کراچی کے زیرِ زمین ’ٹائم بم‘ بڑے حادثوں کا سبب کیسے بنتے ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

image
 
غباروں میں گیس بھرے جانے کا عمل یقیناً دیکھ رکھا ہو گا۔ اگر کسی غبارے میں ضرورت یا گنجائش سے زیادہ گیس بھر دی جائے تو وہ پھٹ جاتا ہے۔ نکاسی آب کے نظام یعنی سیوریج لائنوں میں بھی اِسی طرح گیسز جمع ہوتی رہتی ہیں اور اگر یہ گنجائش سے بڑھ جائیں تو دھماکے سے باہر آ جاتی ہیں اور نقصان کا باعث بنتی ہیں۔
 
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گذشتہ ایک ماہ میں سیوریج لائنوں میں گیس دھماکوں کے ایسے چار واقعات پیش آ چکے ہیں۔ گذشتہ ماہ ہی کراچی کے علاقے ’شیر شاہ‘ میں سیوریج لائن کے دھماکے سے پھٹنے کے باعث ایک عمارت منہدم ہو گئی تھی جس میں کم از کم 17 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
 
اس سے قبل بھی تین ہٹی سے لے کر نصرت بھٹو کالونی تک کے علاقوں میں جا بجا اس نوعیت کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
 
آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیوریج نالوں میں گیس کیسے جمع ہوتی ہے اور یہ دھماکوں کا باعث کیونکر بنتی ہے، اور یہ بھی کہ اس نوعیت کے واقعات سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
 
image
 
نالوں میں گیسز کیسے بنتی ہیں؟
ماہرین کے مطابق سیوریج نالوں میں موجود گیسوں میں سرِفہرست میتھین اور ہائیڈروجن سلفائیڈ ہیں۔ یہ دونوں گیسز انتہائی آتش گیر (جلد آگ پکڑنے والی) اور ممکنہ طور پر دھماکہ خیز ہوتی ہیں۔
 
کھلے گٹروں میں میتھین کا دباؤ سیوریج کی سطح سے دو سینٹی میٹر اوپر سے جمع کیے گئے نمونوں میں سات سے پندرہ پی پی ایم وی جبکہ بند نالوں میں 300 پی پی ایم وی (یعنی پارٹ پر ملین والیم) ہوتا ہے۔
 
این ای ڈی یونیورسٹی کے پروفیسر نعمان صدیقی کا کہنا ہے کہ سیوریج لائن میں ہر قسم کا فضلہ آ رہا ہوتا ہے، ان میں بعض ایسے کیمیکلز ہوتے ہیں جو گیس کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، گیس کی اپنی ایک گنجائش ہوتی ہے، اور اگر گیسوں کا دباؤ گنجائش سے بڑھ جائے تو اس کے نتیجے میں دھماکہ ہوتا ہے۔
 
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ڈائریکٹر مسعود عالم بتاتے ہیں کہ ’نالوں کے اندر گیسز موجود ہوتی ہیں، اگر نالے کھلے ہوئے ہوں تو گیسوں کا اخراج ہوتا ہے مگر اگر نالے بند ہوں اور گیس کے اخراج کا کوئی خاص ذریعہ نہ ہو تو میتھین گیس ایک دھماکے جیسی صورتحال کا باعث بن جاتی ہے۔‘
 
image
 
گھریلو اور صنعتی فضلہ
اگر آپ کراچی میں رہتے ہیں تو صفائی کے لیے آپ کے پاس کئی اقسام کے کیمیکلز موجود ہوتے ہیں مثال کے طور پر واش رومز اور باورچی خانے کی صفائی کے لیے مختلف اقسام کے کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ کپڑوں کی دھلائی اور چمک کے لیے بھی ڈٹرجنٹ اور بلیچ کا استعمال عام ہے۔
 
کئی علاقوں میں گھریلو اور چھوٹی صنعتوں کا فضلہ بھی ان سیوریج لائنوں میں شامل ہو جاتا ہے جو اپنے ساتھ کیمیکلز لے کر آتا ہے اور یوں زیر زمین سیوریج لائن ایک لیبارٹری کی سی صورت اختیار کر جاتی ہے، جس میں کیمیکل شامل ہو کر ایک ٹائم بم جیسی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور ایک دن ایسا آتا ہے کہ لائن دھماکے سے پھٹ جاتی ہے۔
 
نعمان صدیقی کے مطابق بعض لوگ غسل خانوں اور ٹوائلٹس کی صفائی کے لیے تیزاب کا استعمال کرتے ہیں جس سے سلفر ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسز بن سکتی ہیں۔
 
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ڈائریکٹر مسعود عالم کہتے ہیں کہ کیمیکل جتنا زہریلا ہوگا اس کا اتنا ہی ردعمل ہو گا۔
 
image
 
ان دھماکوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
این ای ڈی یونیورسٹی کے پروفیسر نعمان صدیقی کا کہنا ہے کہ جب پلمبنگ سسٹم کام ہو رہا ہوتا ہے تو انجینیئرز اس کے ساتھ ہوا کے گزرنے کے لیے پائپ لگا دیتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جتنی بھی مضر گیسز ہیں وہ ہوا میں نکل جائیں اور گنجائش سے زیادہ دباؤ کی صورتحال جنم نہ لے سکے۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر پائپ لائن میں یہ اس لیے ضروری نہیں سمجھا جاتا کیونکہ یہ زیر زمین ہوتی ہیں، مین ہولز کے ساتھ کہیں کہیں پر اس کا انتظام کیا جاتا ہے، اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو گیس پیدا ہو رہی ہوتی ہے وہ ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے اور اس سے دھماکے یا حادثہ نہیں ہوتے۔‘
 
شہری منصوبہ بندی کے ماہر محمد توحید کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’سیوریج لائن کی وینٹیلیشن (ہوا کی آمد و رفت کا ذریعہ) رکھی جاتی ہے اور اگر کنکریٹ کے سلیب رکھے ہوئے ہیں تو ایک سلیب کی جگہ چھوڑ دی جاتی ہے اور کچھ ایسے مقامات جہاں مین ہول بنائے جاتے ہیں وہاں ڈھکن میں سوراخ بنائے جاتے ہیں تاکہ وینٹیلیشن ہوتی رہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ کراچی میں اکثر ایسا نہیں کیا جاتا۔‘
 
image
 
نالوں پر قبضے اور گیس کا اخراج
کراچی شہر میں اورنگی نالہ، شیر شاہ نالہ، گجر نالہ، محمودآباد نالہ اور نہر خیام سمیت 41 چھوٹے بڑے سیوریج کے نالے ہیں جن کی نکاسی سمندر کے علاوہ لیاری ندی اور ملیر ندی میں ہوتی ہے جبکہ اس کے علاوہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 500 کے قریب چھوٹے نالے ہیں جو مرکزی نالوں میں شامل ہوتے ہیں۔
 
این ای ڈی یونیورسٹی کے پروفیسر نعمان صدیقی کا کہنا ہے کہ ’نالوں کی گزرگاہیں وقت کے ساتھ قانونی اور غیر قانونی تجاوزات کی وجہ سے سکڑ گئی ہیں، اس کے علاوہ ہر چھ ماہ کے بعد نالوں کی مرحلہ وار صفائی کا سلسلہ اب تقریباً ختم ہو گئی ہے۔‘
 
شہری منصوبہ بندی کے ماہر محمد توحید بتاتے ہیں کہ ’نالوں پر پہلے مرحلے میں سافٹ انکروچمنٹ (چھوٹی تجاوزات) ہوتی ہے اس کے بعد وہ مستقل تجاوزات میں بدلتی ہیں اور اگر حکام ایکشن نہ لیں تو بلآخر وہ کنکریٹ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
 
’ان نالوں کا آپریشن اور بحالی کا کام وقت کے ساتھ نہیں ہو پاتا یعنی سال میں کم از کم بھی چار بار کھول کر صفائی ضروری ہے، مگر اس جانب توجہ ہی نہیں دی جاتی۔‘
 
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر گجر نالے اور محمود آباد نالے سے غیر قانونی تجاویزات ہٹائی گئی ہیں جبکہ ایسے کئی نالے ہیں جو اس وقت عمارتوں اور مارکیٹوں کے نیچے سے گزر رہے ہیں۔
 
محمد توحید کے مطابق واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اگر آپریشن اور مینٹیننس درست انداز میں کرے تو یہ اتنا مشکل کام نہیں، گراونڈ پر مشکلات ضرور ہوں گی مگر وہ ہر کام میں ہوتی ہیں۔
 
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ڈائریکٹر مسعود عالم تسلیم کرتے ہیں کہ نالوں پر قبضے بھی ہیں اور کہیں پر دکانیں اور عمارتیں بھی بنا دی گئی ہیں جس کی وجہ سے صفائی نہیں ہو پاتی۔
 
دوسری جانب، کراچی میں گیس کے باعث ہونے والے دھماکوں کی تحقیقات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ شیر شاہ دھماکے میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا اور وزیر اعلیٰ نے تحقیقات کا حکم بھی جاری کیا تاہم تاحال یہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔
 
محمد توحید کے مطابق ’بدقسمتی سے ان المیوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اس نوعیت کے کسی بھی بڑے حادثے کے بعد ادارے چند روز کے لیے فعال ہوتے ہیں، لیکن اس کا مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: