانہ سوچ کا ثبوت پیش کیا۔اس طرح کے واقعات ہر دن پیش آرہے ہیں،مسلمانوں کو کبھی تجارت سے روکاجارہاہے تو کبھی گھروں سے باہر نکالاجارہاہے،کہیں مسلمانوں کو بازارمیں داخل ہونے سے روکاجارہاہے تو کہیں مسلم تاجروں کو غیر مسلم علاقوں میں تجارت کرنے سے روکاجارہاہے،کہیں پر مسلمانوں پر ڈنڈے برسائے جارہے ہیں تو کہیں مسلمانوں کو زندہ جلانے کی بات کہی جارہی ہے۔دھرم کے نام پر سیاست گرم ہوچکی ہے اور اس ملک کے50 فیصد مسلمان خوف کے ماحول میں جینے کیلئے مجبور ہیں،انہیں آج کی نہیں بلکہ کل کی فکر ستانے لگی ہے جس میں ان کے بچوں کو مزید نشانہ بنایاجاسکتاہے۔جب آج ہی مسلمانوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیاجارہاہے انہیں گھر مکان،دکان اور سواریاں تک کرایہ پر دینے سے روکاجارہاہے تو کل کیاہوگایہ غورکرنے کی بات ہے؟۔ایسے ماحول میں کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جونفع خوری کے عاد ی بن چکے ہیں اورانہیں سوائے نوٹوں کے او رکچھ دکھائی نہیں دیتا۔کئی مسلم علاقوں میں تجارتی مراکز بنائے جاتے ہیں،کئی اوقافی اداروں میں مسلمانوں کیلئے تجارت کے وسائل بنائے جاتے ہیں لیکن نفع خوری کی بیماری سے متاثر ہونے والے نفع خور اولین ترجیح مسلمانوں کو دینے کے بجائے چند سکوں کی خاطر اپنی املاک کرایہ پر دیتے ہیں،جس پر آج غیروں کی فائنانشیل کنڈیشن مضبوط سے مضبوط ہوتی جارہی ہے اور مسلمان وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں۔ہم نے کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو صرف ایک دوفیصد کے تناسب میں کم کرایوں کو دیکر مسلمانوں کو تجارتی مراکز دینےسے گریز کرتے ہیں۔حق تو یہ ہے کہ آج مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مددکرنے کوبھی کمرشیل بناچکاہے۔جبکہ غیرمسلم جو اکثر مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی میں پیش پیش رہے ہیں اُن کیلئے مواقعوں کے دروازے کھول دئیے ہیں۔اس وقت بھارت میں مسلمانوں کو جینا ہے تو انتظامیہ اور تجارت میں اپنے جھنڈے لہرانےہونگے،لیکن یہ لوگ بالکل بھی ایسا نہیں کررہے ہیں۔جس مذہب کی بنیاد تجارت ہو،جس کے نبی تجارت سے جڑے ہوئے تھے اور جن کے یہاں تجارت کرنا سُنت ہے اور جن کیلئے تجارت کو برکت کہاگیاہے وہی مسلمان آج تجارت سے دور ہوکر صرف غلامی کررہے ہیں اور بعض معمولی تجارت پر اکتفاکررہے ہیں۔جن کے پاس خدانے بیش بہا دولت عطاکی ہے،وہ دولت تجوریوں میں بھر رہے ہیں اور بھرتے ہی جارہے ہیں،نہ انہیں اُمت مسلمہ کی فکرہے نہ انہیں آخرت کے تعلق سے فکرہے،بس یہ لوگ اپنا اور اپنے بیو ی بچوں کا بھلا چاہتے ہیں۔چاہے ان کی دولت تجوریوں میں سڑنے لگے اور چاہے ان کی دولت ان کےمرنے سے پہلے پہلے ان کے بچوں کے ذریعے تباہ وبرباد ہوجائے۔لیکن انہیں اس کا رنج نہیں البتہ کسی کے سامنے والے کا بھلا ہونا منظورنہیں۔کیا اسلام نے صرف نماز،روزہ ،حج اور زکوٰۃ کو ہی کامل ایمان قرار دیاہے؟اگر نہیں ہے تو کیونکر مسلمان ایک دوسرے کی مددکرنا نہیں چاہ رہے ہیں۔یاد رکھیں جن مارواڑیوں،گجراتیوں اور یہودیوں کو آپ تجارت کیلئے بہترین قومیں مانتے ہیں یہی قومیں مسلمانوں کو نیزوں پر چڑھانے والوں میں سے ہیں۔بھلے100 روپئے کا منافع آپ کویہ قومیں دینگی لیکن اس100 روپئے کے عوض میں ایک ہزار روپئے کو آپ سے ہی نچوڑیگی۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو آگے لانے کی فکرکریں اور مسلمانوں کو تجارت میں تعائون کریں،ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی تجارت میں ساتھ دے،کوشش یہ کریں کہ جو چیز آپ خرید رہے ہیں وہ مسلمانوں کے یہاں سے ہو اور مسلمان تاجر بھی یہ کوشش کرےکہ میرے گاہک کو میں ناراض نہ کروں اور حق کے ساتھ اُ س سے قیمت لوں۔نہ کم نہ زیادہ کا فارمولہ اسلامک فارمولہ ہے،اس فارمولے پر عمل کیاجائے۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197730 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.